چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ لاہور اسلام آباد موٹروے کو چھوڑ کر باقی تمام ہائی ویز کو لاوارث چھوڑ دیا گیا، این ایچ اے سے کراچی حیدرآباد روڈ نہیں بن رہا۔
آر سی ڈی ہائی وے خستہ حالی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ چترال گلگت روڈ پر صرف پتھر ہی پتھر ہیں، گاڑی چل ہی نہیں سکتی، جس پر چیئرمین این ایچ اے نے جواب دیا کہ چترال گلگت روڈ پر پہلے صوبائی حکومت کام کر رہی تھی، ایک سال پہلے چترال گلگت روڈ این ایچ اے کو دی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہر سال ہائی ویز کی تزئین و آرائش پر اربوں روپے اخراجات دکھائے جاتے ہیں، این ایچ اے کوئی معیاری کام نہیں کر رہا ، سڑکوں پر پل اس وقت تک نہیں بنایا جاتا جب تک 5 سے 6 لوگ مر نہ جائیں۔
انہوں نے کہا کہ این ایچ اے کی ہائی ویز سے متعلق جمع کرائی گئی رپورٹ تسلی بخش نہیں، سڑکوں کی تعمیر اور تزئین و آرائش چیئرمین این ایچ اے کے بس کی بات نہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے مزید کہا کہ بیرون ملک سڑکوں پر لگے ریفلیکٹرز سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، ہمارے ملک میں ریفلیکٹرز پر لال پیلا چونا لگادیا جاتا ہے، ہائی ویز کے ارد گرد کوئی درخت نہیں اگائے جاتے۔
سماعت کے دوران جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے سوال کیا کہ این ایچ اے کے اخراجات اور آمدن کتنی ہے؟ سڑکوں پر تلاشی کے نام پر عوام کی تضحیک کی جاتی ہے۔
سپریم کورٹ نے ملک بھر کی ہائی ویز سے متعلق رپورٹس این ایچ اے سے طلب کرلیں۔