• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’سائبان تحریک‘‘ کتابیں پڑھیں، خرید کر پڑھیں

’’سائبان تحریک‘‘ ہماری 99 فیصد غلیظ سیاسی تحریکوں سے کہیں زیادہ پاکیزہ ہے جس کے اس نعرے سے ہی تحریک کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ....’’کتاب پڑھیں، خرید کر پڑھیں‘‘ انتہائی تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ کباب کلچر، کتاب کلچر کو نگلتا جا رہا ہے ۔ ذرا غور فرمائیے مال روڈ لاہورپر چند سال پہلے تک کتابوں کی کتنی دکانیں تھیں اور آج کتنی ہیں ؟ کتابوں کی ایک دیومالائی سی دکان میں تو ’’بیکری‘‘ بھی کھل چکی ۔

معاشرہ میں ادب مر جائے تو غیظ وغضب ہی باقی رہ جاتا ہے اور آج پورا معاشرہ اس آگ کی لپیٹ میں ہے ۔معمولی باتوں پر بھڑک اٹھنا۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑا جو قتل وغارت تک بھی جا پہنچتا ہے ۔نہ نرمی، نہ شفقت، نہ مہربانی نہ صلہ رحمی، بات بات پر کانوں سےدھواں ، منہ سے شعلے نکلتے تو میں سوچتا ہوں کہ ’’آنہ لائبریریوں ‘‘ کے زمانہ میں تو ماحول ہر گز ایسا نہ تھا کیونکہ ’’کتاب‘‘ کسی نہ کسی رنگ، روپ، شکل میں نیم خواندہ لوگوں کی زندگیوں میں بھی شامل تھی ۔یہ وہ زمانہ تھا جب 5ویں جماعت پاس بھی ابن صفی، نسیم حجازی، دت بھارتی کو سینےسے لگائے پھرتا تھا لیکن آج کل تو نام نہاد پڑھے لکھے بھی کتابوں اور کتابوں کی دکانوں سے روٹھے پھرتے ہیں۔

لاہور میں ایک بے چین روح خوشبو کی طرح محوگردش ہے۔ نام ہے اس کا حسین مجروح، ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘ کا مدیر اعلیٰ ہے اور ’’ادب لطیف‘‘ 1935ء سے باقاعدہ شائع ہونے والا جریدہ ہے اور میں اس کو اپنا اور اپنے جیسوں کا ’’ادبی شجرہ نسب‘‘ مانتا ہوں جس نے نسلوں کی تربیت کی ان میں ادبی ذوق پروان چڑھایا۔ ’’سائبان تحریک‘‘ حسین مجروح کی پہل کاری ہے جسے ہم مل جل کر پھولوں کی کیاری میں تبدیل کر سکتے ہیں۔

حسین مجروح ٹھیک کراہتا اور آنسو بہاتا ہے کہ ’’یہ 22کروڑ پر مشتمل کیسا انسانی جنگل ہے جس میں سنجیدہ کتاب 22سو کی تعداد میں بھی نہیں چھپتی ۔ ادیب کو معاشرہ میں شودر بنا دیا گیا اور ادب زندگی سے بیدخل کیا جا رہا ہے ۔ادبی جرائد و رسائل کو نہ اشتہار ملتے ہیں نہ قاری ۔ہر شے پر ٹیکس لاگو ہے اگر نہیں تو منشیات اور جعلی ادویات پر کوئی ٹیکس نہیں تو شاید ریاست اور معاشرہ کو ان مکروہات کی علم وادب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ان حالات میں ہمیں

1۔کتاب، جریدہ کلچر کے فروغ کے لئے کتاب رسالہ خرید کر پڑھنے کی عادت راسخ کرنا ہو گی۔

2۔شاعروں، ادیبوں کی کتابوں کی اشاعت و فروخت کیلئے مربوط نظام تشکیل دینا ہوگا۔

3۔ادیبوں اور ادبی جرائد کے استحصال کو روکنا ہو گا۔

4۔ادبی تنظیموں اور کارکنوں کی حوصلہ افزائی کی صورت گری کرنا ہوگی وغیرہ وغیرہ ۔

ممکن ہے کچھ لوگوں کو یہ سب کچھ ناقابل عمل اور یوٹو پین دکھائی دے لیکن عزم اور اتحاد ہو تو ناممکن بھی ممکن ہو سکتا ہے اور اس سلسلہ میں قارئین چاہیں تو اپنی قیمتی آرا اور تجاویز حسین مجروح صاحب کو واٹس ایب نمبر 0300-4375871 پر ارسال کر سکتے ہیں ان کا نمبر 0300-4375871ہے۔

شعروادب کو پروموٹ کرنے کیلئے تشکیل دی گئی اس انوکھی تحریک ’’سائبان‘‘ کے بنیاد گزار حسین مجروح کے ساتھ مل کر ہم انشااللہ اسے کامیاب تحریک بناسکتے ہیں ۔

ہاتھوں میں ہاتھ پکڑے ہوئے یوں کھڑے تھے دوست

دریا کو بھی گزرنے کا رستہ نہیں ملا

میرے فیورٹ والٹیئر نے کتنا خوب صورت کہا

’’آپ کو اس سچائی کا ادراک ہونا چاہئے کہ جب سے یہ دنیا معرض وجود میں آئی ہے ،وحشی نسلوں کو چھوڑ کر دنیا پر کتابوں نے ہی حکمرانی کی ہے‘‘

آسمانی الہامی کتابوں کی تو دنیا ہی نرالی ہے۔انسانی زندگی کیلئے کالیداس کی ’’شکنتلا‘‘ سے لیکر شیکسپیئر کی ’’ہیملٹ‘‘ دانتے کی ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ سے البسن کی ’’اے ڈالز ہائوس ‘‘ کے بغیر زندگی اک خاص قسم کی آکسیجن سے محروم رہتی ہے۔ اوسلو کا وہ ریستوران نہیں بھولتا جس کا وہ کونہ ادب پرستوں کیلئے مقدس مقام کا سا درجہ رکھتا ہے جو البسن کی فیورٹ جگہ تھی ۔فردوسی کے ’’شاہنامہ‘‘ کے بغیر بھی زندگی ادھوری رومی کی مثنوی نے مغرب کو حیرت زدہ کر دیا ۔یہ زندگی کی پہلی دو سنجیدہ کتابیں تھیں جو پڑھیں۔’’انکل ٹامز کیبن‘‘ نے تاریخ تبدیل کرنے میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا ۔ گورکی کی ’’ماں‘‘ کے بغیر جوان ہونا جرم سے کم نہیں۔ کافکا کی ’’دی ٹرائیل‘‘ میکیاولی کی ’’پرنس‘‘ سے لیکر عمر خیام کی ’’رباعیات‘‘ جس کے تین انگریزی تراجم کا اپنا ہی نشہ ہے ۔

’’نشہ بڑھتا ہے کتابیں جو کتابوں میں ملیں‘‘

احمد فراز زندہ ہوتے تو اپنے اس مصرع کے ساتھ میری ٹمپرنگ سے بہت لطف اندوز ہوتے۔موپساں کی کہانیاں نہ پڑھیں تو کیا پڑھا، پوشکن کی نظمیں نہ پڑھیں تو زندگی ادھوری اور ڈوما کی ’’کائونٹ آف مونٹی کرسٹو‘‘ پڑھے بغیر تو کبھی بچپن نہ گزرتا تھا کہ سکول کے نصاب میں شامل تھی۔جسمانی حسن کیلئے جم سمیت بہت کچھ لیکن روحانی حسن کیلئے کتاب ہی کافی ۔کتا بیں پڑھیں، خرید کر پڑھیں اور انہیں اپنے خون میں شامل کرلیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین