• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بجلی کے واجبات میں موجودہ حکومت کے تین برسوں کے دوران کمی کے بجائے بھاری اضافے کا ہونا، جس کی تفصیلات گزشتہ روز قومی اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں سامنے آئیں، یقیناًفوری توجہ طلب معاملہ ہے۔فراہم کی گئی معلومات کے مطابق جون 2013ء میں جب مسلم لیگ (ن) نے اقتدار سنبھالا بجلی کے شعبے کے واجبات کی کل رقم384.109 ارب روپے تھی جو سال رواں کے ماہ جون میں بڑھ کر 637.769 ارب روپے ہوگئی۔گویا تین برسوں میں واجبات کی رقم میں کمی کے بجائے253.69 ارب کا اضافہ ہوا۔وزارت پانی و بجلی کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کئے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق ان واجبات میں بڑا حصہ نجی شعبے کا ہے جس پر تقریباً486 ارب واجب الادا ہیں جبکہ صوبائی حکومتوں سمیت سرکاری شعبے کو بجلی کی مد میں 169ارب روپے ادا کرنے ہیں۔تاہم اپنے تحریری جواب میں متعلقہ وزارت نے دعویٰ کیا ہے کہ وصولیابی کی شرح 89.58سے بڑھ کر 94.45فی صد ہوگئی ہے۔ وزارت پانی وبجلی نے واجبات میں اضافے کا بنیادی سبب سندھ اور بلوچستان میں امن وامان کی غیرتسلی بخش صورت حال کو قرار دیا جس کی بناء پر صوبائی حکومتیں واجبات کی وصولی میں مشکلات کا شکار رہیں۔ وزارت پانی وبجلی کا یہ موقف اس وجہ سے محل نظر ہے کہ واجبات کا بڑا حصہ یعنی 76فی صد سے زیادہ سرکاری نہیں نجی شعبے کے ذمہ ہے۔ وزارت کے تحریری جواب میں صوبوں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس وقت صوبوں پرجو رقوم واجب الادا ہیں ان میں سے 73 ارب سندھ اور 19ارب خیبر پختون خوا کے ذمہ ہیں۔ جبکہ قابل وصول مؤخر رقوم میں سے بلوچستان کے زرعی ٹیوب ویلوں پر 127ارب، آزاد جموں و کشمیر، کے الیکٹرک اور فاٹا پر بالترتیب65، 46 اور21 ارب روپے واجب الادا ہیں۔واجبات کی وصولی کے لئے کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ مستقل طور پر واجبات ادا نہ کرنے والے صارفین کی براہ راست نگرانی کرکے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کسی اور طریقے تو بجلی حاصل نہیں کررہے ہیں،اس کے علاوہ نادہندگان کے خلاف عدالتی چارہ جوئی ، بلوں پر تنازعات کے تصفیے، بلوں کا بروقت اجراء اور متعلقہ جائزہ کمیٹیوں کے اجلاسوں کا مسلسل اہتمام کیا جاتا ہے۔ وزارت کے تحریری جواب میں مزید بتایا گیا ہے کہ صوبائی محکمہ مالیات کے سیکریٹریوں کو بڑے نادہندہ محکموں سے وصولیوں کے لئے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کے علاوہ متعلقہ تقسیم کار کمپنیوں سے بھی متعلقہ محکموں سے واجبات کے معاملات طے کرنے کو کہا گیا ہے۔تاہم واقفان حال کے مطابق صوبوں سے واجبات کی وصولی ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور اس کیلئے اہم پالیسی فیصلے ضروری ہیں جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کرنے ہوں گے۔مثال کے طور پر آزاد جموں و کشمیر اور خیبرپختون خوا سے واجبات کی ادائیگی کا معاملہ اگرچہ ایک حد تک طے پاچکا ہے لیکن اس رقم میں اس وجہ سے اضافہ جاری ہے کیونکہ وزرات کو معاہدے کے مطابق رقوم منتقل نہیں کی جارہی ہیں۔ واضح رہے کہ موجودہ وفاقی حکومت نے تین سال پہلے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد بجلی پیداکرنے والی کمپنیوں کے پانچ سو ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کرکے ان کا حساب بے باق کردیا تھا لیکن خود اپنے قرضداروں سے وصولی کے لئے ، خواہ وہ نجی شعبے میں ہوں یا سرکاری شعبے میں، وفاقی حکومت نے کسی چابک دستی کا ثبوت نہیں دیا۔ نجی شعبے میں ایک خاصی تعدادایسے صارفین کی ہے جو نادہندہ قرار پاچکے ہیں اور جن سے وصولی کا کوئی امکان نہیں، اس کے باوجود حسابات میں ان کی رقوم کو قابل وصول دکھایا جارہا ہے جبکہ ایسے کیسوں میں جزوی وصولی کی کوشش کی جانی چاہئے یا ایسی رقوم کو واجب الوصول کی مد سے خارج کرکے حقیقی صورت حال سامنے لائی جانی چاہئے۔ فی الحقیقت بجلی کے واجبات کی یہ صورت حال براہ راست وزیر اعظم کی فوری توجہ کی متقاضی ہے۔ حکومتی میعاد کے اندر بجلی کے بحران کے مکمل خاتمے کے وعدے کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جاری منصوبوں کی تکمیل کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ واجبات کی مکمل وصولی کا اہتمام بھی کیا جائے تاکہ موجودہ نظام کو بہتر بنانے کے لئے مزید مالی وسائل میسر آئیں ، اس کی پوری گنجائش کے مطابق بجلی پیدا کی جاسکے اور بجلی کے بل بروقت ادا کرنے والے صارفین مہنگی بجلی کی صورت میں نادہندگان کے واجبات کا بوجھ اٹھانے سے بچ سکیں۔

.
تازہ ترین