• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
غالباًکوئی بڑا مانا ہوا دانا تھا جس نے کہا تھا کہ ’’ہر ایک میں کیڑا نکالنے والے لوگ بذاتِ خود کیڑا ہوتے ہیں‘‘ ویسے تو کیڑے ’’حشرات ـ‘‘کے معروف تعارف کے ساتھ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں لیکن بعض کیڑے پیٹ میں بھی ہوتے ہیں جن کے سبب اکثر ’’بھوک‘‘ زیادہ لگتی ہے کیونکہ روزمرہ لی جانے والی غذا کا بیشتر حصہ معدے میں پہنچتے ہی اُن کیڑوں کی نذر ہوجاتا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ نذر سے پہلے ہی وہ کیڑے حلق سے پیٹ تک کا سفر طے کرنے والی نعمتوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں اور پھر ہوتا یوں ہے کہ اِن اُچّکے کیڑوں کی حرص ’’مستحق ‘‘ کو اُس کےحق سے اِ س حد تک محروم کردیتی ہے کہ اُسے شکم سیری کے باوجود مسلسل بھوک لگتی رہتی ہے …کیڑوں کی ایک اور قسم مدتوں قیام کی اُمید کے ساتھ انسانی دانتوں کا حصہ بن کر اُنہیں آہستہ آہستہ ہیجان،شدیددرد اور بدترین انجام کی جانب دھکیل دیتی ہے یہاں تک کہ جب تک جبڑے کو بغور دیکھا نہ جائے تب تک یہ اندازہ لگایا ہی نہیں جاسکتا کہ…اِس ’’خالی مقام‘‘ پر بھی کبھی دانت ہوا کرتا تھا …
ویسے تو کیڑوں کی ان گنت قِسمیںماہرین حشرات سے دریافت کی جاسکتی ہیں لیکن قبراور منہ کے کیڑے اِس لئے نایاب اور کمیاب ہیں کہ جب تک اِن دونوں کو ’’کھولا‘ ‘نہ جائے تب تک اُنہیں دیکھنا اور اُن سے فطری گِھن محسوس کرناکسی بھی ہوش منداور متجسس انسان کے لئے محض ایک تصور کے سوا کچھ نہیں…اِس مقام پر ایک وضاحت نہایت ضروری ہے کہ یہاں منہ کے کیڑوں سے مُراددانتوں میں ’’روپوش‘‘ وہ کالے کیڑے نہیں ہیں جنہیں عدم صفائی اور ناقص دُھلائی داڑھوں کے پہاڑوں میں غار بنانے کا جواز فراہم کرتی ہے بلکہ یہ تو کلبلاتی سنڈیوںکی مانند وہ ’’نادیدہ کیڑے ہیں‘‘ جنہیںبدزبانی کی شدت اور تعصب کی حدت کے محدب عدسے کے بناا نسانی آنکھ سے دیکھناعبث ہے …لیکن اِس کے ساتھ ہی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ محدب عدسہ بھی ’’کیڑے‘‘اپنی بدکلامی اور بداخلاقی کے بدترین مظاہرےکی زیارت کے خواہش مندوں کوازخود فراہم کرتے ہیں…یہ اپنی جبلت میں اِس قدر بدبودار اور ڈنک مارنے کے خیالات میں اِتنے غلیظ ہوتے ہیں کہ اُن ’’احسان منددں‘‘ کو بھی کاٹنے سے بازنہیں آتے کہ جن کی بیش بہاقربانیوں کے سبب اُنہیں رینگنے ، ڈسنے اوراپنے آپ کو فخر سے ’’زمین کا کیڑا‘‘ کہنے کی زہریلی زبان ملی …
میں ایک ایسے ہی ’’بوڑھے کیڑے‘‘ کو عرصے سے جانتا ہوں جسے عرفِ عام میں ’’دُنیا کا بوڑھا کیڑا‘‘ بھی کہاجاتا ہے … ایک منصف المزاج (بعضوں کے نزدیک) بادشاہ کے نام پر اپنانام رکھ کے یہ چُندھی آنکھوں اور ہرمخالف کو کھا جانے والی وحشت انگیزنظر وں سے دیکھنے والا’’کیڑوں کی اپنی دنیا ‘‘میں بھی اِس قدر غیر معتبر ہے کہ جہاں جاتا ہے اپنا ایک ’’الگ بِل‘‘ بنا کر رہتا ہے …بات بات پر اُلجھنااور اِس عمر تک پہنچتے پہنچتے جِس جِس کو اِ س نے ’’ڈنک‘‘ مارے ہیں بس اُن ہی ’’ڈنکوں‘‘ کے ’’ڈنکے‘‘ بجوانے پر مصر رہنا یہاں تک کہ غیر مستحکم توازن کے باوجود اپنی انتہائی ہلکی اور باقاعدہ گِری ہوئی بات کو ’’وزنی‘‘ قرار دے کراِسے ’’اُٹھانے ‘‘ کی ضد کرنااب بُڑھاپے میں اِس کا محبوب مشغلہ ہے …ناقابلِ یقین حد تک ہر دلیل کو رد کرنا بھی اِس کے جاں لیوا زہروں میں سے ایک خطرناک زہر ہے جسے یہ اپنے ہی ساتھیوں پر تھوک کر عموماً قہر ڈھاتا رہتا ہے لیکن بے وجہ جھپٹ پڑنے کے مجنونانہ واقعات کی ایک مستند تاریخ کو یاد رکھتے ہوئے زمین کی اِس بدتمیز ترین مخلوق سے دیگر مخلوقات اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتی ہیں…کیڑوں کی ’’دُنیا‘‘ میں اِس کی بد زبانی کے چرچے اِس قدر عام ہیںکہ میںگزشتہ دِنوں ایک موقع پر چاہ کر بھی اِ س سے یہ نہ کہہ سکا کہ ’’آم کھائے گا آم؟ــ‘‘…
ہاں ایک بات تو میں لکھنا بھول ہی گیا کہ اِسے اپنی دانش مندی اورپیش بندی پر بڑا ناز ہے … سامع پر فرض ہے کہ یہ جب بھی اپنی عجیب سی مِنمناتی آواز میں جس موضوع پر بڑبولے کی طرح کچھ بھی بولے اُسے نہ صرف من و عن تسلیم کیاجائے بلکہ ’’فرض‘‘ سمجھ کر اِس کی لائی ہوئی کوڑی کو ایک قیمتی دریافت گردانتے ہوئے واہ واہ کی آوازوں سے اِس کا دِل لبھایا جائےتاکہ یہ کچھ دیر ہی سہی مگر خاموش تو رہے کیونکہ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ یہ بولتا ہے بلکہ مسئلہ تو اصل میں یہ ہے کہ یہ کیڑا جب بھی بولتا ہے ہر انسان کا خون اِس کی عجیب و غریب آواز سن کر ہی کھولتا ہے …اِس کے علاوہ یہ ایک نمبر کا کاذب اور قابض بھی ہے ، کاذب اِس طرح کہ چند سیکنڈز پہلے کہی ہوئی اپنی بات سے یو ں مُکر جاتا ہے کہ جیسے ’’گجنی کا عامر خان ‘‘ ہو ، اِسے چاہئے کہ یہ اپنی کہی ہوئی ہر بات کو اپنے پورے جسم پرلکھ لیا کرے تاکہ جب بھی بھولے ’’کونے‘‘ میں جاکر دیکھے اور یادآجائے کہ اِ س نے پل دو پل پہلے کہا کیا تھا؟…اور قابض یوں کہ یہ اپنی ناقص و ناکارہ تاریخی معلومات کو شرکا پر تھوپ کر پہلے اُن کے دماغوں پر اپنے ’’زہریلے علم‘‘ کے پنجے گاڑتا ہے اور ہر نکتہ اِس طرح بیان کرتا ہے کہ اُسے ’’خطبۂ الٰہ باد‘‘ سے کم نہ سمجھا جائے اور اِس کے ہر بے ہودہ اور بے ربط نظریے کو ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کا نعم البدل سمجھ کر فوراً عمل کیا جائےتاکہ اِس کی بڑائیاں مارنے کی جدی پشتی عادتوں کو قرار آجائے …بقول شخصے کہ ’’سب سمجھتے ہیں بات مطلب کی ،کس نے سمجھا ہے بات کا مطلب؟چنانچہ اِس کیڑے کو بھی ــہر دم ’’مطلب کے مقامات ‘‘ کی تلاش رہتی ہے تاکہ یہ ’’دوسروں ‘‘ کی باتوں سے اپنا ’’مطلب‘‘ نکال کر نفرت و عداوت کا زہر جگہ جگہ تھوکتا رہے اورشعور و آگہی کا تھانے دار بن کر بِلا روک ٹوک منافرت پر مبنی اپنے خیالات ہر کسی پر ٹھونستا رہے حالانکہ یہ اب تک رینگتے رینگتے جہاں جہاں گیا ہے ٹھس ٹھسا کر ہی گیا ہے …’’دُنیا کے اِس کیڑے‘‘ کا مزاج بھی عجیب ہے،جو اِس کے باؤلے پن کو سمجھ لے وہ اُسے اچھا لگتا ہے اور جسے اِس کی زہریلی باتوں سے اِس کی نیت کا اندازہ ہوجائے وہ اُسے بُرا لگتا ہے …یہ اور بات ہے کہ اگر یہ ایک بار بھی جگہ جگہ تُھوکے ہوئے اپنے زہریلے قطروں کا مشاہدہ کرلے تو اِس کیڑے کو شاید اندازہ ہوسکے کہ اِس نے بُڑھاپے کی دہلیز تک پہنچتے پہنچتے سوائے فضول ، بے تُکے اور لاحاصل دھبوں کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں کیااور اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ یہ جہاں سے گزرتا ہے راستے بھی سہم جاتے ہیں کیونکہ بے جان ہیں، ورنہ اِس کو آتا دیکھ کر اِتنا تو کہہ ہی دیتے کہ ’’اے زہریلے اورمتعصب کیڑے!کچھ باتیں انسان بہت جلد بھول جاتا ہے ، اُن میں سے ایک اُس کی اوقات بھی ہے‘‘ …جبکہ حقیقت تو فقط اِتنی ہے کہ کیڑوں کی دنیا کا ایک اُصول ہے اور وہ یہ کہ جو کیڑا بھی اپنی بے عزتی پر مسکراتا ہے اُسے کافی مطمئن اوربے غیرت کیڑا کہہ کر پکارا جاتا ہے ، ویسے میں اِس’’ تعصب وتعفن زدہ‘‘ کیڑے سے فقط اِتنا ہی کہوں گا کہ ’’اے بوڑھےکیڑے!فرشتہ کوئی نہیں ہوتا کیونکہ سب کے راز ہوتےہیں‘‘…!!!!


.
تازہ ترین