• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آواز دوست کی ایک ہی پہچان ہے۔ یہ دل سے نکلتی ہے اور دل تک پہنچتی ہے۔ برادرم عطاالحق قاسمی کی آواز تو چوب شکستہ سے آئی ہے۔ دوست بچھڑ جائے تو چوب خشک میں شکستگی بھی در آتی ہے۔ بھائی قاسمی ، آپ کے دوست پروفیسر احمد حسن حامد کے ارتحال سے صدمہ ہوا۔ ڈاکٹر آفتاب احمد غالب شناس تھے، فلسفے کے شناور تھے۔ میرے استاد تھے۔ میری کیا بساط ، ڈاکٹر صاحب جیسے علم کے چشمے تو نسلوں کے استاد ہوتے ہیں۔ اسلام آباد میں ایک شام ڈاکٹر صاحب فیض رسانی پر مائل تھے۔ سوال کیا کہ حضرت دنیا بھر کا ادب آپ نے کھنگال ڈالا۔ کچھ فرمائیے کہ اس دشت پیمائی میں کیا ہاتھ آیا۔ بہت رسان سے یک لفظی جواب دیا ”تسلیم“ ۔ وہی جو شیکسپیئر نے کہا تھا۔ ہمیں یہاں آنے اور پھر لوٹ جانے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہئے، زندگی اسی سلیقے سے عبارت ہے۔آپ نے مرحوم احمد حسن حامد کے انتقال سے وابستہ کچھ واقعات بھی بیان فرمائے۔ یہ سب قرین قیاس ہے۔ ذہن انسانی کے بھیتر میں نامعلوم دنیائیں آباد ہیں۔ کچھ احباب ان محیرالعقول واقعات سے ٹھوس نتائج اخذ کر لیتے ہیں۔ انہیں اپنی فکر مبارک۔ مجھ جیسے کم ہمت خیال کرتے ہیں کہ نامعلوم کو معلوم کی دلیل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ بھی زندگی کو سمجھنے کا ایک زاویہ ہے، من بھائے کا سودا ہے۔ خاکسار نے مادے کی حدود سے آگے نکلنے سے گریز کیا کہ میں وہاں کے دروبست پر خیال آرائی کی ہمت نہیں پاتا۔ آپ نے ماورائے مادہ معاملات پر ایک رائے قائم کی۔ آپ کی ہمت کی داد دیتا ہوں اور استقامت کی دعا دیتا ہوں۔ مادے میں تبدیلی تو مادے کی وساطت ہی سے لائی جا سکتی ہے۔ جسے سائنس کے اساتذہ علت و معلول کا رشتہ قرار دیتے تھے۔ مادے میں تبدیلی کے اصولوں پر غور و فکر کیا جا سکتا ہے۔ ایسے غور و فکر سے اخذ کردہ نتائج کی پرکھ پڑتال بھی ہو سکتی ہے۔ تو وہ راندہٴ درگاہ جنہیں ہمارے ملک میں سیکولر کا نام دے کر مطعون کیا جاتا ہے، محض یہ التماس کرتے ہیں کہ تمدنی مباحثے، معاشی مکالمے اور سیاسی حرکیات کی بحث اسی دائرے میں ہونی چاہئے جو مجھے اور آپ دونوں کو سمجھ آ سکے مثلاً تعلیمی نظام کی ترجیحات کیا ہوں تاکہ آئندہ نسلیں دنیا کے مقابلے میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ ٹیکس کا نظام کس طرح بہتر بنایا جائے تاکہ لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے حکومت کے پاس زیادہ وسائل موجود ہوں۔ قانونی نظام میں کیا تبدیلیاں لائی جائیں کہ انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے ۔ بس اتنی سی خطا پر اسلام دشمنی کا الزام جڑ دیا جاتا ہے۔ اسلام دشمنی یعنی چہ؟ اپنے عقیدے پر کاربند کسی بھلے مانس کے لئے ممکن ہی نہیں کہ کسی دوسرے مذہب سے عناد رکھے۔ ارے بھائی دنیا میں عقائد کی خوبصورت رنگا رنگی پائی جاتی ہے۔ سب انسانوں کو حق ہے کہ جو عقائد چاہیں، اپنا لیں۔ تہذیب کا تقاضا ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کی مذہبی آزادی کا احترام کریں۔ ہر انسان اپنے ضمیر کی روشنی میں جو مذہب چاہے، اختیار کرے۔ اگر کوئی عاشورہ میں عزاداری کرتا ہے تو اس پر اعتراض کیوں کیا جائے۔ کوئی دیوار گریہ پر جا کے آنسو بہاتا ہے۔ بنارس کے پانیوں میں اشنان کرتا ہے۔ گوردوارے میں ماتھا ٹیکتا ہے، تو مجھے اس سے کیا نقصان پہنچتا ہے۔ مجھے فکر جہاں کیوں ہو؟ قوموں کی فکری اصابت کا اندازہ پارسائی کا ڈھول پیٹنے سے نہیں ہوتا۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ ان کے تعلیمی اداروں میں علمی آزادی کا کس قدر احترام کیا جاتا ہے۔ ان کے سیاسی اداروں میں آئین کی پاسداری کا عالم کیا ہے، معاشرے میں اختلاف رائے کے لئے کتنی جگہ ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک کے قوانین کی پابندی کی جاتی ہے یا نہیں؟ کسی عورت کی عزت پامال کرنے والا جیل کی ہوا کھاتا ہے یا سیاہ چشمہ لگا کے پارلیمینٹ میں براجتا ہے ۔ میں اگر واقعی اپنے عقائد سے مطمئن ہوں تو مجھے اس کا نقارہ پیٹنے کی ضرورت نہیں۔ یقین تو ضمیر میں اطمینان پیدا کرتا ہے۔ معاشرہ میرے افعال اور رویوں سے خود جان لے گا کہ میں اپنے خیالات پر استوار ہوں یا انہیں ہتھیلی پر سجا کر سیاسی، معاشرتی اور معاشی مفادات سمیٹنے کی فکر میں ہوں۔ انسانی تاریخ میں جہاں پارسائی کے بے محابا اظہار کا چلن ہوا، لوگوں کے اخلاق گر گئے اور معاشرہ برباد ہو گیا۔ اس میں سلطنت عثمانیہ ، بغداد کے دربار اور دہلی کے تخت کی کوئی تمیز نہیں۔ روس میں بھی مارکسزم پر بے رنگ اور بے روح ضخیم کتابیں لکھنے والوں کی کمی نہیں تھی اور آج بھی قصیدہ نگاری کے فن کو زوال نہیں۔ 12/اپریل2013ء کو شائع ہونے والے آپ کے کالم ’میں روشن خیال نہیں ہوں ‘ کی تاخیر سے داد پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔ آپ نے لکھا تھا ”میں ہمیشہ جمہوریت کا حامی رہا ہوں اور آمریت مجھے کبھی ہضم نہیں ہوئی… میں طالبان کی نام نہاد اسلام پسندی کو اسلام دشمنی پر محمول کرتا ہوں۔ مجھے عورتوں کے حقوق سلب کرنے والے زہر لگتے ہیں۔ میں رقص ، موسیقی، مصوری اور دیگر فنون لطیفہ کو کسی معاشرے کی تہذیبی اور ثقافتی پہچان گردانتا ہوں۔ میں امن کا حامی اور جنگ کے خلاف ہوں۔ بھارت سمیت دنیا کے تمام ممالک سے بہترین تعلقات چاہتا ہوں۔ مجھے آئین کی ان تمام دفعات سے اختلاف ہے جن کی وجہ سے پاکستانی قوم مختلف ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے اور جن کا استحصال کرکے کوئی بھی شخص کسی بھی دوسرے شخص کو اسلام دشمن قرار دے سکتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہر شخص کو ہر اس کام کی آزادی ہونا چاہئے جس سے کسی دوسرے فرد کو نقصان نہ پہنچتا ہو اور اس کی آزادی خطرے میں نہ پڑتی ہو“۔ بھائی عطاالحق ان خیالات کے ساتھ آپ فرماتے ہیں کہ آپ روشن خیال نہیں ہیں۔ چلئے آپ کی بات مان لی۔مگر ایک درخواست ہے کہ اگر یہی رجعت پسندی ہے تو میرا نام بھی رجعت پسندوں کی فہرست میں درج کر لیں۔ یار لوگوں نے روشن خیالی کو لباس اور مشروبات سے منسوب کر رکھا ہے۔ روشن خیالی تو علم دوستی، انسانی ہمدردی، پیداواری سرگرمیوں سے وابستگی، تخلیق کی لگن اور ضابطے کی پابندی سے عبارت ہے۔ آزاد خیالی غیر ذمہ داری نہیں بلکہ فکری آزادی تو اجتماعی ذمہ داری کے بلند ترین معیار کا تقاضا کرتی ہے۔ جن لوگوں نے پرویز مشرف کی حمایت کی، انہیں روشن خیالی کی سمجھ تھی اور نہ جمہوریت سے کوئی غرض تھی۔ یہ تو ہماری اجتماعی پسماندگی کا المیہ ہے کہ ملّا لوگ ضیاء الحق سے امید لگا بیٹھتے ہیں اور نئی روشنی کے زعم میں مبتلا افراد پرویز مشرف کے چرنوں میں جا بیٹھتے ہیں۔ کامل اس فرقہ زہاد سے اٹھا نہ کوئی۔ مذہب سے مخاصمت کے کوئی معنی نہیں۔ البتہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں کی مخالفت جائز ہے۔ علمی اور اخلاقی سطح پر اس گروہ کی کیفیت باقی معاشرے سے بہتر نہیں بلکہ کسی قدر بدتر ہی سمجھنی چاہئے لیکن انہیں الوہی رہنمائی کا دعویٰ ہے لہٰذا ان کی ناکردہ کاری کے اثرات زیادہ دوررس ہوتے ہیں۔ یہ لوگ علمی اور سیاسی دلیل دینے کے بجائے تقدیس کی اوٹ میں جا چھپتے ہیں۔ سیاسی اور تمدنی مکالمے میں تقدیس کو دخل نہیں۔ تقدس ذاتی عقائد کے دائرے میں آتا ہے اور اسے برقرار رہنا چاہئے۔ اجتماعی معاملات میں تقدیس کا استثنیٰ مانگنے والے معاشرے پر ایسی بالادستی کے خواہاں ہیں جس کی جوابدہی نہ ہو سکے۔ جمہوری معاشرے میں یہ دلیل کیسے تسلیم کی جا سکتی ہے۔ عطا بھائی، ہم نے امریکہ کی مخالفت کا سبق 1989ء کے بعد نہیں سیکھا۔ ہم تو امریکہ کے معاشی اور سیاسی استحصال کے مخالف تھے اور یہ مخالفت ہم نے تب کی جب انور علی، مسعود محمود، روئیداد خان اور ہلاکو خان جیسے سرکاری اہلکار سیٹو اور سینٹو کا نسخہ بیچتے تھے۔ جب لیفٹننٹ جنرل مجیب الرحمن صحافیوں کو وطن دوستی کا سبق پڑھایا کرتے تھے۔ ہم امریکہ کے دشمن ہیں نہ حامی۔ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہماری قوم میں بھی علم دوستی پیدا ہو ۔ ہمارے رہنما بھی اپنے عوام کی بھلائی کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔ ہمارے کارخانوں کی چمنیاں بھی دھواں اگلیں۔ہمارے کھیتوں میں بھی فصلیں لہرائیں۔ لوگ دور دور سے اعلیٰ تعلیم اور اچھے علاج کے لئے پاکستان آئیں۔ بھائی عطاالحق قاسمی، دل سے کہو کہ یہ خواہشات رجعت پسند ہیں یا روشن خیال۔
تازہ ترین