• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوابزادہ نصر اللہ خان ضیا الحق کے دور میں اکثرو بیشتر اپنا یہ شعرسنایاکرتے تھے

کتنے بے درد ہیں صَرصَر کو صبا کہتے ہیں

کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیا کہتے ہیں

18 سال قبل 26اور 27ستمبر کی درمیانی شب کا واقعہ ہے میں اخبار کے دفتر میں نوابزادہ نصر اللہ خان کی علالت کی خبر فائل کرکے راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب پہنچا ہی تھا کہ ٹیلی وژن پر نوابزادہ نصر اللہ خان کی وفات کی چیختی چنگھاڑتی خبر نے مجھے انتہائی افسردہ کردیا۔ میں نے پاکستان کی سیاست میں اُن جیسے صاف ستھرے کردار کے مالک بہت کم سیاستدان دیکھے ہیں۔ اُن کا اوڑھنا بچھونا جمہوریت اور صرف جمہوریت تھا۔ انہوں نے اپنے کردار و عمل سے ہمیشہ جمہوریت کے ناتواں پودے کی آبیاری کی جسے کئی بار طالع آزمائوں نے مسل دیا، کوئی طالع آزما جمہوریت پر حملہ آور ہوتا تو وہ اس کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے۔ وہ ایک سخت جان لیڈر تھے، اُنہوں نے اپنی سیاست کے زور پر کئی آمروں کی چھٹی کرا دی لیکن وہ دل کے ہاتھوں اپنی زندگی کی بازی ہار گئے۔ نوابزادہ نصراللہ خان اور آغا شورش کاشمیری دونوں نے مجلسِ احرارِ اسلام کے پلیٹ فارم سےاپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا۔ مجلسِ احرارِ اسلام کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے جہاں خلافت عثمانیہ کی بحالی کے لئے تحریک چلائی وہاں اس نے سید عطا اللہ شاہ بخاری، مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی، مولا تاج محمو د، آغا شورش کا شمیری اور نوبزادہ نصر اللہ خان جیسے عظیم خطیب پیدا کئے۔نوابزادہ نصر اللہ خان کی شخصیت میں اتنی کشش تھی کہ وہ کم سے کم نکات پر اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بنوا دیتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بننے والے مختلف سیاسی اتحادوں میں ان کا مرکزی کرداررہا، ایوب خان کی آمرانہ حکومت ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت، ضیا الحق کا مارشل لاہو یا نواز شریف کی حکومت یا پرویز مشرف کی مارشل لائی حکومت، نوابزادہ نصر اللہ خان نے ان حکومتوں کے خاتمہ کے لئے تحاریک کی قیادت کی، یہی وجہ ہے کہ انہیں’’ بابائے جمہوریت ‘‘کا خطاب دیا گیا۔ ان کی وفات سے پیدا ہونے والا سیاسی خلا کبھیپُر نہیں ہوسکا ،جب بھی ملک میں آمریت کے سیاہ بادل گہرے ہوتے نوابزادہ نصراللہ خان خم ٹھونک کر میدان میں اُتر آتے۔ ان کا کوئی بینک بیلنس تھا اور نہ ہی ان کے اثاثوں میں اضافہ ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے ان کے اثاثوں کی تحقیقات کروائیں تو انہیں یہ جان کر سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کہ نوابزادہ نصراللہ کے پاس قیامِ پاکستان کے بعد اراضی میں اضافے کی بجائے کمی آ ئی ہے۔ ’’حقہ اور آئس کریم ‘‘ نوبزادہ نصر اللہ کی کمزوری تصور کی جاتی تھی۔ا یک بار بے نظیر بھٹو نے ان سے ازراہِ مذاق پوچھا ’’ آپ کی کمزوری کیا ہے؟‘‘ تو انہوں نے بتایا کہ ’’آئس کریم میری کمزوری ہے‘‘ تو انہوں نے کہا کہ’’ ہم نے تو پورا زور لگایا لیکن آپ کی کمزوری کے بارے میں نہ جان سکے‘‘۔ وہ احراری تھے لہٰذا جیل یاترا ان کے لئے اہمیت نہ رکھتی تھی انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ جیل میں گزار دیا لیکن کبھی اپنے اصولوں پر کمپرومائز نہیں کیا۔میری زمانہ طالب علمی سے ان سے نیاز مندی تھی جو ان کی وفات تک قائم رہی جو ان کے صاحبزادے قومی اسمبلی کے رکن نواب زادہ افتخار احمد خان بابر تک قائم ہے۔ نوابزادہ نصراللہ نے کبھی کسی حکمران کے سامنے ہاتھ پھیلایا اور نہ ہی کبھی کوئی سفارش کی۔ ممتاز کشمیری رہنما سید یوسف نسیم نے بتایا کہ نوابزادہ نصراللہ خان نے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے کشمیر کاز کے لئے بڑا کام کیا ۔ نواب زادہ نصراللہ خان کو شاید اپنی گرتی ہوئی صحت کا اندازہ تھا کہ وہ پرویز مشرف حکومت کو تحریک کے ذریعےگرانے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے۔ ان کی شخصیت کا یہ کمال ہے کہ پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف نواز شریف اور بے نظیر کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیا۔ وہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو پاکستان واپس لانے کی ترغیب دینے کے لئےبرطانیہ اور سعودی عرب تک پہنچ گئے۔ ڈاکٹروں نے پیرانہ سالی اورخرابیٔ صحت کے باعث ہوائی سفرسے منع کر رکھا تھا اس کے باوجود انہوں نے بیرونِ ملک سفر کیا۔ شاید اس طویل سفر کی تھکن دل کے دورے کا باعث بن گئی۔ دل کا دورہ پڑنے کے بعد ڈاکٹروں نے ان سے ملاقاتوں پر پابندی لگا دی تو ان کے چاہنے والوں کے گلدستوں سے ان کا کمرہ بھر گیا۔ جاوید ہاشمی، میں اور امین فہیم کو چند لمحوں کے لئے ملاقات کی اجازت ملی تو انہوں نے بستر مرگ پر بھی اے آر ڈی کے اجلاس بارے ہی دریافت کیا۔ پچھلے دنوں ایک ریٹائرڈ افسر جن کا اب انتقال ہو گیا ہے اور جواہم عہدوں پر فائز رہے، نے مجھے بتایا کہ ایوب حکومت نے صدارتی انتخاب کے دوران نواب زادہ نصر اللہ خان سے جان چھڑانے کے لئےزہر دینے کی کوشش کی تو اس افسر نے آلہ کار بننے سے انکار کر دیا۔ میں نے یہ بات نوابزادہ نصر اللہ خان کو ان کی وفات سے قبل یہ بات بتا دی تھی تو انہوں نے مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا ’’ زندگی اور موت خداوند کریم کے ہاتھ ہوتی ہے کوئی انسان کسی کو کس طرح مار سکتا‘‘۔ نواب صاحب خان گڑھ روانگی سے قبل رازداری سے کہا کرتے ’’ خبر لگا دیںکہ اگلے ہفتے پھر اسلام آباد آ رہا ہوں کم از کم ان(پرویز مشرف) کو پریشانی تو لگی رہے گی‘‘۔ نوابزادہ نصراللہ خان مذاکرات کی میز پر مطالبات منوانے کا ملکہ رکھتے تھے۔ خوبصورت پیرائے میں گفتگو کرتے تھے اور اشعار سے اپنی گفتگو کو موثر بنا دیتے تھے۔ پیرانہ سالی کے باوجود گھنٹوں تقریر کر سکتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات کے دوران ضیا الحق نے بلوچستان سے فوج کی واپسی بارے بریفنگ دینے کی کوشش کی تو انہوں نے یہ کہہ کر کہ ہم سیاست دان ہیں، سیاست دان ہی ہم سے بات کر سکتے ہیں، مذاکراتی ٹیم کو بریفنگ دینے سے روک دیا۔

تازہ ترین