کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ آرمی میں تقرریاں اور تبادلے معمول کا کام ہے ، خوامخواہ متنازع بنایا گیا۔
دفاعی تجزیہ کار، لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ نےکہا کہ غلط فہمی کہیں نہ کہیں ضرور ہے جس کی وجہ سے ایک تنازع بن گیا ہے،سینئر صحافی، تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا کہ بد اعتمادی کی فضا پنڈی اور اسلام آباد کے درمیان میں آچکی ہے۔
سینئر صحافی، تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا کہ میرے ذرائع یہ بتا رہے ہیں کہ ایک پروسیجر پر اتفاق ہوچکا ہے اس میں ایک دن یا تین دن بھی لگ سکتے ہیں لیکن معاملہ جو تھا اس کے حل پر اتفاق ہوگیا ہے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت نے کیا کہا ہے مجھے یہ واضح نہیں ہے لیکن حکومت کوکبھی یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہئے کہ ان کی کیا اتھارٹی ہے یا نہیں ہے۔
یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے کہ آرمی کے اندر جو تقرریاں اور تبادلے ہوتے ہیں یہ معمول کا کام ہے اس کو خوامخواہ متنازع بنایا گیا۔اس حکومت کا خاصا ہے کہ یہ شخصیات کی بات کرتے ہیں یہ اداروں کی بات نہیں کرتے ۔
نیب کے اندر بھی یہی ہواآج فوج کے معاملات کو بھی ایسے ہی ٹریٹ کیا جارہا ہے ۔جس طرح وفاق میں پنجاب میں کرتے رہے ہیں یہ معاملہ اس طرح نہیں ہے فوج کا اپنا ایک نظام ہے اپنی تقرریاں اور تعیناتیاں وہ خود کرتے ہیں۔
یہ آرمی چیف کی پسند ہوتی ہے کہ کون سا افسر کہاں جائے گا اگر فوج کو ایک افسر کی کسی جگہ پر ضرورت ہے تو اس میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے یہی نظام ہمیشہ سے رہا ہے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ہم تو چاہتے ہیں کہ پورا ملک ایک پیج پر رہے ۔
اگر آج فوج کی تعیناتیوں کے معاملات بھی عوامی قیاس آرائیوں کا حصہ بن جائیں ان پر ہر ٹی وی شو میں بات ہورہی ہو تو فوج کمزور ہوتی ہے۔جب بھی وہ باتیں جو ایک ادارے کا اندرونی معاملہ ہوتا ہے جب وہ پبلک ڈومین میں بحث کا حصہ بن جائیں تو پھر یقیناً ادارہ کمزور ہوتا ہے۔
اگر فوج نے کوئی ٹرانسفر ، پوسٹنگ کی ہے تو اس میں وزیراعظم کو دخل اندازی کی کیا ضرورت ہے ۔ جو تعیناتیاں ہوتی ہیں اس کو آپ مرضی کے ساتھ نہیں لگا سکتے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ فوج نے جو تبادلے کئے ہیں ان کو تبدیل کیا جائے اس میں میرا من پسند شامل ہو۔
یہ معاملات اس طرح ہوتے نہیں ہیں فوج کے تبادلے تعیناتیاں پچھلے 74 سال سے ہورہے ہیں اس کا ایک نظام بنا ہوا ہے ۔ اس میں آپ بطور وزیراعظم مداخلت کرنا چاہتے ہیں آپ کا عہدہ شاید اس کی اجازت آپ کو دیتا ہولیکن اس کی مثال موجود نہیں ہے۔
سینئر صحافی، تجزیہ کار سلیم صافی نےکہا کہ میرے ذرائع یہ بتا رہے ہیں کہ ایک پروسیجر پر اتفاق ہوچکا ہے اس میں ایک دن یا تین دن بھی لگ سکتے ہیں لیکن معاملہ جو تھا اس کے حل پر اتفاق ہوگیا ہے۔یہ عمران خان کا نیا پاکستان ہے جس میں آپ دیکھتے ہیں کہ چیئرمین نیب کی تقرری پر کیا ہوتا ہے وقت آجاتا ہے کوئی مشاورت نہیں ہوتی ۔ الیکشن کمیشن کی ممبروں کی تقرری پر کیا ہوتا ہے ۔
پچھلی مرتبہ آرمی چیف کی توسیع کے نوٹیفکیشن کا کیا بنا دیا۔ادھر تو ایک وزیر شام کو دوسرا وزیر، صبح ایک بیورو کریٹ شام کو دوسرا بیورو کریٹ انہیں تو یہ عادت پڑی ہوئی ہے۔ کے پی کے میں علی امین گنڈا پور کے دباؤ پر ان کے بھائی کووزیر بنایا گیا ہے چھ سات ماہ ہوگئے ان کو ابھی تک محکمہ الاٹ نہیں ہوا ہے۔
اگر اس حکومت میں یہ صلاحیت ہوتی تو پہلے تو یہ تنازع ہی سامنے نہیں آتا۔ان کا لاڈلا پن ہے تو ان کے لاڈلے پن یا انا کے لئے کچھ چیزیں ہوں گی۔اصولی طور پر معاملہ طے پاگیا ہے اس پر دونوں بڑوں کا اتفاق رائے ہوگیا ہے اور وہی کچھ ہوگا جو آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز پر تھا۔
کابینہ میں یہ اس طرح زیر بحث نہیں آیا کہ باقاعدہ ایجنڈا کا آئٹم ہواور وزیراعظم اس کو مسئلے کے طور پر لے گئے ہوں بلکہ ادھر سرسری تذکرہ ہوا ہے ۔ وزیراعظم نے اپنی پوزیشن بنانے کے لئے اپنے آپ کو ایک با اختیار وزیراعظم ثابت کرنے کے لئے وزیروں کے سامنے روایتی باتیں کی ہیں۔
وزیراعظم نے ادھر یہ بھی کہہ دیا ہے ہمارا اس معاملے پر اتفاق ہوگیا ہے اور یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔یہ پارٹی وہ میٹریل نہیں ہے جو کہ ووٹ کو عزت دو یا اس طرح کے بیانئے کے ساتھ سامنے آجائیں۔ جو اصل وجہ ہے جس کی وجہ سے وزیراعظم اور ان کی ٹیم نے اس مسئلے کو الجھا دیاوہ ہم ٹی وی پر بیان نہیں کرسکتے بہرحال اب ان کو ایک فیس سیونگ چاہئے تھا۔
جس بندے کی آڑ وزیراعظم لے رہے ہیں وہ نہ صرف جاکر اپناچارج لینا چاہتے ہیں بلکہ اس معاملے پر شروع دن سے وہ بھی آن بورڈ تھے ۔تو معاملہ کچھ اور تھا وزیراعظم نے اس کی بنیاد پر یہ الجھا دیا کل کی نشست میں فیس سیونگ کا بھی ایک لائحہ عمل بنا دیا گیا ہے ۔ وزیراعظم کے پاس کئی مواقع تھے اگر وہ کچھ اور چاہتے تھے تو اس کو سامنے لاسکتے تھے ۔
سینئر صحافی، تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا کہ اگر یہ قانون کے مطابق نہیں ہوا تو حکومت یہ قائم کررہی ہے کہ یہ غیر قانونی طریقہ تھا جو اپنایا گیا۔ پہلے تو اس بات پر حیرت کا اظہار ہونا چاہئے کہ کون ساایساغیر قانونی طریقہ تھا جو کہ اختیار کیا گیا۔
وزیراعظم کابینہ میں بھی کہتے پائے گئے کہ ایک عزت ہے اور وزیراعظم کے آفس کو بھی عزت ملنی چاہئے۔لوگ کہہ رہے ہیں کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے تنازع نہیں ہے یہ تنازع وقت کے عین مطابق ہے کیونکہ اس حکومت کی کارکردگی پر بہت سے سوالات اٹھ رہے تھے ۔
اگلے انتخابات کی تیاری کی جارہی ہے الیکشن کے معاملات ہیں دوسرے ہیں اس صورت میں تحریک انصاف کو ایک نئے بیانئے کی ضرورت تھی ۔ نظر آرہا ہے کہ آنے والے وقت میں اس طرح کے معاملے کوبڑھاوا ملے گا اور ایک بیانیہ احتساب کے اس بیانئے کے ساتھ تبدیل کرے گا جس کی تدفین حال ہی میں احتساب بل کی صورت میں کی گئی ہے۔
آج کے بعد وہ بیانیہ جو سویلین بالادستی، وزیراعظم کی عزت یا ووٹ کو عزت دو وہ بیانئے کے ساتھ اب پاکستان تحریک انصاف وہ میدان میں آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے آنے والے دنوں میں بہت ساری ایسی اقساط ہوں جس سے وزیراعظم کی جو اپنی رٹ ہے اس کو زیادہ تقویت ملے اور وہ تقویت کے لئے کوشش بھی کریں۔
ایسی صورت میں اگر سیاسی شہادت ہوتی ہے مارچ کی صورت میں یا اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی صورت میں حکومت برطرف ہوجاتی ہے تو اس کا فائدہ پی ٹی آئی اٹھا سکتی ہے ۔اگر یہ مسئلہ نہیں بنا تو یہ کابینہ میں نہیں آتایہ رات کو ہی معاملہ طے ہوگیا تھا۔
کابینہ میں اس معاملے کو رکھا گیااس پر رائے لی گئی رائے دی گئی ۔ اس پر باقاعدہ حکومتی ترجمان ان کو کہا گیا کہ آپ ان الفاظ میں یا ظاہر ہے وزیراعظم سے پوچھے بنا انہوں نے یہ الفاظ ادا نہیں کئے کہ وزیراعظم کی اتھارٹی ہوتی ہے وزیراعظم کا اختیار ہوتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ باقاعدہ منظم انداز میں وزیراعظم کے دفتر کی بالادستی اس پر بات کی گئی ہے ۔کل کی ملاقات کے بعد وزیراعظم کو کابینہ میں یہ کہنے کی ضرورت کیوں تھی کہ وزیراعظم کے دفتر کی بھی ایک عزت ہے۔
آج کی پریس کانفرنس کے بعد افواہوں کو حقیقت کا روپ دیا گیا ہے۔ پنڈورا پیپرز والا معاملہ گول ہوگیا آرڈیننس والا معاملہ ختم ہوگیا ۔پاکستان کا جو ایک مالی بحران آنے جارہا ہے اس پر بات نہیں ہوگی کئی دن یہی موضوع رہے گا جب تک کہ نوٹیفکیشن سامنے نہیں آجاتا۔
وزیراعظم کو پتہ تھا ان کو بتایا گیا تھاکہ سب چیزوں کو ہم اس طرح کریں گے ۔آخری وقت پر وہ انڈر اسٹینڈنگ ختم ہوئی ہے اس پر اداروں کو بھی دھچکا لگا ہے یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی اہم عہدے کے لئے کوئی نام گیا ہے اس کو بن کہے مسترد کردیا گیا ہے ۔