• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گاہے یوں لگتا ہے جیسے طوطے کے ذریعے فال نکالنے اور مستقبل کا حال بتانے والے سب نجومی صحافیوں کا بھیس بدل کرمیڈیا کا حصہ بن گئے ہیں۔ان سڑک چھاپ نجومیوں سے تو لوگ یہ پوچھا کرتے تھے کہ شادی کب ہو گی؟اورکیا بیرون ملک سفر کا کوئی امکان ہے؟مگر خبر چھاپ تجزیہ نگارتب خوش ہوتے ہیں جب ان سے کوئی یہ پوچھے کہ حکومت کب جا رہی ہے۔پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں یہ سن سن کر کان پک گئے کہ جمہوریت کی کشتی بیچ منجدھار ہے اور کسی بھی وقت ڈوب سکتی ہے۔اچانک بریکنگ نیوز کا پٹاخہ پھوٹتااورہنگامی نشریات کا آغاز ہوجاتا ،بڑے بڑے تجزیہ نگار جینز کے اوپر کوٹ پہن کر اسٹوڈیو میں آتے اور سنسنی خیز انداز میں بتاتے کہ آصف زرداری کے لئے ایمبولینس تیار کھڑی ہے،ہو سکتا ہے وہ ملک چھوڑ کر فرار ہو جائیں،اسی اثناء میں میمو گیٹ کا شور اٹھا تو اندر کی خبر رکھنے والوں نے کہا ،بس جی کا جانا ٹھہر گیا ہے،صبح گیا یا شام گیا۔جناب زرداری بیرون ملک گئے تو یار لوگوں نے کہا ،بس جمہوریت کا قصہ تمام ہوا،اب ان کی واپسی کا کوئی امکان نہیں۔باوثوق ذرائع کے حامل رپورٹر بتاتے کہ انقلاب کی تیاریاں مکمل ہو چکیں، اڈیالہ جیل میں ایک سیل خصوصی طور پر تیار ہو چکا ہے ،اپنی سماعتیں مجتمع کریں اور سننے کی کوشش کریں آ رہی ہے صدا ،میرے عزیز ہم وطنو۔حکومت تو سخت جان تھی ہی مگر یہ طوطا مارکہ صحافی ان سے کہیں زیادہ ڈھیٹ ثابت ہوئے اور مسلسل پانچ برس تک شرمندہ ہوئے بغیر یہ راگ الاپتے رہے کہ حکومت جا رہی ہے۔نوازشریف کی حکومت آئی تو چند ماہ کے توقف کے بعدہی اسے گھر بھیجنے کی تگ و دو پورے زور و شور کے ساتھ شروع کر دی گئی۔سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد الٹی گنتی کی باتیں تواتر کے ساتھ ہونے لگیں ۔دھرنا سیاست شروع ہوئی تو ان تجزیہ نگاروں کی باچھیں کھل اٹھیں اور خوشی سے تمتماتے چہروں کے ساتھ پرجوش انداز میں کہنے لگے،ہم نے کئی ماہ پہلے جو نقشہ کھینچا تھا اب اس پر عملدرآمد کا وقت آ گیا ہے۔سامعین و ناظرین اور قارئین کو یوں لگتا جیسے کرکٹ میچ کے کمنٹیٹرکی آواز اچانک بلند ہو تی ہے ،شائقین پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ شاید کوئی کلین بولڈ ہوا ہے یا پھر بلے باز نے گیند بائونڈری سے باہر پھینک دی ہے مگر دیکھنے پر معلوم ہوتا کہ میچ تو معمول کے مطابق جاری ہے بس کمنٹری کرنے والے پر بدہواسی کا دورہ پڑا ہے۔اسی اثناء میں پاناما لیکس کا دھماکہ ہو گیا اور طوطامارکہ اسٹاک ایکسچینج میں حکومت کی رخصتی کے حصص کی مانگ بڑھ گئی۔میاں نواز شریف کے عارضہ قلب میں مبتلاہونے کی خبریں آئیں تو ایک مرتبہ پھر افواہ ساز فیکٹریوں کا دھندہ عروج پرپہنچ گیا۔کسی نے کہا ،یہ سب ڈھونگ ہے ۔میاں صاحب لندن سے کبھی واپس نہیں آئیں گے ۔چند دن تو بازار خوب گرم رہا مگر پھر ایک دن میاں نوازشریف واپس آگئے ۔لیکن مستقبل کی خبر دینے والے ان تجزیہ نگاروں کی استقامت کو اکیس توپوں کی سلامی جنہوںنے تب بھی ہمت نہ ہاری اور ایک نئی تھیوری مارکیٹ میں پھینک دی گئی کہ اگر سب کچھ معمول کے مطابق ہوتا تو میاں صاحب رائیونڈ میں آرام کرنے کے بجائے ایوان وزیر اعظم نہ جاتے۔شومئی قسمت میاں صاحب نے ایک دن اڑان بھری اور اسلام آباد پہنچ گئے۔
ویسے میاں نوازشریف قسمت کے دھنی اور مقدر کے سکندر ہیںکیونکہ تخت اور بخت ہمیشہ ان پرمہربان رہے۔ ماضی میں بھی جنرل آصف نواز سے جنرل جہانگیر کرامت تک ہر بار قسمت ان پر مہربان رہی۔پرویز مشرف کی بغاوت کے بعد بعض افراد کا خیال تھا کہ اب شریف خاندان قصہ پارینہ ہو چکا مگر وہ نہ صرف پورے طمطراق کے ساتھ واپس آئے بلکہ ملکی سیاست کے افق پر پھر چھا گئے۔حالیہ دور میں بھی ان کے اقتدار کا سورج کئی باربے یقینی کے بادلوں میں چھپ گیا مگر ہر بار سورج گرہن ختم ہوا تو اس آفتاب کی تابانیاں اور جولانیاں پہلے سے کچھ اور بڑھ گئیں۔مثال کے طور پر جب میاں صاحب لندن میں تھے تو آزادکشمیر میں انتخابی مہم عروج پر تھی۔عمران خان اور بلاول بیک زبان ہو کر نوازشریف کو مودی کا یار اور کشمیر کاز کا غدار کہہ رہے تھے مگر جب وہ واپس آئے تو دو واقعات ان کے لئے غیبی امداد ثابت ہوئے۔ایک طرف ترکی میں فوجی بغاوت کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑاجس کے نتیجے میں دنیا بھر کے جمہوریت پسندوں کو ایک نیا عزم اور حوصلہ ملا تو دوسری طرف کشمیری عوام نے انتخابات میں مسلم لیگ (ن)کو ووٹ دے کر الزامات کے غبارے سے ہوا نکال دی۔کشمیریوں نے تبدیلی کے نعروں اور جہاد کشمیرکے پتھارے داروں کو مسترد کر دیا۔اور اب یوں لگتا ہے جیسے یہ میچ یکطرفہ ہو گیا ہے۔یہ بھی نواز شریف کی خوش بختی ہے کہ انہیں عمران خان جیسا اپوزیشن لیڈر ملا ہے جو خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کے فن میں کمال مہارت کا حامل ہے اور جب بھی نواز شریف الیون کا رن ریٹ کم ہوتا ہے تو وہ کوئی فل ٹاس بال پھینکتا ہے تاکہ اس کے حریف چھکا لگا کر میچ پراپنی گرفت مضبوط کر سکیں۔
بلا مبالغہ نوازشریف قسمت کے دھنی ہیں اور واقعی انہیں خدا نواز رہا ہے مگر لوئس پاسچر نے کہا تھا ،قسمت بھی ان لوگوں پر ہی مہربان ہوتی ہے جو اس کے ثمرات سمیٹنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔نواز شریف کے طرز حکومت اورانداز سیاست سے اختلاف اپنی جگہ مگر سچ یہ ہے کہ وہ قسمت سے فیض یاب ہونے کو تیار بیٹھے ہیں۔پوری دنیا میں میڈیا واچ ڈاگ کا کام کرتا ہے ۔حکومتوں کی کارکردگی پر نظر رکھی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں ہر نظر اس خبر پر ہوتی ہے کہ حکومت کب جا رہی ہے۔میرا خیال تھا کہ سیاسی مطلع جو اب تک ابر آلود تھا ،بادلوں کے چھٹ جانے کے بعد بڑی حد تک صاف ہو چکا ہے ، اب ان لوگوں کا کاروبار ٹھپ ہوجائے گا جو کبھی مارچ میں ڈبل مارچ کی باتیں کرتے ہیں،پھر کہتے ہیں کہ قربانی سے پہلے قربانی ہو گی جب یہ ڈیڈ لائن بھی گزر جاتی ہے تو معذرت کرنے کے بجائے پورے وثوق سے کہنے لگتے ہیں کہ بس اب کھیل ختم ہونے کا وقت آ گیا ،میری یہ بات لکھ کر رکھ لیںیہ جو ستم بر ہے ناں یہ حکومت کے لئے ستم گر ثابت ہو گا۔مجھے توقع تھی کہ اب جب کہ ’’جانے کی باتیں ‘‘ اور ’’آنے کی التجائیں‘‘ بے سود اور بے کار ہوچکی ہیں تو یہ طوطا مارکہ تجزیہ نگار تاریخیں دینے سے باز آ جائیں گے مگرگزشتہ روز ایک دوست کے توسط سے معلوم ہوا کہ دائیں بازو کی نمائندگی کرنے والے ایک بڑے ’’کاہن‘‘ کی پیش گوئی کے مطابق یوم حساب کا وقت قریب آن پہنچا ہے اور 30ستمبر 2016ء سے پہلے نواز شریف کی حکومت ختم ہو جائے گی ۔اس قماش کے تجزیہ نگار وں کا میسر آنا بھی نوازشریف کی خوش بختی ہے جو عوام کو ایسی لایعنی بحث میں الجھائے رکھتے ہیںاور اصل ایشوز کی طرف نہیں آنے دیتے۔اپوزیشن اور میڈیا کی اس آپا دھاپی میں مجھے تو ایک ہی جملہ سنائی دے رہا ہے:ـ’’خدا تجھے نواز رہا ہے نواز شریف‘‘


.
تازہ ترین