سپریم کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر کی درخواست ضمانت مسترد اور والدہ عصمت آدم جی کی منظور کرلی۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ عصمت آدم جی کو ضابطہ فوجداری کی شق497 کی ذیلی شق 1 کے تحت ضمانت دی گئی ہے، شق497 کی ذیلی شق 1 کے تحت 16 سال سے کم عمر ملزم، خاتون یا بیمار کو ضمانت دی جاسکتی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ بظاہر ماں کے جرم میں شامل ہونے کے شواہد نہیں ہیں۔
نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت پر سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی۔
وکیل درخواست گزار خواجہ حارث نے درخواست ضمانت کے حق میں دلائل دیئے کہ ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی مقدمے میں نامزد نہیں تھے،مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے پولیس کو بیان کے بعد والدین کونامزد کیا گیا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ کال ریکارڈز کے مطابق عصمت جعفرنے مرکزی ملزم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ ملزم اور اس کے والدین کے کال ریکارڈز اور رابطے پردلائل دیں،وقوعے کے روز درخواست گزاروں کی جانب سے ملزم کو کئی کالزکی گئیں۔
جسٹس بندیال نے کہاکہ اس موقع پرضمانت کا فیصلہ کرنے سے مرکزی کیس متاثرہوسکتا ہے،عصمت جعفرکے اس واقعے میں کردارسے متعلق دلائل دیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ قتل کا وقت کیا تھا؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ استغاثہ کے مطابق شام6بجکر 35 سےساڑھے 7 کے درمیان قتل ہوا،جبکہ ایف آئی آر میں قتل کا درج وقت رات 10 بجے کا ہے۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ اس موقع پرضمانت دے کراستغاثہ کا پورا کیس فارغ نہیں کیا جاسکتا،وکیل درخواست گزارخواجہ حارث نے کہاکہ ملزمان پر صرف قتل چھپانے کا الزام ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ظاہر جعفر کی دماغی حالت کو ٹیسٹ کیا گیا ہے؟وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ ملزم کی ذہنی حالت سے متعلق کوئی ٹیسٹ نہیں ہوا۔
وکیل مدعی شاہ خاور نے کہا کہ ملزم کا صرف منشیات کا ٹیسٹ کروایا گیا ہے، ذہنی کیفیت جانچنے کےلیے کوئی معائنہ نہیں ہوا۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ کیس میں منشیات کا ذکر بھی ہے، کیا ملزم منشیات پر تھا؟
جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ ملزم انکار کرے تو ذہنی کیفیت نہیں دیکھی جاتی، ذہنی کیفیت کا سوال صرف اقرار جرم کی صورت میں اٹھتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ممکن ہے فون پر والد قتل کا کہہ رہا ہو، یہ بھی ممکن ہے روک رہا ہو، وکیل خواجہ حارث نے اس پر کہا کہ ممکن تو یہ بھی ہے کہ بیٹا باپ کو سچ بتا ہی نہ رہا ہو۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ٹرائل کی کیا صورتحال ہے؟ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ فرد جرم عائد ہوچکی، 8 ہفتوں میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت بھی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بظاہر ماں کے جرم میں شامل ہونے کے شواہد نہیں، وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ ماں نے 2 ٹیلیفون کالز گارڈ کو کی تھیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ ایک سفاک قتل ہے جس کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے، اتنے سفاک قتل میں تمام پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے ضمانت کس بنیاد پر ہو؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کال ریکارڈز کی قانوناً کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
جسٹس منصور نے کہا کہ اگر کال ریکارڈز بھول بھی جائیں تو ذاکر جعفر نے قتل کی پولیس کو اطلاع کیوں نہیں دی؟ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ وقوعہ کے بعد بھی ملزمان کا رویہ دیکھا جاتا ہے۔
ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ والدہ کی بھی 11 کالز کا ریکارڈ موجود ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جائزہ لیں گے کہ پولیس کو بلانے کی بجائے تھراپی ورکس کو کیوں کہا گیا؟
اس موقع پر سپریم کورٹ نے ظاہر جعفر کے والدین کی درخواست ضمانت سماعت میں وقفہ کر دیا جس کے بعد والدہ کی ضمانت منظور کرلی گئی۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ ملزمان کو شفاف ٹرائیل کا حق دیا جائے، جبکہ ملزم کی والدہ عصمت آدم جی کی درخواست ضمانت منظور کرنے کے بعد انہیں 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیدیا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے فیصلے میں کہا کہ والد کوضمانت دی نہیں جاسکتی،ممکن ہے وہ گواہان پر اثرانداز ہوں، موجودہ کیس کے معاشرتی اثرات ہیں، روزانہ کی بنیاد پر ٹرائل کرکے مکمل کریں۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ فوجداری مقدمات میں روایات کی کوئی عملداری نہیں ہوتی، ہر فوجداری مقدمے کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔