نئی پود پوری طرح سوشلزم اور کمیونزم سے آشنا نہیں، نہ اسے دائیں بازو اور بائیں بازو والے دور اور افراد ہی سے کوئی آگاہی ہے۔ ترقی پسندوں اور سوشلزم کا علم رکھنے والی پیپلز پارٹی کے 2008میں پنجاب کے ایک صوبائی وزیر تک کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ دائیں بازو اور بازو والے کیا ہیں؟ (پنجاب میں زوال بلاوجہ نہیں آیا) اور عہدِ حاضر میں شاید یہ علم بدقسمتی سے کوئی ضروری بھی نہیں رہا لیکن یہ ضرور ہے کہ علوم بھی بچے جنتے ہیں جن سے علمی میراث اور تحقیق آگے بڑھتی ہے۔ معاشرتی علوم سے شروع ہونے والا علم بےشمار سوشل سائنسز کا سنگ سفر اختیار کر لیتا ہے، کہیں عمرانیات کے الگ دریچے کھل جاتے ہیں اور کہیں سیاسیات کے در وا۔ یہ علم محض لائبریریوں یا میوزیم میں پڑا رہ جائے تو ایک مدت کے بعد اس کی شیلف لائف بھی ختم ہو جاتی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی بھی شیلف لائف خاتمے تک جا پہنچتی ہے اگر ان میں تحقیق اور جدت کی کھڑکیاں بند ہونے کے سبب زنگ آلود ہو چکی ہوں، بحث و تمحیص پیوند خاک ہو چکے ہوں تو فرسودہ اسٹیٹس کوکے سوا بچتا ہی کیا ہے اے عہدِ حاضر والو؟
مُدت سے دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی اور سفارتی آداب سے انٹرنیشنل افیئرز تک سیاست اور ریاست کے اوڑھنے بچھونے ہو گئے، داخلی امور اور خارجی امور اس طرح شیر و شکر ہیں کہ حکومتوں کو انہیں ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے، گر ان دونوں میں توازن کا فقدان ہو جائے تو ریاستی کشتی ہچکولے کھانا شروع کردیتی ہے۔ اب تو سائنسز کو باہم ملا کر نیو سائنسز کو متشکل کیا جارہا ہے۔ ان ریاستی امور کا وہ پرانا معاشی نظام بھی نہیں رہا کہ بارٹر سسٹم سے شب و روز چلتے رہیں گے، آج کی تیزیوں میں جمود کو موت کا دوسرا نام قرار دیا جا چکا ہے۔ جہاں جمہوریت ہے وہ چاہے آمروں کے سائے تلے چلے یا کھلی فضاؤں میں بہرحال..... اس جمہوریت اور حکومت کی روح تو پارٹیاں ہی ہوا کرتی ہیں۔ پارٹیوں کی بےضابطگیاں اور کمزوریاں زیادہ ہوں تو وہ آمریت کی دربان یا آمروں کیلئے مہمان اداکار بن جاتی ہیں اور اگر ان میں گاہے گاہے زیرک افراد شعور کی راہ پر چلتے رہیں تو وہ چلتے چلتے ارتقائی پگڈنڈیوں سے ہوتے ہوئے ڈاروِنزم اور نیو ڈاروِنزم سے نکل کر جینی ٹِکس اور بائیوٹیکنالوجی تک اور سادہ طبیعات سے نیوکلیئر فزکس حتیٰ کہ روبوٹک سائنس تک جا پہنچتے ہیں۔ اسی طرح سیاسی پارٹیوں کو بھی میکرو سے مائیکرو لیول کی سوشل و نیچرل سائنسز کو مدِنظر رکھنا چاہئے۔ کوئی اگریہ سمجھے کہ اِدھر کے مہرے اُدھر اور اُدھر کے مہرے اِدھر چل کر، ایک دوسرے کی پارٹیوں سے الیکٹ ایبل اور سلیکٹ ایبل اکٹھے کرکے تبدیلی برپا کرلیں گے، تو اس سے ایک دوسرے کو یا اپنے آپ کو دھوکا تو دیا جا سکتا ہے، نکیلِ اقتدار بھی تھامی جا سکتی ہے تاہم ریاستِ مدینہ کا قیام یا قبلہ درست کرنا ممکن نہیں!
جب تک سائنس فار سوسائٹی اور سیاست فار سوسائٹی کے طور سے نہ اُبھریں معاشرتی یا ریاستی یا عالمی بناؤ ممکن نہیں۔ ان چیزوں کا ادراک ہی سیاست ہے۔ پاکستان کی سیاست میں اگر دیکھا جائے تو ’’میرے عوام‘‘ اور ’’عوام کا استحصال‘‘ جیسے انمول اور پُراثر الفاظ ذوالفقار علی بھٹو لے کر آئے، اس سے قبل تاریخِ پاکستان سے ان لفظوں کو متروک کردیا گیا تھا۔ پھر آئینِ پاکستان اپنی اصل روح اور اثرات کے ساتھ آتا ہے، جوہری توانائی کا آغاز ہوتا ہے، بحث کھلتی ہے تو پھر کسی بھی طبقے کی پابندیوں کو یہ گھاس نہیں ڈالتی، چلتی ہے اور منزل ڈھونڈتی ہے۔ آہ ایک آمر پھر ملک و قوم اور اسلام کا نام استعمال کرتا ہے، رفتہ رفتہ اسی کے پیروکار اسے غلط بھی ثابت کرتے ہیں، حتیٰ کہ پچھتاوے تک جا پہنچتے ہیں، لیکن آئین اور جوہری پروگرام چل کر دم لیتے ہیں باوجود اس کے کہ جس نے آئین اور جوہری توانائی کو دم دیا اس کا دم لے لیا گیا۔ کیا ہوا بھٹو نہیں رہا ، مگر دم اور دم خم تو دے گیا۔ یہ اس وقت کے معاشرے کی ایجادات کم دریافتیں زیادہ تھیں۔ اس آئینی سوشل سائنسز اور اس جوہری توانائی و ٹیکنالوجی کو آگے چلنا تھا تو اسلامو فوبیا کے خلاف دلیل کی جیت، آزادی کشمیر، یو این میں قدر، افغان مسائل پر قابو، معیشت و صنعت میں ترقی اور امت مسلمہ کی چوہدراہٹ کی پگ سر پر آنی تھی۔ بانی ایٹم بم نانا کے نام کے ساتھ منسلک ہونا، جمہوریت کی لہو کے ساتھ آبیاری اور تاریخی مسلم خاتون کی تکریم ماں کے نام۔ ناموافق اور غیرموزوں دور میں باپ کے نام بانی سی پیک ہونےکا اعزاز آیا۔ یہ ہے تحریک بھی، تاریخ بھی اور سیاست بھی۔ ان چیزوں کو دیکھ کر دلِ ناداں یہ چاہتا ہے بلاول بھٹو زرداری اپنے نام حکمرانی کرے نہ کرے، جب کرے تب کرے مگر کوئی تحریک اور کوئی تاریخ تو اپنے نام کرے!
مگر یہ سب کیسے ممکن ہے؟
یہ سب ممکن ہے تیاری سے، نہ کہ مکاری سے۔ یہ سب ممکن ہے انسانیت اور جمہوریت کو یکجان سمجھنے سے، نہ کہ مقتدر کے قدموں تلے۔ یہ سب ممکن ہے نظام کے فہم سے، آشنائی اور تنظیمی ڈھانچے کی روح سے، نہ کہ کشمیریت و حسینیت و آدمیت اور کارکنیت و جمہوریت سے دور ہونے سے۔
بلاول بھٹو زرداری صاحب ! آپ کے پاس ٹیلنٹ بھی ہے اور وقت بھی۔ اگر آپ سمجھیں کہ آپ کا اپنا نابالغ میڈیا سیل یا کوئی جمیل سومرو ہی آپ کی آنکھ اور زبان بننے کیلئے کافی ہیں تو ویری سوری! کیا سنٹرل پنجاب کا نیا جنرل سیکرٹری بھی، اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے، طاقت کا سرچشمہ عوام اور جمہوریت ہماری سیاست کے فلسفہ سے بخوبی آشنا ہے؟ باقی بانیوں کو چھوڑیے، یہ بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید سے آشنا ہوتا تو کوئی بیان ہی داغتا۔ اجی، 2018 میں پانچ دہائیوں میں پیپلزپارٹی نے دسواں منشور دیا جو آپ کے ہاتھوں ڈلیور ہوا، اس پر آپ کی تنظیم نے کتنی تربیت سازی کی؟ راجہ پرویز اشرف و یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود کی بزرگی کو تنظیمی روحانیت بننا ہوگا محض تخیل نہیں۔ ہزار بار کہہ چکا پنجاب اور کے پی میں خورشید شاہ و نوید قمر اور سعید غنی و نفیسہ شاہ چاہئیں صرف چوری کھانے والے مٹھو اور مجنوں نہیں۔ پنجاب کی تنظیم سازی سب سے اہم سبجیکٹ بن چکا تاہم کے پی اور بلوچستان کو بھی بلاول بھٹو چشمِ بینا سے دیکھیں اور ازسرِنو اپنا منشور اور تحریکی و تاریخی پس منظر بھی مگر اب جدتوں اور اسلامک سوشلزم کے فریم، سائنس کی آنکھ اور انٹرنیشنل چیلنجز میں سے جھانکنا ہوگا ورنہ چشمِ فلک نے پارٹیوں کی شیلف لائف تک ختم ہوتے دیکھی ہے!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)