• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہالینڈ کے سائنسدانوں نے وارننگ دی ہے کہ دنیا بھر کو بے ہنگم ماحولیات و آب و ہوا کی تبدیلیوں کے خطرے کا سامنا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلیوں کا عمل ماہرین کے اندازوں سے بھی زیادہ تیزی سے جاری ہے۔
عالمی سطح پر سمندروں کے درجہ حرارت، پانی کی سطح کی بلندی، آب و ہوا کی شدید تبدیلیوں اور برف پگھلنے کے عمل میں تیزی جیسے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا عمل دو سال قبل لگائے گئے اندازوں اور اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ بارشوں اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے قبل از وقت برف پگھلنے کے باعث مغربی یورپ کے کئی دریائوں میں پانی کی سطح بلند ہونا شروع ہوگئی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج سطح سمندر میں لگ بھگ چار میٹر اضافہ کردے گا، کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا ماحولیات پر ایک ہزار سال تک اثرات ہونے کا امکان ہے اور 2999تک مغربی انٹارکٹیکا میں بر ف کی چادر تباہ کن طورپر پھٹنے کا خطرہ ہے۔ جرمنی میں دریاموزل، موصل کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے اس کے کنارے آباد کئی چھوٹی آبادیاں زیر آب آچکی ہیں۔ ماہرین کے مطابق سطح زمین کا مجموعی درجہ حرارت اس صدی کے اختتام تک لگ بھگ 4سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے گا اور اس کی ایک اہم وجہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے جو سب سے بڑی گرین ہائوس گیس ہے اور جو تیزی سے فضا میں بڑھ رہی ہے اور ان سب آفتوں کے نتیجے میں نہ صرف طوفانوں کی شدت میں اضافہ ہوگا بلکہ کرہ ارض پر حرارت چار گنا زیادہ ہوجائے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات 95فیصد تک درست ہے کہ سطح زمین پر حدت میں اضافےکی وجہ قدرتی تغیرات کی بجائے انسانی سرگرمیوں کے نتیجہ میں خارج ہونے والی گرین ہائوسسز گیس ہے ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت دنیا میں تباہ کن طوفانوں کا سبب بن رہا ہے اور سیلابوں، دریائوں اور سمندری طوفانوں و خشک سالی کے نتیجے میں کروڑوں افراد بے گھر ہوجائیں گے اور یہ کرہ ارض ایک ایسا حیاتی تغیر اور خاتمہ دیکھے گا جو اس نے 65ملین سال قبل اس وقت دیکھا جب اس دھرتی سے ڈائنا ساروں کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ ماہرین نے بتایا ہے کہ آئندہ عشرہ کے دوران ماحولیاتی تبدیلیاں کرہ ارض کے جنوبی حصے کے 5کروڑ انسانوں کو شمالی حصوں کی طرف ہجرت پر مجبور کردیں گی۔
اس بڑے پیمانے پر ہجرت کی سب سے بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں کے نتیجہ میں قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی غذائی قلت ہوگی۔ اس وقت بھی افریقی ممالک سے لوگوں کی بڑی تعداد غذائی عدم تحفظ کے باعث مغربی یورپ کا رخ کررہی ہے۔
ہالینڈ کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر نقصان دہ گیسوں کے اخراج پر کسی نہ کسی طرح قابو پالیا جائے تو بھی دنیا میں قدرتی آفات کا امکان کم نہیں ہوگا کہ جنگلی حیات کی نصف سے زیادہ پناہ گاہیں اور اہم جنگلات تباہ ہونے سے چالیس کروڑ لوگ بھوک سے دوچار ہو جائیں گے کہ کرہ ارض کے شمالی منطقے میں درجہ حرارت میں جتنا اضافہ ہوا ہے، گزشتہ پندرہ سو برس میں نہیں ہوا تھا۔ جنگلی حیات کے ایک ماہر نے کہا ہے کہ ہاتھی، شیر اور گینڈے کو شکاریوں سے زیادہ بدلتے موسم سے خطرہ ہے۔ عالمی حدت سے اضافہ اور تیزی سے ختم ہوتے جنگلات سے جانوروں کی کئی نسلیں ختم ہوسکتی ہیں۔ جنگلی حیات کے ماہر ڈاکٹر رچرڈ لیکی جو کینیا میں وائلڈ لائف سروس کے سابق ڈائریکٹر ہیں کا کہنا ہے کہ جانوروں کو محفوظ کرنے کے لئے آئندہ پانچ برسوں میں کچھ کرنا ہوگا ورنہ اسی عالمی حدت کے نتیجے میں پرندوں، ممالیہ، رینگنے والے جانوروں اور ابابیلوں کی نسلیں ختم ہوجائیں گی انہوں نے کہا ہے کہ جنگلات کے خاتمے اور آبادی کے پھیلائو کے باعث جانوروں کے لئے نقل مکانی کے امکانات بھی کم ہیں۔ یاد رہےیا یاد رکھا جائے کہ جن علاقوں میں جنگلات کی بدترین آتشزدگی کی پیشن گوئی کی گئی ہے ان میں یوریشیا، چین، روس، کینیڈا اور ایمزون شامل ہیں دوسری جانب مختلف وجوہات کی بنا پر مغربی افریقہ جنوبی یورپ اور امریکہ کی مشرقی ریاستوں میں خشک سالی کا خدشہ ہے علاوہ ازیں افریقہ کے علاقے جو خشک سالی کا شکار ہیں وہ آئندہ برسوں میں مزید خشک اور گرم ہوجائیں گے یہاں یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ پانی زندگی کے لئے لازمی ہے اور اس کی مقدار میں کمی افریقہ پر تباہ کن اثرات ڈالے گی جہاں زیادہ تر آبادی دریائوں کے پانی پر انحصار کرتی ہے کہ درجہ حرارت میں تبدیلی کے لئے کارخانوں، گاڑیوں، گھروں، جہازوں اور فیکٹریوں میں جلنے والے ایندھن سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ اہم رول ادا کرتی ہے اس لئے اس کے اخراج کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ زہریلی گیس کا سب سے زیادہ اخراج سعودی عرب اور سب سے کم سوئیڈن میں ہے۔ سوئیڈن میں گرین ہائوسسز گیسوں سے نمٹنے کے لئے اقدامات سب سے زیادہ کیے گئے ہیں جس کے باعث وہ دنیا کا شفاف ترین آب و ہوا رکھنے والا ملک ہے۔ اسی طرح ایک دوسری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس 2015دنیا بھر میں 950قدرتی آفات ریکارڈ کی گئیں اس طرح گزشتہ سال 1990سے لے کر اب تک کا بدترین سال ثابت ہوا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں آنے والی قدرتی آفات سے 2010کے دوران 235بلین کا نقصان ہوا ہے اور یہ نقصان 2002کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔
آخر میں آپ سے گزارش ہے کہ مجھے ’’نقاد ‘‘ مت سمجھیں۔ میں اس بات سے پوری طرح متفق ہوں کہ عالمی ماحولیات اور آب و ہوا میں حقیقی تبدیلی اور سنگین حالات واقع ہوچکے ہیں اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس میں ہونے والے اضافے کو ابھی تک روک نہیں سکے ایسا کیونکر ہوا؟
میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی سوچئے۔۔۔۔چلتے چلتے اسی موضوع پر میرا ایک شعر حاضر خدمت ہے۔
زمیں کو میں نے بچھایا بڑے سلیقے سے
اب اس کے ساتھ سمیٹنا مجھے قبول نہیں

.
تازہ ترین