• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سارک کانفرنس: پاکستان جانا ہے یا نہیں نریند مودی کے سامنے ایک مشکل فیصلہ

نئی دہلی(جنگ نیوز)پاکستان نے سارک سربراہی کانفرنس کی تیاریاں شروع کردی ہیں لیکن بھارتی وزیر اعظم نے ابھی پاکستان جانے اور اجلاس میں اپنی شرکت کی تصدیق نہیں کی حالانکہ 9نومبر سے شروع ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ انہیں مارچ میں ہی مل گیا تھا تاہم نریندر مودی کے سامنے یہ ایک مشکل فیصلہ ہے ۔  بھارتی میڈیا  کے مطابق  یہ فیصلہ کرتے ہوئے متعدد عناصر کو زیر غور لایا جائے گا جن میں  سے پاک بھارت تعلقات میں موجود سرد مہری بھی  شامل ہے اور بھارت کا کثیر ملکی تنظیموں سے ملکر کام کرنے کا عزم بھی ہے۔میڈیا کے مطابق بھارت اس پلیٹ فارم کو پاکستان پر دبائو بڑھانے کےلیے استعمال کر سکتا ہے اور میڈیا  نے پاک بھارت تعلقات میں آنے والی سرد مہری کے حوالے سے پٹھانکوٹ واقعہ اور راجناتھ کے دورہ پاکستان کے دوران پاکستانی تنظیموں کے مظاہروں کا ذکر تو کیا ہے لیکن کشمیر میں وانی کی شہادت اور سویلین آبادی کیخلاف اندھا کردینے والے خوفناک چھروں کے استعمال اور بلوچستان پر بھارتی وزیراعظم کےسرخ لکیر پار کرنے کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے۔بھارتی میڈیا کے حلقے اپنی خبر میں تسلیم کرتے ہیں کہ سارک سربراہی کانفرنس کےلیے مودی کو دعوت نامہ مارچ میں ہی مل گیا تھاجو کہ 9سے10نومبر تک اسلام آباد میں ہوگی،اخبار کے مطابق بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج کہہ چکی ہیں کہ وزیراعظم مودی پاکستان میں سربراہی کانفرنس میں شرکت کےلیے جائیں گے لیکن اس وقت سے اب تک معاملات بہت حدتک تبدیل ہوچکے ہیں۔ اسلام آباد کے ساتھ فی الوقت جاری کشیدگی اس سلسلے میں ہونے والی کسی بھی فیصلے کا سب سے اہم عنصر ہوگا۔ بھارتی وزیرداخلہ کا دورہ پاکستان کا تجربہ بھی سامنے رہےگا۔ بھارتی وزیر اعظم پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ ان کی پچ پر لفظوں کی جنگ میں الجھنا نہیں چاہیں گے لیکن دوسری جانب بھارت اعلیٰ سطح کے اس پلیٹ فارم کو پاکستان پر دبائو مزید بڑھانے کےلیے بھی استعمال کر سکتا ہے ۔اگر چہ سارک کے دیگر ارکان خوف زدہ ہیں کہ وہ پاکستان اور بھارت کے باہمی مباحثے مناقشے میں الجھ جائیں گے لیکن بھارت افغانستان کی کابل حکومت کے ساتھ مل کر مشترکہ کاز کےلیے کام کر سکتا ہے کیونکہ افغانستان کی کابل حکومت کے بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات کئی ماہ سے تنزلی کا شکار ہیں اور وہ تیزی سے بھارت کے قریب آرہا ہے۔ بھارت کو ہر حوالے سے کئی قسم کے نتائج کےلیے تیار رہنا ہوگا۔
تازہ ترین