اس ہفتہ کی سب سے بڑی سیاسی سرگرمی مسلم لیگ ن پنجاب کے نائب صدر حمزہ شہباز کی جنوبی پنجاب کے چارروزہ دورہ پر ملتان آمدتھی ،ان کے دورہ سے پہلے مسلم لیگ ن کے حلقے ایک بڑے سیاسی استقبال کی تیاری کا دعوی ٰ کررہے تھے اور یہ بھی کہا جارہا تھا کہ بلاول بھٹو کے دورہ کے برعکس حمزہ شہباز کا یہ دورہ خاصا کامیاب ثابت ہوگا ،مگر یوں لگتا ہے کہ جیسے پیپلزپارٹی کی طرح مسلم لیگ ن نے بھی اس حوالے سے اپنا ہوم ورک مکمل نہیں کیا تھااور ن لیگ کی مقامی قیادت بڑا سیاسی شو کرنے میں ناکام رہی، دوسری بات وہی پارٹی کے اندر موجود گروپ بندی تھی ،جس میں ہرگروپ دوسرے کے مقابلے میں نمایاں ہونا چاہتا تھا۔
اس گروپ بندی کا سب سے بڑا شکار مخدوم جاویدہاشمی کو بنایا گیا ،جب حمزہ شہباز کی آمد کے حوالے سے پارٹی کے اندر تنظیمی اجلاس ہورہے تھے ،تو ان میں بھی مخدوم جاوید ہاشمی کو نظرانداز کیا گیا ،حتی کہ جب پارٹی کے عہدے داروں نے جن میں سابق وفاقی وزیر جاوید علی شاہ بھی شامل تھے ،سے صحافیوں نے یہ سوال پوچھا کہ مخدوم جاوید ہاشمی کو اجلاسوں میں کیوں نہیں بلایاگیا، تو انہوں نے جانتے بوجھتے بھی یہ جواب دیا کہ ان کے علم میں یہ بات نہیں ہے ،یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے علم میں یہ بات نہ ہو،جبکہ وہ تنظیمی اجلاسوں کی سربراہی کررہے تھے۔
اس سے بھی بڑا منظر وہ تھا ،جب پارٹی کنونشن میں جو چونگی نمبر 9 کے قریب ہوا ،مخدوم جاوید ہاشمی کے سٹیج پر موجود ہونے کے باوجود انہیں خطاب کی دعوت ہی نہیں دی گئی ،ایسا نہیں کہ کسی کے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ مخدوم جاوید ہاشمی سٹیج پر موجود نہیں ہیں ،وہ رانا ثناءاللہ کے پہلو میں بیٹھے تھے اور پھر ایک کارکن نے بھرے سٹیج پر آکر یہ مطالبہ کیا کہ مخدوم جاوید ہاشمی کو بھی اظہار خیال کے لئے بلایا جائے ، جس پر پنڈال میں زوردار تالیاں بھی بجیں۔
مخدوم جاوید ہاشمی کے نعرے بھی لگے ،لیکن اس کے باوجود انہیں خطاب کی دعوت نہیں دی گئی ،یہ واقعہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ یا تو شہبازشریف اور حمزہ شہباز ،مخدوم جاوید ہاشمی سے دوری برقرار رکھے ہوئے ہیں ،کیونکہ وہ بھی وہی بیانیہ رکھتے ہیں کہ جو میاں نوازشریف اور مریم نواز کا ہے ،شاید منتظمین کو یہ خطرہ تھا کہ جاویدہاشمی کو خطاب کی دعوت دی گئی ،توووٹ کو عزت دو والا بیانیہ حمزہ شہبازکی موجودگی میں بھی دہرایا جائے گا ،جبکہ وہ اس بیانیہ سے عملی طور پر لاتعلق نظر آتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی بھی لڑائی کے حق میں نہیں ہیں۔
دوسری وجہ مسلم لیگ ن کی مقامی سیاست بھی ہوسکتی ہے ،کیونکہ ایک مخصوص دھڑا مسلم لیگ ن سے مخدوم جاوید ہاشمی کو دوررکھنا چاہتا ہے ،خاص طور پرقومی اسمبلی کے حلقہ این اے 155میں جاوید ہاشمی کی ٹکٹ بعض لوگوں کو اپنے لئے خطرہ محسوس ہوتی ہے،اس حلقہ سے سابق امیدوار شیخ طارق رشید جو آج کل مسلم لیگ ن کے ڈویژنل جنرل سیکرٹری بھی ہیں ،اس حلقہ سے انتخاب لڑنا چاہتے ہیں اور کئی بار مخدوم جاوید ہاشمی کی موجودگی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اب انہیں سیاست سے دستبردار ہو جانا چاہیے، ان کی موجودگی میں مخدوم جاوید ہاشمی کو اگرتقریر کرنےکا موقع نہیں ملا،تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کا وہ گروپ جو طارق رشید کے ساتھ ہے ،وہ مخدوم جاوید ہاشمی کو آگے نہیں دیکھنا چاہتا۔
ہاں یہ ممکن ہے کہ اگرکل کلاں مریم نواز ملتان کے دورے پر آتی ہیں تو مخدوم جاوید ہاشمی کو سٹیج پر نہ صرف ان کے حسب مراتب مقام مل سکتا ہے ،بلکہ انہیں خطاب کی دعوت بھی دی جاسکتی ہے۔ ایک لحاظ سے حمزہ شہباز کے اس دورے میں بھی تقریباً وہی فلم چلائی گئی ،جو بلاول بھٹو کے دورے میں چلی تھی۔
مسلم لیگ ن میں لوگوں کو شامل کرنے کا مرحلہ آیا ،تو ایسے چہرے سامنے لائے گئے ،جن کا سیاسی قدکاٹھ ایسا قابل ذکر نہیں ،یا پھر وہ سیاست کو عرصہ ہوا خیرباد کہہ چکے ہیں ،مثلاً پیپلزپارٹی کے ایک سابق ایم پی اے اسحاق بچہ جنہوں نے بلدیاتی انتخابات میں اپنے بیٹے کو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر انتخاب لڑایا تھا اور جنہیں عملی سیاست سے غیرفعال ہوئے ایک عرصہ بیت گیا ہے ،سے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کرایا گیا۔
ایک دوسری شخصیت قیصر مہے کی ہے ،جو سیاست میں نووارد ہیں ،اسی طرح مظفرگڑھ سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ ہولڈر اختر گوپانگ ، خانیوال سے سابق ایم پی اے پیر جمیل شاہ ا ور راجن پورسے سابق ایم پی اے شیرعلی گورچانی سے بھی ن لیگ میں شمولیت کا اعلان کرایا گیا ،ان کے علاوہ ملتان سے کوئی بڑی سیاسی شخصیت مسلم لیگ ن میں شامل نہیں ہوئی، حالانکہ دعوے یہ کئے جارہے تھے کہ سابق وفاقی وزیر اور ملتان کے معروف دینی خانوادے کے رکن حامدسعید کاظمی پیپلزپارٹی کو خیرباد کہہ کر مسلم لیگ ن میں شامل ہوجائیں گے۔
مگر عین موقع پر انہوں نے یہ بیان جاری کیا کہ ابھی انہوں نے کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کا فیصلہ نہیں کیا،انہیں مختلف سیاسی جماعتوں سے دعوت دی جارہی ہے ،مگروہ احباب سے مشورے کے بعد کوئی حتمی فیصلہ کریں گے ،اگر مسلم لیگ ن انہیں پارٹی میں شامل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ،تویہ یقیناً ایک بڑا واقعہ ہوتا ،مگر ذرائع کے مطابق مولانا حامد سعید کاظمی ،مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت میں پائی جانے والی سیاسی دھڑے بندی کو بہت قریب سے دیکھ چکے ہیں اور انہیں یہ بھی علم ہے کہ مخدوم جاوید ہاشمی جیسے ایک قدآور سیاسی رہنما بھی اس سیاسی کشمکش کی وجہ سے سیاسی طورپر کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں ،اس لئے فی الوقت مسلم لیگ ن میں شامل ہونا اور وہ بھی حمزہ شہباز کی موجودگی میں کوئی اچھا سیاسی فیصلہ نہیں ہوگا ، ان کے قریبی ذرائع کے مطابق اگر انہیں نوازشریف نے ذاتی طورپر فون کرکے پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دی ،تووہ یہ فیصلہ کرنے پر تیار ہوجائیں گے ۔