• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان طالبان سے بات چیت بھی چاہتا ہے اوران کیخلاف ایکشن بھی،پاکستانی سفیر

کراچی(ٹی وی رپورٹ)جیونیوز کے پروگرام" جرگہ"میں افغانستان میں پاکستان کے بارے میں لب کشائی اور گلے شکوؤں کے حوالے سے سوال پر کابل میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سفیر سید ابرار حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ افغانستان کو ایک برادر ملک کی حیثیت سے دیکھتا ہے ، بہتری اسی میں ہے کہ ہم بھائیوں کی طرح رہیں، پاکستان نے ہمیشہ ،معاشی تجارتی ، اقتصادی ، سیاسی اور سیکیورٹی کے حوالے سے افغانستان سے تعاون کیااور افغاں بھائیوں کی ہر ممکن مدد کی ۔معاشی اور اقتصادی حوالے سے بات کی جائے تو افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی پاکستان ہے،افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا سب سے بڑا روٹ کراچی سے طور خم اور چمن ہے جو 1665ب کے معاہدے  اور 2010 میں اس معا ہدے  کو دہرائے جانے کے بعدیہ تجارت جاری ہے۔باہمی تجارت کا افغان برآمدات میں بڑا حصہ ہے جو کہ دوبلین ڈالر سے زائد ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ابرار حسین نے کہا کہ ہمارے لئے یہ تعلقات برادرانہ ہیں،ہم سے افغان فلاح و بہبود کے جتنے بھی کام ہو سکتے ہیں اختلافات کے باوجود ، پاکستان کی جانب سے بہتر تعلقات جاری ہیں۔افغان طالبان اور افغان حکومت کا جو معاملہ  ہے اس میں پاکستانی حکومت نے ہمیشہ کہا کہ ان دونوں کو مذاکرات کی میر پر لانے کے لئے ہماری طرف سے بحیثیت سہولت کار جو کام کیا جا سکتا ہے ہم اس کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے جس میں ہم سہولت کار کا ہی کام کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے افغان طالبان کی سہولت کاری کے الزام کے حوالے سے ابرار حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان کا جنگ میں افغان طالبان کی سہولت کاری کا الزام مکمل طور پر مسترد کرتا ہوں۔پاکستان افغان طالبان کو فنڈ اور ان کی حمایت نہیں کرتا اور نہ ہی ان کی کسی طرح مدد کرتا ہے۔ اسلام آباداپنا اثر رسوخ استعمال کرتے ہوئے  افغان طالبان کو افغانستان کے ساتھ بات چیت پر آمادہ کرنا چاہتا ہے۔پاکستان میں افغانوں کو گھومنے پھرنے کی آزادی ہے ، افغانوں نے پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بھی بنائے ہوئے ہیں اب اس پر باقاعدہ چیکنگ شروع ہوئی ہے اور جن افغانوں نے غلط طریقے سے شناختی کارڈ یا پاسپورٹ لئے ہوئے ہیں ان سے وہ واپس لئے جا رہے ہیں۔ملا منصور کے پاس جو پاسپورٹ تھا وہ ملا منصور نہیں کسی اور نام سے تھا ، غلط شناخت کی بنیاد پر انھوں نے وہ پاسپورٹ حاصل کیا۔اس میں پاکستان کی ریاست یا حکومت کا ملوث ہونا کہنا بہت بڑی ذیادتی ہو گی ۔ افغان صدر کی جانب سے پاکستان میں افغان طالبان کی موجودگی اور پاکستان کی اس پر کارروائی نہ کرنے کی بات پر ابرار حسین کا کہنا تھا کہ افغان حکومت طالبان سے بات چیت کرنا چاہتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ مطالبہ بھی ہوتا ہے کہ ان کے خلاف ایکشن بھی لیا جائے۔ چارفریقی تعاون گروپ بنا تھا تو اس کا مقصد یہ تھا کہ امن عمل کو آگے بڑھایا جائے تاکہ اندازہ ہو کہ کون کون سے طالبان گروپ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ معاملات آگے نہیں بڑھ پائے اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم فضل اللہ سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں لیکن افغان حکومت کہتی رہی ہے کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ امن کے لئے اپنا کردار مناسب طریقے سے ادا کرے۔پاکستان میں 19800 سے زائد انٹیلی جنس آپریشن کئے گئے ہیں اور یہ طالبان سمیت تمام غیر ملکی عسکریت پسندوں کے خلا ف کئے گئے ہیں جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ مارے گئے اور بہت سے فرار ہو کر یہاں آ گئے۔دونوں ممالک میں اگر انٹیلی جنس شیئرنگ کی بات کی جائے تو یہ ہمارے تعلقات میں سیکیورٹی کے حوالے سے بہت اہم چیز ہے اور اسی لئے ہم نے کوشش کی تھی کہ این ڈی ایس اور آئی ایس آئی کے درمیان ایک ایم او یو دستخط ہوجائے۔جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ دونوں ممالک کی انٹیلی جنس ایک دوسرے سے انٹیلی جنس شیئر کریں اور بدگمانی ختم ہو جائے لیکن یہاں پر بہت سے لوگوں کو لگا کہ یہ چیز ان کے حق میں نہیں ہے اور انھوں نے اسے ناکام بنانے کی کوشش کی ۔ ایک اور سوال کے جواب میں پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت کے دور میں پاکستان نے بہت سے لوگ افغانستان کے حوالے کئے اور ان کے کہنے پر بہت سے طالبان قیدیوں کو چھوڑا بھی گیا تھا ۔ ملا عمر کی وفات کے حوالے سے جواب میں پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ ملا عمر کی وفات کا علم بہت سی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو تھا، اہم بات یہ ہے کہ اگر ملا عمر کے نام پر افغان طالبان صلح کے لئے بڑھ رہے ہیں تو کیا اس عمل کو روک دیناچاہیے تھا ؟ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو درست کرنے کے لئے چین کو بیچ میں بٹھانے کی افغان صدر اشرف غنی کی تجویز پر بات کرتے ہوئے ابرار حسین کا کہنا تھا کہ ہم پہلے ہی چین کو اس میں شامل کر چکے ہیں جب چارفریقی  فورم  بنایا گیا تو اس میں امریکا ، چین اور پاکستان کو شامل کیا گیا جو کہ سہولت کاراور مشاہدہ کر رہے تھے جبکہ بات چیت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونا تھی۔یہ ممالک اس لئے ساتھ تھے کہ اگر مقامی طور پر کوئی غلط فہمی ہے تو ان ممالک کے ہوتے ہوئے ایک دوسرے پر اعتماد بڑھے گا ۔پاکستان یہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں امن آئے کیوں کہ یہ پاکستان کے مفاد میں ہے اسکے لئے پاکستان کا کردار سہولت کار کا ہے ۔ افغان کہتے ہیں کہ پاکستان اپنا وعدہ پورا کرے تو پاکستان کی جانب سے یہی وعدہ تھا کہ بحیثیت سہولت کار ہم جتنی کوشش کر سکیں کریں گے لیکن ہم افغانستان سے یہ چاہتے ہیں کہ جب ہم اپنا کردار ادا کرتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے آتے ہیں تو اس وقت کم از کم یہ ان قوتوں کا آلہ کار نہ بنیں جو اس عمل کر روکنا چاہتے ہیں۔ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بند ہونا چاہئے اور ایک دوسرے کو دشمن سمجھنا بند کیا جانا چاہئے۔ افغانستان میں پاکستان اور بھارت کے کردار پر پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ پاکستان یہاں پر بہت سے پراجیکٹ کر رہا ہے ، صحت کے شعبے میں ، انفراسٹرکچر میں بھی کام ہورہا ہے ، طور خم جلال آباد روڈ پاکستان نے بنایا ہے ۔اسی طرح ہم نے یہاں پر اسکول اور جامعات بنائی ہیں۔جناح اسپتال یہاں بنانے کا آغاز کیا  جو  مکمل ہونے والا ہے۔ننگر ہار میں ہم نے گردے کاایک شفا خانہ بنایا ہے جس کا نام سردار عبد الرب نشتر کے نام پر ہے ۔پاکستان کے پراجیکٹ ملین ڈالرز کے ہیں۔3 ہزار طالبات کو ہم اسکالر شپ دے چکے ہیں جو کہ پاکستان میں کالجوں اور جامعات میں پڑھتے ہیں۔
تازہ ترین