اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتھونی گیٹریس نے اقوام متحدہ کے 76؍ ویں سالانہ اجلاس میں عالمی رہنمائوں اور عالمی برادری کو خبردار کیا کہ یہ کرہ ارض اورپوری انسانیت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے زور دےکر کہا کہ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے ہمیں اس کرہ ارض کی، اس پر آباد ہر جاندار کی سلامتی اور انسانیت کی بقا کے لئے فوری اور ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر کچھ باقی نہ رہے گا۔ سیکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ دنیا جاگ جائے اب باتوں کا وقت نہیں ر ہا، کام اور صرف کام کا وقت ہے۔
کرۂ ارض اور انسانیت کے بچاؤ کے لیے وقت کم ہے
اگر ہم نے اس قیمتی وقت کو اپنی کوتاہیوں، کج روی اور سیاسی مفادات کے حصول میں ضائع کردیا تو پھر کسی کے ہاتھ کچھ نہ آئے گا۔ دنیا کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں۔ سیکریٹری جنرل انتھونی گیٹریس کے اس تاریخی خطاب میں ماحولیات کی تیزی سے بگڑتی صورتحال، موسمی تغیرات، وبائی امراض کا پھیلائو، غربت، پسماندگی میں اضافہ، غربت اور امارت میں بڑھتا ہوا فرق اور دیگر حساس عالمی مسائل کا تفصیلی ذکر کیا۔
واضح رہے 193؍ ارکین پر مشتمل اقوام متحدہ کا ادارہ 76؍ ویں سالگرہ کے موقع پر ایک سو سے زائد ممالک سربراہان، وزرا، دانشور، صحافی، ماہرین اور مبصرین نے شرکت کی۔ تین ہفتے جاری اس 76؍ ویں سالانہ سیشن میں مختلف کمپنیوں کے اراکین، عالمی سطح پر خوراک کے مسائل، افریقی ممالک میں قحط سالی، خشک سالی، موسمی تغیرات، وبائی امراض، خاص طور پر کووڈ۔19 کی جاری تباہ کاریاں و دیگر حساس مسائل پر مذاکرات کررہے ہیں۔ ان میں زیادہ زیر بحث موضوع ماحولیات رہا۔
اس حوالے سے بعض سفارتکاروں اور ماہرین کو شکست ہے کہ دنیا کے بعض ممالک کے رہنمائوں کی معاون اجارہ دار سرمایہ دار کمپنیاں، صنعتی ادارے اس حقیقت سےآنکھیں پھیرتے ہوئے آئے ہیں اور اس حقیقت کو مسترد کرتے رہے ہیں کہ کرہ ارض کے ماحولیات کو کوئی خطرہ ہے۔ ان نکتہ چیں حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ قدرتی نظام ہے جو لاکھوں برسوں سے چلا آرہا ہے۔ موسم میں تبدیلیاں قدرتی ہیں اس میں انسانوں کا کوئی دخل نہیں ہے اس مسئلے کو کچھ سائنس داں اور ماہرین جان بوجھ کر حوّا بنارہے ہیں اور دنیا کو خوف زدہ کررہےہیں۔
اس نقطہ نظر کے حامل افراد کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی پشت پناہی حاصل تھی۔ سابق صدر ٹرمپ نے برملا موسمی تغیرات کے مسئلے کا مذاق اڑایا تھا اور اس کو بعض سائنس دانوں اور ماہرین کی ذہنی اختراع قرار دیا تھا۔ اس حوالے سے معروف دانشور نوم چومسکی نے سابق صدر ٹرمپ پر سخت نکتہ چینی کی تھی۔
درحقیقت آلودگی میں اضافے کے حوالےسے جتنی بھی رپورٹس اور جائزے شائع ہوئے ہیں ان میں بتایا گیا ہےکہ آلودگی مجموعی مقدار کا 25؍ فیصد حصہ دار امریکا ہے، اس کے بعد چین برازیل اور بھارت ہیں۔ قدرتی کوئلہ کے استعمال، قدرتی گیس اور تیل کا سب سے زیادہ استعمال ا مریکا میں ہوتاہے، پھر دوسرے نمبر پر چین ہےمگر یہ دونوں بڑے ممالک اپنے مفادات کی خاطر ماحولیات میں بگاڑ اور آلودگی میں اضافے کے مسئلے کو نظرانداز کرتے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتھونی گیٹریس نے جو کچھ اپنے خطاب میں کہا اس میں انہوں نے عالمی رہنماؤں پر براہ راست تنقید کرتے ہوئے یہ بھی انکشاف کیا کہ گزشتہ برسوں میں پیرس میں ماحولیات کی عالمی کانفرنس میں کیوٹو معاہدہ پر تمام رہنمائوں نے دستخط کرتے ہوئے یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ دس برسوں میں آلودگی میں بیس سے تیس فیصد کمی کرنے کی پوری کوشش کریں گے مگر افسوس کہ آلودگی میں کمی کی بجائے مزید آٹھ بارہ فیصد اضافہ عمل میں آیا۔ اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے سیکریٹری جنرل کا لہجہ جذباتی ہوگیا تھا۔
بعض سفارتکاروں اور مبصرین کا گروہ اس عالمی ادارے کی کارکردگی سمیت موسمی تغیرات کے مسئلے پر بھی اپنے و اضح خدشات اور اعتراضات کا اظہار کرتا رہاہے اس نکتہ چین گروہ کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ محض ایک سفید ہاتھی ہے جو عالمی سفارتی محاذ پر ہمیشہ ناکام رہاہے تاہم عالمی صورتحال اور اقوام عالم کے مابین ایک بڑاادارہ ہے جو اس حوالے سے باعث اطمینان ہے کہ ہر جگہ نہ سہی کسی کسی جگہ یہ کارآمد ثابت ہوتا ہے مثلاً سربیا اور بوسنیا کی جنگ میں اقوام متحدہ کی امن فوج نے بوسنیا کے نہتے عوام کو سربیا کی دہشتگردی سے نجات دلائی۔
تاہم اقوام متحدہ کے حالیہ سالانہ اجلاس میں امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی خاصی تلخ و ترش باتیں کی ہیں جن میں آلودگی کے مسئلے، انسانی حقوق اور جمہوری حقوق کی پامالی، قوموں کے مساوی حقوق وغیرہ شامل ہیں۔ انسانیت کو درپیش معرکے اورا ن کے متوقع مہیب خطرات کو ہر چند کہ بار بار دہرایا جاتا رہا ہےمگر ان حساس اور پر خطر مسائل کو حل کرنے کی جانب کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں جوہری ہتھیاروں کے تجربات اور پھیلائو پر بہت کچھ کہا گیا، بڑے بڑے احتجاج اور سیمینار ہوئے مگر اب بین براعظم میزائلوں کے تجربے اور تیاریاں عام ہیں اور اس دوڑ میں مزید ممالک شامل ہوگئے ہیں، جن میں شمالی کوریا، بھارت اور چین نمایاں ہیں۔ مثلاً شمالی کوریا کے صدر برملا دھمکی دیتے رہے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر امریکا کو براہ راست نشانہ بنا سکتاہے اور یہ غلط نہیں ہے شمالی کوریا نے بین براعظمی دور مار میزائلوں کی تیاری میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرلی ہیں اس کے بعد بھارت ہے جو میزائلوں کی تیاری میں مصروف ہے۔
واضح رہے نوے کی دہائی کے آغاز کے وقت سابق سوویت یونین زوال پذیر ہوا تھا تب اس کے ایٹمی ہتھیار میزائل اور دیگر جدید ہتھیاروں کو عالمی اسمگلر گروپوں نے اونے پونے دوسرے ممالک کو فروخت کردیئے تھے یہاں تک کہ روسی جوہری اور خلائی سائنس دانوں کو بھی اغوا کرکے دوسرے ممالک کے ہاتھوں فروخت کیا اور وہ ممالک جو پہلے ہی سے تاک میں تھے انہوں نے اغوا شدہ سائنس دانوں کو خرید لیا بعض روسی سائنس دان پہلے ہی سوویت یونین سے فرار ہو کر مغربی ممالک میں پناہ حاصل کرچکے تھے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنے خطاب میں جو کہا وہ من وعن درست کہا کہ دنیا جاگ جائے ہمارے پاس اب وقت کم ہے۔ دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہےمگر ہم اپنی پرانی روش پر کاربند ہیں۔ دنیا اب بتدریج دو سمتوں میں تقسیم ہوتی محسوس ہورہی ہے یہ زیادہ خطرناک صورتحال ہے پھر ستم یہ کہ ماحولیاتی طور پر خطرات میں بہت اضافہ ہوچکا ہے گلوبل وارمنگ اور گلوبل کولنگ دونوں بڑے خطرات بن کر سامنے آئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے علاوہ دیگر ممالک کے سربراہوں نے بھی ماحولیات اور آلودگی میں اضافے پر بات کی۔ یاد رہے کہ سال 2015ء میں امریکی سابق صدر باراک اوباما نے کیتھولک مذہب کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کو امریکا کی دعوت دی تھی اورپوپ فرانسس نے پانچ روزہ دورہ امریکا میں بہت اہم باتیں کیں۔ سابق صدر اوباما نے پوپ فرانسس کو قطب شمالی کے دورے پر لے گئے ۔انہوں نے قطب شمالی کا طائرانہ جائزہ لیاتھا۔ بعد ازاں پوپ فرانسس نے اقوام متحدہ کی 70؍ ویں سالگرہ کے ابتدائی سیشن سےخطاب کیا جس میں پوپ نے روایتی تقریر سے ہٹ کر کچھ اہم باتیں سب کےسامنے رکھیں جس میں انہوں نے کہا کہ دنیا کو بیش تر نازک اور خوفناک مسائل کا سامنا ہے مگر ان مسائل میں تین بہت اہم اور خطرناک مسائل ہیں۔
موسمی تغیرات جو بہت بڑاخطرناک مسئلہ ہے گلوبل وارمنگ جس میں دنیا جھلس رہی ہےا ور غربت پسماندگی کی و جہ سےدنیا کی بڑی آبادی نڈھال اور گوناں گوں مسائل جھیل رہی ہے۔ اگر دنیا نے ان گمبھیر مسائل کی طرف فوری توجہ نہ کی تو اس کی وجہ سےمزید خوفناک مسائل پوری انساینت کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ پوپ فرانسس نے قطب شمالی پر جو کچھ دیکھا تھا اس کو بیان کرتے ہوئے کہا ،مجھے یقین نہ آیا کہ قطب شمالی کے پہاڑوں پر صدیوں سے جمی برف آدھی سے زائد پگھل چکی ہے بہت سے پہاڑ بنا برف کے پتھریلے دکھائی دیتے ہیں۔
قطب شمالی کے عظیم گلیشیئرز گلوبل وارمنگ کے سبب پگھل کر سمندروں میں بہہ رہے ہیں اور سمندر کی سطح بتدریج بلند ہورہی ہے یہ تمام صورتحال اس کرہ ارض اور پوری انسانیت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ماحولیات کے حو الے سے جوجائزے سال 2020ء میں ترتیب دیئے گئے تھے ان میں واضح طور پر بتایا گیا ہے گزشتہ تین برسوں میں اس کرہ ارض کے درجہ حرارت میں 1.3 درجہ کا اضافہ عمل میں آچکا ہے۔ موسم کی تبدیلیاں مزید غضب ڈھاتی ہیں چین میں غیر متوقع طور پر زبردست سیلاب آئے، طوفانی بارشیں ہوئیں یہاں تک کہ چین کے شمال مغربی علاقوں میں دو بیراج ڈیم بہہ گئے بڑے خطے میں فصلیں تباہ ہوگئیں اور درجنوں گاؤں بہہ گئے، اس کے علاوہ جانی نقصان بہت ہوا۔
بھارت کے شمال مشرقی صوبوں میں یہی کیفیت رہی ،منہ زور سیلاب اور موسلا دھار بارشوں سے بڑے پیمانے پر املاک کو نقصان پہنچا اور سیکڑوں افراد پانی میں بہہ گئے جبکہ کینیڈا کے مغربی ساحل پر واقع شہر وینکوور اور اس کے اطراف ’’ہیٹ وے‘‘ کی وجہ سے بارہ سو سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ متاثرہ علاقے میں ایک ہفتہ کی سرکاری تعطیلات کا اعلان کیا گیا اس طرح امریکا کے شمالی علاقوں میں اس ’’ہیٹ وے‘‘ نے خاصی تباہی پھلائی اس شدید گرمی کی لہر سے جنوب مشرقی ایشیائی علاقے شدید متاثر ہوئے اسی طرح کویت، بحرین اور مشرق وسطی کے کچھ علاقے گرمی کی اس خطرناکی سے بہت زیادہ متاثر ہوئے جس کی وجہ سے کویت کی حکومت کو آٹھ دن کی سرکاری چھٹیوں کا اعلان کرنا پڑا۔
یہ گزشتہ سال کی روداد تھی۔ سال 2021ء گزرے سال سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ گزشتہ سال ماحولیات اور موسمی تغیرات کے حوالےسے معروف غیر سرکاری تنظیموں نے جو مشترکہ طور پر جامع رپورٹ تیار کی تھی ،اس میں انکشاف کیا گیا کہ گلوبل وارمنگ جتنا بڑا خطرہ ہے اسی طرح گلوبل کولنگ بھی اتنی خطرناک اور تشویشناک ہے۔ گلوبل کولنگ نے اس کرہ ارض پر جو تباہی پھیلائی اس کا مکمل جائزہ رپورٹ میں شامل ہے کہ کب کیسے کہاں گلوبل کولنگ سے سمندری طوفان آئے، شدید برفباری ہوئی جس سے بڑی پیمانے پر فصلیں تباہ ہوئیں بیشتر ممالک خاص طور پر شمالی قطبی اور جنوبی قطبی خطے کے قریب واقع ممالک میں درجہ حرارت منفی چالیس تا پچپن تک گرا۔
ترقی پذیر ممالک کے معاشروں میں غربت پسماندگی ،خواندگی میں کمی اور اس کے علاوہ فکری پسماندگی بھی ہے۔ ابھی تک بیشتر ترقی پذیر ممالک ماحولیات، موسمی تغیرات اور آلودگی میں اضافہ کے حوالے سے مکمل معلومات آگاہ بھی نہیں، کیونکہ ان معاشروں کے غریب عوام اپنی معاشی پریشانیوں سمیت مہنگائی، بیماری، ناانصافی اور دیگر مسائل میں الجھے رہتے ہیں انہیں ہوش کہاں کہ اپنے اطراف پر نظر ڈالیں اور زمین و آسمان کی بھی خبر رکھیں۔
دوسری جانب نظر ڈالیں تو نقشہ اس کے برعکس ہے۔ معاشروں کا بالائی طبقہ اور اس سے آگے دنیا کا خوشحال ترین مٹھی بھر طبقہ جس کو عام فہم زبان میں اجارہ دار سرمایہ دار طبقہ کہا جاتاہے اس کے پاس سرمایہ کی فراوانی ہے جودنیا کی مجموعی دولت کے 64؍ فیصد حصہ پر قبضہ جمائے بیٹھا ہےجبکہ 34؍ فیصد سرمایہ پر آٹھ ارب سے زائد آبادی کا دارومدارہے۔ ماحولیات میں بگاڑ اور موسمی تغیرات کے حوالےسے جو رپورٹس حال ہی میں سامنے آئی ہیں ان میں بھی جو خبریں شائع ہوئی ہیں وہ کسی طور مثبت اور خوش آئند نہیں ہیں۔
کیلی فورنیا کے جنگلات میں لگنےو الی آگ اور آسٹریلیا کے جنگلات کو تباہ کرنے والی آگ گلوبل وارمنگ کا سبب تھی پھر بھی بعض حلقے اس حقیقت سےا نکاری ہیں کہ گلوبل وارمنگ دنیا کے لئے گمبھیر مسئلہ ہے۔ وہ اس کو صدیوں سے چلا آرہا قدرتی نظام اس کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں موسمی تغیرات میں انسانی ہاتھوں کا کوئی دخل نہیں ہے۔ بعض حلقے اس پروپیگنڈہ کو عام کرتے رہےہیں درحقیقت ملٹی نیشنل ادارے جس روش پر اپنی ترقی مسابقت اور مزید مناقع کے حصول کے لئے اپنے گھوڑے دوڑارہے ہیں اس روش کو ہر گز ترک نہیں کریں گے۔
ماحول دوست معاشرہ کی تعمیر کرنے اور آلودگی کم کرنے کے لئے دنیا کو اپنی آسائشات میں کمی کرنی ہوگی طرز زندگی میں بدلائو لانا پڑے گا۔ گزشتہ پچاس برسوں میں دنیا میں کاروں، ریفریجریٹرز، ایئر کنڈیشنز اور دیگر برقی آلات کے استعمال میں پانچ گنا اضافہ ہوا۔ ضنعتی کارخانوں، ریلوے اور ہوائی جہازوں میں قدرتی ایندھن کے استعمال میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوتا رہا جبکہ دوسری طرف دہشتگردی غیر منطقی مہم جوئیوں نے انسانیت کو بے شمار زخم لگائے ہیں ۔
اس پر ستم یہ کہ دنیا کی آبادی میں بے ہنگم اور بے تحاشہ اضافے نے نوبت یہاں تک پہنچائی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کا نوالہ چھیننے لگے ہیں۔ بتایا جاتا ہےکہ افریقا، لاطینی امریکہ اور ایشیا کےبیشتر ممالک خوراک کی کمی سے شدید متاثر ہورہے ہیں اس حوالے سے فصلیں اگانے اور پیداوار میں اضافہ کے لئے جو کیمیائی کھاد استعمال ہورہی ہے وہ جانداروں کی صحت کو متاثر اور مختلف بیماریوں کا سبب بن رہی ہے۔ حالیہ جائزوں میں بھی اس جانب توجہ دلائی گئی ۔ صنعتی کارخانوں اور بحری جہازوں کا استعمال شدہ آلودہ پانی اور کوڑا کرکٹ سمندروں میں بہائے جانے سے آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہورہے ہیں ۔
ماہرین کے مطابق دنیا کے سمندروں سے آدھی آبی حیات معدوم ہوچکی ہیں جن میں بعض قیمتی اور کمیاب آبی حیات کی اقسام بھی شامل ہیں، جو اب ناپید ہیں۔ ایسے میں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انسانی طمع خود غرضی اور ناعاقبت اندیشی نے زمین، سمندر اور فضا کو بھی نہ بخشا ہر طرف آلودگی پھیلانے ، اپنی جائز و ناجائز خواہشات اور ضروریات کی تکمیل میں پیہم سرگرداں ہے۔
اقوام متحدہ کے عالمی صحت کے ادارے نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا کہ سال 2005ء میں بھارت کو خبردار کیا تھا کہ بھارت میں آلودگی میں اضافہ کی وجہ سے سالانہ پچاس سے ساٹھ لاکھ بچے قبل از پیدائش ہلاک ہوجاتے ہیں اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہےکہ بھارت میں تمباکونوشی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور غیر معیاری خوراک کی وجہ سے مختلف بیماریاں عام ہورہی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے ایک اور جائزےمیں بتایا ہے کہ یورپی ممالک سمیت بیشتر دیگر ممالک میں آلودگی میں اضافہ خاص طور پر فضائی آلودگی کی وجہ سے لوگوں کی اوسط عمرمیں پانچ سے سات سال کی کمی ہورہی ہے۔ یورپی یونین کے ماحولیات کے ادارے نے عالمی ادارہ صحت کو تجویز دی ہے کہ یورپ میں طیاروں پر خصوصی ٹیکس نافذکیا جائے۔
دوسری جانب افریقی ممالک سوڈان اور ایتھوپیا میں خانہ جنگی اور جنگ و جدل ایک عرصے سے جاری ہے۔ سوڈان میں سیاسی ابتری اور لسانی، علاقائی گروہوں کے مابین فسادات ہورہے ہیں۔ حال ہی میں سوڈان کی مسلح افواج نے ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کااعلان کیا مگر ہزاروں عوام سڑکوں پر نکل آئے اور ملک میں بڑے تصادم اور خونریزی کا خطرہ پیدا ہوگیا اس طرح یہ مارشل لاء ناکام ہوا۔ لسانی اور علاقائی تقسیم نے سوڈان میں شدید سیاسی اور معاشی ابتری پیدا کررکھی ہے۔
سوڈان پہلے ہی دو حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے اس کے اثرات اطرف کے ممالک ایتھوپیا اور سب صحارا ممالک پر مثبت ہورہے ہیں۔ اس ضمن میں حال ہی میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے خبر دار کیا کہ اگر افریقی یونین اوردیگر ادارے سوڈان میں جاری خانہ جنگی اور سیاسی ابتری کا تدارک نہ کرپائے تو اس خطے میں بڑا انسانی المیہ رونما ہوسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے مزیدکہا کہ اگرہم نے امن اعتدال پسندی اور افہام و تفہیم کادامن چھوڑ دیا تو کچھ بھی ہوسکتاہےاور جو ہوگا وہ پوری انسانیت کے لئے برا ہوگا۔
دراصل اب جتنے جائزے اور رپورٹس سامنے آرہی ہیں ان سب میں دنیا کو ہوشیار ہوجانے اور آلودگی میں کمی لانے کے لئے زور دیا جارہا ہےا ور ہر رپورٹ میں بتایا جارہا ہے کہ ’’ڈومس کلاک‘‘ نے بھی وارننگ جاری کردی ہے کہ دنیا کے پاس مزیدکوتاہیوں، بے راہ روی اور لاپروائی کی گنجائش نہیں ہے۔ماحولیات میں بہتری لانے اورموسمی تغیرات سے بچائو کے لئے آلودگی میں کمی کے لئے فوری اقدام کی ضرورت ہے۔ یہ بات اقوام متحدہ کے کئی اراکین اور سربراہ مملکت نے اپنی تقاریر میں کہی ہیں۔
انہوں نے تسلیم کیا ہےکہ دنیا اور پوری انسانیت کو گمبھیر معرکوں کا سامنا ہے جو انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں تھا اور سب نے ان مسائل پر اپنی گہری تشویش ظاہر کی۔ آخر میں اقوام متحدہ کی 76؍ ویں سالانہ تقریب کے اختتام پر عالمی ادارے کے سربراہ صدر محمد صالح نے اپنے خطاب میں کہا، تقاریر، بحث مباحث اور مذاکرے، سیمینار وغیرہ بہت ہوچکے، اب عمل کی ضرورت ہے جیسا کہ کہا گیا کہ دنیا کے پاس انسانیت کو بچانے کے لئے زیادہ وقت نہیں ہے، اب صرف عمل کی ضرورت ہے۔
ماحولیات کی امریکی سائنس داں مشرلے جونزن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ آج کی پولرائز دنیا کو یک جا کرنے اور مشترکہ پلیٹ فارم پر آنے کی ضرورت ہےمگر بیش تر ممالک کے عوام غیر جمہوری حکومتوں یا نیم جمہوری حکمرانوں کے تسلط میں ہیں ایسے میں عوام کو حقیقی جمہوری عمل کی شدید ضرورت ہے۔ جمہورت کے بغیر آج کے دور میں کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ درحقیقت آج دنیا جن گوناگوں مسائل کا شکار ہے اس میں سب سے بڑا ہاتھ مطلق العنان حکمرانوں اور ان کے حواریوں کا ہے۔ دنیا کو آج جو مسائل درپیش ہیں ان کا سدباب جمہوری حکومتیں عوام کی جدوجہ سے حل کرسکتی ہیں۔