• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معراج محمد خاں کے انتقال کے ساتھ بائیں بازو کی سیاست کا وہ دور ختم ہو گیا جب طلبہ تنظیموں سے وہ سیاسی کارکن پیدا ہوتے تھے جو اپنی ساری زندگی طلبہ، مزدورں، کسانوں اور دوسرے پسماندہ طبقوں کے حقوق اور جمہوری اقدار کے لئے وقف کر دیتے تھے۔ یہ کارکن آمروں کا مقابلہ کرتے تھے، جیلوں میں جاتے تھے اور ساری عمر اسی تگ و دو میں گزار دیتے تھے۔ معراج محمد خاں نے اپنی سیاسی زندگی ایک طالب علم رہنما کے طور پر شروع کی۔ طالب علم رہنما کے طور پر ہی کراچی بدر کئے گئے۔ تیرہ سال سے زیادہ جیل کاٹی۔ پولیس کی لاٹھیاں کھائیں اور ان لاٹھیوں کی بدولت ہی اپنی ایک آنکھ بھی گنوا بیٹھے۔ کراچی بدر اس لئے کئے گئے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایوب خاں کی کنونشن مسلم لیگ کے جلسے میں گھس گئے تھے اور اسٹیج پر قبضہ کر لیا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ ایوب خاں نے بی اے تین سال کا کر دیا تھا۔ معراج محمد خاں اور ان کے طلبہ ساتھی اسے تعلیم پر پابندی قرار دے رہے تھے یعنی غریب طلبہ بی اے کرنے کے لئے تین سال کالج میں گزاریں۔ وہ کراچی بدر تو ہوئے لیکن ان کی جدوجہد ایسی بھرپور تھی کہ حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ یہ تھی اس زمانے میں طلبہ تنظیموں کی طاقت۔ لیکن اس زمانے میں عام آدمی کا سیاسی شعور بھی تو بہت بیدار تھا۔ یہ طلبہ کراچی سے چلے تو حیدر آباد اور دوسرے شہروں میں ان کا زبردست استقبال کیا گیا۔ مجھے دوسرے شہروں کا تو علم نہیں البتہ ملتان کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ ان طلبہ میں سے جو لڑکے ملتان پہنچے تو وہاں کے طلبہ اور بائیں بازو کے سیاسی حلقوں نے ان کا پُرجوش خیرمقدم کیا۔ ان دنوں میں روزنامہ امروز ملتان کا ایڈیٹر تھا۔ اگرچہ اس اخبار پر حکومت کا قبضہ ہو چکا تھا مگر ہم اس وقت تک میاں افتخار الدین کے زمانے میں ہی زندہ تھے۔ اس لئے ہم سے جو کچھ ہو سکا وہ ہم نے بھی ان طلبہ کے لئے کیا۔ اور پھر وہاں اس وقت سید قسور گردیزی جیسا بائیں بازو کا نڈر اور بہادر رہنما بھی موجود تھا۔ قسور صاحب نے ان لڑکوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان کی مدد کی۔ کراچی سے نکالے جانے والے جو طلبہ ملتان آئے تھے ان میں ہمارے شعلہ صفت حسین نقی بھی تھے۔ دوسرے طلبہ کے نام تو مجھے یاد نہیں البتہ ان میں معراج محمد خاں نہیں تھے۔ وہ کسی اور شہر چلے گئے تھے لیکن معراج محمد خاں جمہوری جدوجہد کے لئے اپنے آپ کو وقف کر چکے تھے۔ افریقہ میں عام آدمی پر ظلم ہو رہا ہے تو معراج محمد خاں جلوس نکال رہے ہیں۔ پاکستان میں امریکی اثرات بڑھ رہے ہیں، اور امریکی صدر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں تو معراج محمد خاں اس کے خلاف جلوس کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ ویت نام کی جنگ کے خلاف جلوس میں بھی سب کے ساتھ سڑکوں پر نعرے لگا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں بھی وہ یہ سمجھ کر گئے تھے کہ یہ پارٹی واقعی عوام کی نجات دہندہ ثابت ہو گی لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ وہاں بھی جاگیرداروں اور موروثی وڈیروں کی ہی حکمرانی چل رہی ہے اور مولانا کوثر نیازی جیسے لوگ ہی حکومت کی پالیسیوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں تو انہوں نے وہ پارٹی چھوڑ دی۔ اس کا خمیازہ انہیں یہ بھگتنا پڑا کہ انہیں ایک بار پھر جیل جانا پڑا۔ اور جو لاٹھی ان کے سر پر پڑی اور جس نے ان کی ایک آنکھ لے لی وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی لاٹھی تھی۔ پھر انہوں نے ضیاء الحق کے زمانے میں بھی جیل کاٹی۔ مارشل لا کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک چلی تو اس میں بھی وہ آگے آگے تھے۔ مصطفیٰ جتوئی کے ساتھ وہ بھی جیل گئے۔ وہ ساری عمر عام آدمی کے لئے انصاف کی تلاش میں رہے۔ اسی خوش فہمی یا غلط فہمی میں وہ عمران خاں کی جماعت میں بھی شامل ہوئے لیکن یہاں بھی انہیں انہی لوگوں سے واسطہ پڑا جن کے خلاف وہ شروع سے لڑتے آئے تھے۔ انہوں نے اپنی ایک جماعت بھی بنائی لیکن پاکستان میں سیاسی جماعت بنانے کے لئے صرف عوام کی حمایت ہی کافی نہیں ہوتی اس کے لئے سرمائے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ اور یہ سرمایہ زمینداروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے پاس ہوتا ہے۔ چنانچہ ان کی جماعت زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکی۔ ایسا لگتا ہے کہ بعد میں وہ پاکستانی سیاست سے ہی بیزار ہو چکے تھے لیکن اتنی جیلوں اور لاٹھیوں کے بعد وہ بیمار بھی رہنے لگے تھے۔
چونکہ معراج محمد خان جیسے عوامی رہنما طلبہ تنظیموں سے ہی پیدا ہوتے تھے اس لئے ضیاء الحق نے پہلا کام یہ کیا کہ طلبہ تنظیموں پر پابندی لگا دی اور یہ پابندی ابھی تک جاری ہے۔ لیکن یہ پابندی صرف بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے لئے ہی تھی، دائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں تمام تعلیمی اداروں میں پورے زور شور سے کام کرتی رہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں پر دائیں بازو کا قبضہ ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی جمہوری اقدار اور مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے لئے طلبہ تنظیموں کا جو کردار تھا وہ بھی ختم ہو گیا۔ لیکن یہ حشر صرف طلبہ تنظیموں کا ہی نہیں ہوا، مزدور اور کسان تنظیموں پر بھی دائیں بازو کی جماعتوں نے قبضہ کیا اور ان کی طاقت بھی بکھیر دی۔ ٹریڈ یونین جیسی تنظیمیں کمزور ہوئیں تو محنت کشوں کے حقوق بھی پامال ہونا شروع ہو گئے۔ آج ہمارے ہاں لیبر قوانین موجود ہیں مگر ذرا اپنے آس پاس دیکھ کر بتایئے، کہیں بھی ان پر عمل ہو رہا ہے؟ مالکوں نے براہ راست مزدوروں کی بھرتی بند کر دی ہے۔ اب تیسری پارٹی کے ذریعے ان کی بھرتی کی جاتی ہے اور وہ بھی کنٹریکٹ پر۔ اب کہیں بھی ملازمت کا تحفظ نہیں ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ آج ان کے لئے آواز اٹھانے والا کوئی رہنما یا کو ئی تنظیم نہیں ہے۔ اب نہ کسی میں ہڑتال کرنے کی ہمت ہے اور نہ جلوس نکالنے کی۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں میں تو اس سے بھی برا حال ہے۔ وہاں دفتر جانے کا وقت تو مقرر ہوتا ہے مگر وہاں سے واپس آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا۔ اب یہاں مجھے منہاج برنا یاد آ رہے ہیں۔ معراج محمد خاں کے بڑے بھائی۔ معراج محمد خاں اگر عام آدمی کے حقوق کے لئے لڑ رہے تھے تو منہاج برنا نے اپنی زندگی صحافیوں کے حقوق کے لئے وقف کر دی تھی۔ پی ایف یو جے نے منہاج برنا کی قیادت میں ہی صحافیوں کا ویج بورڈ بنوایا۔ تمام اخباری کارکنوں کی تنخواہیں مقرر کرائیں۔ انہیں ملازمت کا تحفظ فراہم کیا۔ لیکن ضیاء الحق نے دائیں بازو کی مدد سے صحافیوں کے اندر بھی انتشار پھیلا دیا۔ آج پی ایف یو جے کا نام تو سننے میں آتا ہے لیکن کارکن صحافیوں کے حقوق کے لئے وہ کیا کر رہی ہے؟ یہ سننے میں نہیں آتا۔ اس لئے کہ اس کی اپنی صفوں میں انتشار کی وجہ سے اس کی عوامی طاقت کمزور ہو چکی ہے۔ کتنے ہی اخبار اور ٹی وی چینل ایسے ہیں جہاں ملازمت کا تحفظ تو دور کی بات ہے، وہاں کارکنوں کو تنخواہیں تک نہیں ملتیں۔ اب مزدور ہوں، کسان ہوں یا اخباری کارکن ہوں انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ ہاں، این جی اوز کا ایک ایسا حلقہ ضرور ہے جو ظلم اور جبر کے خلاف اور انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھاتا ہے۔ وہ عورتوں، محنت کشوں اور پسماندہ طبقوں کی آواز بھی بنا ہوا ہے لیکن اس کی اپنی کوئی عوامی طاقت نہیں ہے۔ وہ عوامی شعور تو پیدا کرتا ہے لیکن اسے عملی شکل نہیں دے سکتا کیونکہ عملی شکل دیتی آئی ہیں باشعور طلبہ تنظیمیں، ٹریڈ یونینز یا کسانوں اور صحافیوں کی طاقتور تحریکیں۔ اور یہ تحریکیں اب کہیں نظر نہیں آتیں۔ بایاں بازو پیچھے ہٹ گیا ہے اور دائیں بازو نے وہ خلا پورا کر دیا ہے۔ اسی لئے تو ہمیں معراج محمد خاں اور منہاج برنا جیسے جی دار صحافی، سیاسی اور مزدور رہنما یاد آتے ہیں جو پسماندہ اور کچلے ہوئے طبقوں کے حقوق کے لئے صرف شعور ہی بیدار نہیں کرتے تھے بلکہ وہ حقوق حاصل کرنے کے لئے سڑکوں پر بھی آتے تھے۔ جیلیں بھرتے تھے اور پولیس کی لاٹھیاں کھاتے تھے۔


.
تازہ ترین