• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف نے پیر کے روز افغان صدر اشرف غنی کو فون کرکے ہزارہ برادری کے احتجاجی جلوس پر داعش کی طرف سے کئے جانے والے خودکش حملے پر شدید دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے افغانستان کے ساتھ تعاون کے لئے پوری طرح پرعزم ہےاور اس سانحہ کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔ پاکستان اوائل ہی سے اس موقف کا حامی ہے کہ دہشت گردی نے اب ایک ایسی ہمہ جہت اور پیچیدہ شکل اختیار کرلی ہے کہ تمام ممالک کو اس کے خلاف مل جل کر جنگ کرنا ہوگی۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا ہے کہ افغانستان ایشیا کا دل ہے اگر یہاں امن ہوگا تو پورے ایشیا میں سکون ہوگا۔ پاکستان کے افغانستان کے ساتھ صدیوں پرانے تاریخی و تہذیبی رشتے ہیں اوراسلام آباد نے ہر مشکل وقت میں افغانستان کا ساتھ د یا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے نہ صرف افغان تحریک مزاحمت کے دوران افغانوں کا ساتھ دیا بلکہ وہ اب تک 55 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی اپنی کمزور معیشت کے باوجود میزبانی کرتا چلا آرہا ہے۔پاکستان افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے اور اس کی غذائی ضروریات کا بڑا حصہ بھی پاکستان ہی پوراکرتاہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے افغان حکومت کے ذمہ داران کا کردار خاص طور پر دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے کسی طرح قابل رشک نہیں ہے۔افغان صدراشرف غنی نے اپنے ایک حالیہ الزام میں تو یہاں تک کہہ دیا کہ انہیں طالبان اور القاعدہ سے اتنا خطرہ نہیں جتنا پاکستان سے ریاستی تعلقات سے ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے آپریشن ضرب ِ عضب کی تعریف بھی کرتے ہیں مگر اسلام آباد پر الزام تراشی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر ان سارے حالات کے باوجود وزیراعظم نوازشریف کا افغانستان میں خودکش حملے میں ہونے والی ہلاکتوں پر اظہار ہمدردی ایک مثبت قدم ہے ۔
تازہ ترین