• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ چند سالوں میں غیر شعوری، غیر ارادی طور پر چند ترجیحات بالکل ہی الٹ پلٹ اور اتھل پتھل ہوگئیں، مثلاًمیں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ’’ویجی ٹیرین‘‘ہوجائوں گا کیونکہ بچپن سے لے کر چند برس پہلے تک مجھے پچانوے فیصد سبزیوں کی شکلوں سے چڑ تھی۔ بھنڈیاں، ٹینڈے، کدو، بینگن، توریاں، گوبھی، شلجم وغیرہ دیکھ کر سوچتا تھا لوگ یہ’’چارہ‘‘کیسے کھالیتے ہیں۔ یہی رویہ دالوں کے بارے میں تھا۔ سوائے آلوئوں کے باقی سب فارغ اور دالوں میں ماش یا چنوں کی مجال ہے جو کبھی کسی شے کو آنکھ اٹھا کر دیکھا بھی ہو البتہ سرسوں کا ساگ اور پکوڑوں والی کڑھی پسند تھی اور اب بھی ہے لیکن پھر عمر کے ساتھ بتدریج نجانے اندر کیسی تبدیلیاں ہوئیں کہ گوشت خوری ثانوی سی رہ گئی، سبزیوں، دالوں سے رغبت بڑھتی گئی یعنی ہم جیسے تو خود اپنے بارے میں نہیں جانتے کہ آنے والے دنوں میں کیسے ہوجائیں گے، کسی اور بارے کچھ جاننے کا دعویٰ ہی مضحکہ خیز ہے۔کھانے کی عادات و ترجیحات تو چھوڑیں کہ پڑھنے کے سلسلے میں بھی ایسا ہاتھ ہوا جس پر آج تک حیران ہوں، مثلاً مدت ہوئی میں فکشن اور شاعری سے تقریباً اوبھ چکا یا یوں کہہ لیجئے کہ بہت دور جا چکا۔ ایک زمانہ تھا ہزاروں شعر یاد تھے، شاعری کا کریز تھا۔ اردو انگریزی کے بعد رشید بھٹی جیسے دوستوں کی مدد سے پنجابی شاعری پڑھی اور یہاں تک کہ اس کے انگریزی تراجم بھی نہ چھوڑے۔ عربی، فارسی، روسی جیسی زبانوں کے تراجم ڈھونڈ ڈھونڈ پڑھے خصوصاً عربی کی کلاسیکل شاعری۔ یہی حال فکشن کا رہا لیکن پھر سب فیڈ آئوٹ ہوتا گیا.......دلچسپی کے موضوعات مکمل طور پر تبدیل ہوگئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شاعری کے جتنے مجموعے اور ناول وغیرہ بذریعہ کورئیر یا دستی ملتے ہیں، ان پر ایک نظر ڈال کر علیحدہ رکھ دیتا ہوں اور جب یہ ڈھیر اک خاص حد سے تجاوز کرتا ہے تو اسے’’بیلی پور‘‘ والے گھر کی لائبریری میں منتقل کردیتا ہوں جو شہر والے گھر کی سٹڈی سے کئی گنا زیادہ کتابیں سنبھال سکتی ہے لیکن چند روز پہلے اک حادثہ سا ہوگیا۔ناروے سے نبیلہ رفیق نام کی محترمہ نے اک بہت ہی خوبصورت خط کے ساتھ اپنا ناول بھیجا....... ’’جھرنا‘‘ ۔ کچھ دن میری میز پر دھرا رہا۔ اراداہ تھا کہ اسے بھی باقی فکشن اور شاعری کی طرح ’’بیلی پور‘‘ بھجوادوں گا کہ نجانے کیوں، کس طرح بے دھیانی میں ورق گردانی شروع کردی اور بری طرح پکڑا جکڑا گیا۔ ناول کیا ہے نوحہ ہے نوحہ.......برصغیر کے ان بدنصیب مسلمانوں کا جن کی ہجرتیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں، لکھتی ہیں،’’پہلے تو کوئی وجہ تھی تقسیم کی، بکھرے ہوئے اور مخدوش مستقبل سے خوفزدہ مسلمانوں کو ایک منزل کی تلاش تھی۔ اسی لئے تو تقسیم کا اتنا بڑا پراجیکٹ شروع کیا  گیا تھا۔مسلمانوں کو ایسا وطن چاہئے تھا جہاں امن ہی امن ہو، چین ہی چین ہو۔ مسلمان کھل کر اسلامی اصول و ضوابط کی پریکٹس کرسکیں۔ ایسا  وطن چاہئے تھا جہاں ہر قسم کی اقلیتوں کو، انسانوں کو برابری کے حقوق ملتے اور وہ سب کچھ ہوبھی گیا جس کے ہونے کی تمنا دلوں کو گرماتی رہی تھی۔ تقسیم ہوگئی، مسلمانوں کو چاہے کٹ کٹا کر، بٹ بٹا کر ہی سہی اپنی الگ جگہ مل گئی۔ اب تو کوئی برطانیہ سے آکر انہیں اپنا غلام نہیں بنارہا تھا۔ اب تو کوئی ہندو یا سکھ انہیں گائے ذبح کرنے سے منع نہیں کرتا تھا۔ پھر اب یہ نئی تقسیم(بنگلہ دیش) کیوں؟پہلی ہجرت اور تقسیم کا تو یہ بہانہ تھا کہ مسلمان ہندوئوں سکھوں سے الگ رہنا چاہتے تھے مگر اب تو دونوں طرف مسلمان تھے۔اب کیوں کراچی میںبسنے والے ،کاروبار کرتے کراتے جما جمایا بزنس چھوڑ کر مشرقی حصے کی طرف بھاگ رہے تھے؟ اس سوال کا جواب نہ ہی بھاگنے والوں کے پاس تھا اور نہ ہی بھاگتے ہوئوں کو دیکھنے والوں کے پاس۔ دوسری مرتبہ اپنے ہی وطن میں مہاجر ہورہے تھے‘‘۔قارئین!چٹاگانگ سے کراچی، کراچی سے چٹاگانگ .......  وہاں پھر بربادی ، حکمرانوں جماعت کے جبر سے بچنے کے لئے گھر کے مرد کھٹمنڈو فرار اور ایک تنہا عورت دو بچوں اور ممانی ساس کے ساتھ ناروے کی اجنبی، سرزمین پر....... کراچی سے چٹاگانگ والی کہانی دہرائی جارہی تھی۔تنہا عورت، بوڑھی ساس، معصوم بچے وہاں پناہ مانگ رہے تھے ، ان سے پناہ مانگ رہے تھے جو کبھی بحری قزاقوں کے نام سے مشہور تھے۔پولیس کی ابتدائی کارروائی کے بعد اس لاوارث بے وطن مسلمان خاندان کو ناروے گورنمنٹ کا مہمان مان لیا گیا اور تیسری ہجرت کی وہ داستان شروع ہوگئی جو گزشتہ تیس برس سے جاری ہے۔میں نہیں جانتا ناول نگاری کی فنکاری کس مقام پر فائز ہے۔مجھے اس سے بھی کوئی دلچسپی نہیں کہ سیاسی سباق و سیاق کیا کہ’’انکل ٹامز کیبن‘‘ کی مصنفہ بھی نبیلہ  رفیق کی طرح گھریلو خاتون تھی۔ وہ بھی نسلوں کا نوحہ لکھ گئی، نبیلہ بھی نسلوں کا نوحہ سپرد قلم کرچکی۔ میں تو صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ بنگلہ دیش کی پھانسیوں بلکہ’’جمہوری‘‘ اور’’منتخب پھانسیوں‘‘ سے لے کر پاکستانیوں کے لئے قدم قدم پر بچھے پھندوں تک ہم نے آج تک کیا سیکھا؟تمام عمر چلے اور گھر نہیں آیا؟کبھی آئے گا بھی یا نہیں؟اور ہجرت ہوتی کیا ہے؟اطالوی فائر فائیٹرز کی ایک ٹیم بتاتی ہے کہ گزشتہ برس بحیرۂ روم میں مہاجروں کی ڈوب جانے والی اک کشتی میں پھنسی لاشوں کو نکالا گیا تو ہولناک مناظر دیکھنے کو ملے جنہیں بھولنا ناممکن ہے۔ ہم نے ایسے بچے بھی دیکھے جنہیں مائوں نے آخری دم تک اپنی بانہوں میں لے رکھا تھا اور مرنے کے بعد بھی وہ بچے اپنی مائوں کے جسموں سے لپٹے ہوئے تھے۔الامان الحفیظاللہ انسانوں کو انسانوں سے محفوظ رکھے۔
تازہ ترین