• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جرمنی کے عظیم فلسفی گوئٹے عالمی ادب اور فلسفہ میں ایک معتبرترین حوالہ ہیں۔ اٹھارویں صدی کے اس عظیم فلسفی نے نبی اکرمﷺ سے متاثر ہوکر ان کی شان میں نعت بھی کہی جسے دنیا بھر میں پذیرائی حاصل ہوئی اور اُردو زبان میں بھی ان کے اس کلام کے متعدد تراجم ہو چکے ہیں۔ گوئٹے نے اگرچہ اسلام قبول نہیں کیا، اسلام اور بالخصوص نبی اکرمﷺ سے مگران کی عقیدت و وابستگی متاثر کن تھی۔ اس میں بھی شبہ نہیں کہ مغربی فلسفیوں، دانشوروں اور ادیبوں کی معقول تعداد کا زیادہ جھکائو اسلام کے پرامن تصورِتصوف کی جانب رہا ہے جس کی ایک مثال مولانا رومیؒ بھی ہیں جن پر مغرب میں بہت زیادہ تحقیقی کام ہوا ہے اور کچھ عرصہ قبل ایلف شفق(Elif Shafak) کی کتاب ’’فورٹی رولز آف لَو‘‘(Forty Rules of Love) حالیہ برسوں میں قبولِ عام حاصل کرنے والی چند نمایاں ترین کتابوں میں سے ایک ہے جس میں مولانا رومؒ اور شاہ شمس تبریزؒ کی باہمی عقیدت کو پیش کرتے ہوئے تصوف کا خلاصہ عام فہم زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ لہٰذا، اس سوال کا پیدا ہونا بعید از قیاس نہیں کہ ایلف شفک نے یہ کتاب کیوں لکھی؟ اس کا سادہ سا جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ مغرب میں مولانا رومیؒ کی غیرمعمولی مقبولیت کے باعث انہوں نے یہ کتاب تخلیق کی جسے دنیا بھر میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ خیال رہے کہ اس کتاب کو اردو کے قالب میں بھی ڈھالا جا چکا ہے۔ ایک اور مفروضہ یہ بھی قائم کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ کتاب مولانا رومؒ اور شاہ شمس تبریزؒ کی عقیدت میں لکھی۔ یہ دونوں وجوہ اس کتاب کی تخلیق کا باعث ہوسکتی ہیں، اس حقیقت سے مگر انکار ممکن نہیں کہ مولانا رومؒ اور شاہ شمس تبریزؒ کے نام اور ان کی تعلیمات مغرب کے لئے اجنبی نہیں ہیں۔

یہ تمام پیش منظر بیان کرنے کا مقصد ایک حالیہ واقعہ ہے جس کا تذکرہ کرنا اس لئے بھی اہم ہے تاکہ ان غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلایا شدت پسندسوچ کا اسلامی فکر سے کوئی تعلق ہے بلکہ یہ صوفیا کی خدمات ہیں جنہوں نے اسلام کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ایک پادری ڈاکٹر کریگ وکٹر فنٹر کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی منفرد ہے۔ وہ روایتی معنوں میں پادری اس لئے قرار نہیں دیے جا سکتے کہ وہ امریکہ کی نمایاں ترین جامعات میں ایک دہائی تک مذہبی علوم کی تعلیم دے چکے ہیں، اوروہ اس دوران بھی راہِ حق کی تلاش میں سرگرداں رہے جسے انہوں نے اپنی زیست میں نمایاں مقام پر رکھا۔ان کی مذہبی تعلیمات پر دسترس، تقابلِ ادیان اور اسلامی تصوف کے مطالعہ نے اس حوالے سے ان کی بیش بہا مدد کی، اور وہ اپنے ماضی کو بھول کر ایک ایسے سفر پر روانہ ہوئے جو مشکل ہونے کے علاوہ جوکھم بھرا بھی تھاکیوں کہ مذہب کی تبدیلی کبھی آسان نہیں ہوا کرتی۔

ڈاکٹر فینٹر مولانا رومؒ کی تعلیمات سے اس قدر متاثر ہو چکے تھے کہ انہوں نے تُرک صوبے قونیہ کے لئے رختِ سفر باندھا جو مسلمان صوفیا کے لئے کوہِ طور کی حیثیت رکھتا ہے اور شمالی کیرولائنا میں پیدا ہونے والے اس مدرس اور پادری نے اسلام قبول کرکے اپنا اسلامی نام اسماعیل رکھ لیا۔ یہ کہانی اگرچہ حال ہی میں میڈیا میں آئی ہے مگر ڈاکٹر فینٹر کو ہدایت کی روشنی رواں ہزاریے کی پہلی دہائی کے وسط میں ہی مل گئی تھی۔ یہ ایک دلچسپ داستان ہے جسے بیان کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ڈاکٹر فینٹر کے لئے قبولِ اسلام آسان نہیں تھا۔حقیقت میں معاملہ یہ ہے کہ ڈاکٹر فینٹر 2004 میں تصوف کی جانب مائل ہونا شروع ہوئے جب ان کا رابطہ مولانا رومیؒ کی 22 ویں نسل سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سے امریکہ میں ہی منعقدہ ایک تقریب میں ہوا۔ انہوں نے مولانا رومیؒ اور اسلامی کا گہرائی و گیرائی سے مطالعہ شروع کر دیا، اور 2005 میں پہلی بارقونیہ کا رُخ کیا اور رقصِ صوفیا دیکھااور 2006 میں اسلام قبول کرلیا۔

وہ اپنی اس کایاکلپ، زندگی میں آنے والی اس اہم تبدیلی اور اپنے خاندان کے ردِعمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں،’’میرے خاندان کے لئے مذہب کی اہمیت غیرمعمولی ہے۔ میرے والد مجھے پادری بنانا چاہتے تھے۔ میں کچھ عرصہ ایک مدرسہ میں زیرِتعلیم بھی رہا تاکہ پادری بن سکوں، ہر اتوار کو باقاعدگی سے عبادت میں شریک ہوتا تھا۔ لیکن بہت سے سوالات ایسے تھے جن کا جواب تلاش کرنا میرے لئے آسان نہیںـ تھا۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’میں مسیحی تعلیمات پر یقین رکھتا تھا لیکن کچھ تو غلط تھا۔ میں اپنی معلومات اپنے طالب علموں کو فراہم کررہا تھا،جو مجھے لایعنی محسوس ہوتیں۔ چناں چہ میں نے راہِ حق کی تلاش جاری رکھی۔میں ان دنوں بھی ایک مسیحی مدرسے میں تدریس کے فرائض انجام دیا کرتا تھالیکن مجھے اپنے پڑھائے ہوئے اسباق پر بھی یقین نہیں تھا‘‘۔

تمام مذاہب میں تبدیلیٔ مذہب کا رجحان موجود ہے مگر حالیہ چند برسوں کے دوران اسلام کے تصورِ تصوف نے ضرور تمام مذاہب کے پیروکاروں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے کیوں کہ مغربی شہری اب یہ ادراک کرنے لگے ہیں کہ اسلام شدت پسندی کی تلقین نہیں کرتا بلکہ اسلامی صوفیا نے تو امن و بھائی چارے کا درس دیا ہے تو اسلام کے حوالے سے ان کے ذہنوں میں پیدا ہونے والی ناپسندیدگی کے جذبات ان کو راہِ حق پر لے آتے ہیں ۔

موضوع کی وسعت کے باعث فی الحال مختصراًیہ ذکرکرنا ضروری ہے کہ مسیحی پادریوں اور مشنریوں میں بھی اسلام کا مطالعہ کرنے کا رجحان روز بروز بڑھ رہا ہے جو اسلام کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان میں ایک نام آمنہ اسلمی کا بھی ہے جو مسلمانوں کو مسیحیت کی تعلیمات دیتے ہوئے خود مسلمان ہو گئیں۔ عبدالاحد دائود بھی ایک کیتھولک پادری تھے جو مسلمان ہوئے اور انہوں نے ’’بائبل میں محمدﷺ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی قلمبند کی جسے زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔یہ ایسے پادریوںا ور مشنریوں کی ایمان افروز داستانوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہیں اسلام کے پرُامن تصور تصوف نے اپنی جانب متوجہ کیا اور انہوں نے مسلمان ہونے میں کوئی تامل نہیں کیا۔

تازہ ترین