• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خوش قسمتی کہیں یا پھر بد قسمتی، لیکن پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہے جو جدید تاریخ کی خوفناک سرد جنگوں میں تیسری دفعہ ایک فرنٹ لائن ملک بنا ہے۔ پہلی دو سرد جنگیں تو پاکستان کیلئے بدقسمتی کا سامان ہی لائی تھیں لیکن تیسری سرد جنگ میں بھی جس لاپروائی اور بغیر منصوبہ بندی کے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں، واضح خدشہ موجود ہے کہ اس دفعہ بھی معاملہ مختلف نہیں ہو گا۔ لیکن اگر پاکستان کے پالیسی ساز ادارے آپس کی لڑائیاں چھوڑ کر پوری تندہی سے حالات کا تجزیہ کریں اور ایک واضح منصوبہ بندی کے ساتھ تیسری سرد جنگ میں اپنے پتے کھیلیں تو شاید اس دفعہ پاکستان کے عوام کیلئے بہتری کا کچھ سامان پیدا ہو سکے جیسے بھارت نے دوسری سرد جنگ کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتے ہوئے روس اور امریکہ دونوں سے فوائد سمیٹے تھے۔
اس موضوع کا سیاق و سباق سمجھنے کیلئے اور ماضی کی غلطیوں سے بچنے کیلئے پہلی دو سرد جنگوں پر نظر دوڑاتے ہیں۔پہلی سرد جنگ یعنی’’ گریٹ گیم ‘‘انیسویں صدی میں برطانوی راج اور سلطنتِ روس کے درمیان برصغیر پاک و ہند پر قبضے کیلئے لڑی گئی،جو اس زمانے میں اپنی بے پناہ دولت کی وجہ سے ’’سونے کی چڑیا ‘‘کے نا م سے جانا جاتا تھا۔تقریباًسو سالوں پر محیط گریٹ گیم کے دوران برطانوی راج، جو برصغیر پر پہلے سے قابض تھا،کی ساری توجہ دو باتوں پر مرکوز تھی پہلی یہ کہ برطانوی راج کے زیر اثر برصغیر اور سلطنتِ روس کے درمیان ہزاروں کلومیٹر کا زمینی فاصلہ موجود رہنا چاہئے،خصوصاً وسطی ایشیائی ریاستوں میں واقع قدرتی پہاڑی اور صحرائی رکاوٹیںبرطانوی اثرو رسوخ کے تابع بفر زون بنی رہیں جہاں سے زمینی راستوں سے بڑی فوج کو برصغیر پاک و ہند تک پہنچانا سلطنتِ روس کیلئے ناممکن ہو۔اوردوسری بات یہ کہ سلطنتِ روس کو کسی بھی طرح خلیج فارس یا بحیرہ عرب تک زمینی رسائی سے روکا جائے جہاں سے وہ برصغیر پاک و ہند پر سمندری راستے سے حملہ کر سکے۔ گریٹ گیم کے آخیر تک برطانوی راج اور سلطنت رو س (پا کستان کے شمالی بارڈر پر واقع )واخان کی پٹی کے ذریعے صرف بیس میل کے فاصلے پر رہ گئے جبکہ دوسری طرف برطانوی راج سلطنت روس کو خلیج فارس یا بحیرہ عرب تک رسائی حاصل کرنے سے روکنے میں کامیاب رہا۔ نتیجتاً گریٹ گیم کی سرد جنگ کے ذریعے برطانوی راج اپنی سونے کی چڑیا یعنی برصغیر پاک وہند کو سلطنت ِ روس سے بچانے میں کامیا ب رہا۔
دوسری سرد جنگ پچھلی صدی کے دوران 1948سے لیکر 1991تک امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان لڑی گئی۔ اس وقت تک روس وسطی ایشیائی ریاستوں کو اپنے قبضے میں لے چکا تھااب خلیج فارس تک رسائی کیلئے اسے ایران پر قبضہ یا معاہدہ کرنا تھا اور بحیرہ عرب تک رسائی کیلئے افغانستان اور پاکستان پر قبضہ یا معاہدہ ضروری تھا۔ افغانستان پر روس نے قبضہ کر لیالیکن ایران اورپاکستان امریکی اتحادی تھے۔ سوپاکستان،امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایک دفعہ سرد جنگ کی فرنٹ لائن ریاست بن گیا۔سرد جنگ کے دوران پاکستان نے جس طرح اپنے پتے کھیلے، ان سے پاکستان کوبھارت کی طرف سے موجو د زندگی اور موت کا خطرہ ٹلا رہا تاوقتیکہ پاکستان نے ایٹمی ہتھیار بنا کر اس خطرے کو تزویراتی طور پر تقریباً ناممکن بنا دیا۔لیکن اس سرد جنگ کے دوران پاکستان انتہاپسندی، عسکریت پرستی، منشیات، کلاشنکوف کا گڑھ بن کر دنیا کے مسترد شدہ ملکوں کی فہرست میں شامل ہو گیا۔
تیسری سرد جنگ امریکہ اور چین کے درمیان پہلے ہی شروع ہو چکی ہے اور پاکستان ایک دفعہ پھر اسکی فرنٹ لائن ریاست ہے۔چین کے جغرافیہ کو دیکھیں تو اس کے اوپر روس ہے جو اس سرد جنگ کا شاید زیادہ گرم محاذ نہ بنے لیکن اس بات میں اب کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ چین کے نیچے یعنی جنوب مشرق میں واقع بحیرہ جنوبی چین اور جنوب مغرب میں واقع بھارت، پاکستان اور وسطی ایشائی ریاستیں اس سرد جنگ کے گرم محاذ بننے جا رہی ہیں۔بحیرہ جنوبی چین میں امریکی اور چینی بحری بیڑے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ چکے ہیں اور وہاں پر حالات بہت کشیدہ ہیں۔ جبکہ جنوب مغربی جانب بھی پاکستان میں سی پیک کی تعمیر اور اسکے ردعمل میں اٹھائے جانے والے امریکی اور بھارتی اقدامات نے حالات کو سخت کشیدہ بنا دیا ہے۔
اگرچہ سی پیک کی تعمیر چین کی طرف سے سرد جنگ کی تیاری کا حصہ ہے لیکن ہمارے ہاں سرکاری بیانیہ کچھ یوں ہے۔اول، چین پاکستان کا سد ا بہار دوست ہے جس کے ساتھ ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے۔ دوئم،اس دوستی کی وجہ سے چین پاکستان میں سی پیک منصوبے کے تحت اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس سے دونوں ملکوں خصوصاً پاکستان کو بے پناہ معاشی فوائد حاصل ہونگے۔ سوئم، چین کا مفاد یہ ہے کہ اس منصوبے کی وجہ سے اسکا ہزاروں کلومیٹر کا سمندری راستے کاسفر بچے گا اور عرب ممالک کے ساتھ اسکی تجارت خصوصاً تیل کی برآمد میں بہت بچت اور آسانی پیدا ہوگی۔ چہارم، اس منصوبے سے پاکستان میں انفراسٹرکچر کی بے پناہ بہتری کے ساتھ بجلی کا مسئلہ حل ہوگا۔ چینی تجارت کی وجہ سے راہداری کی مد میں بھاری محصولات ملیں گے۔اس سرکاری بیانیے میں کچھ باتیں تو ٹھیک معلوم ہوتی ہیں لیکن جب تھوڑی گہرائی کے ساتھ اسکا تجزیہ کیا جائے تو یہ بیانیہ مبالغہ آمیز محسوس ہو گا کیوں کہ سی پیک سے بیان کردہ فوائد حاصل کرنے کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں جن میں سے کچھ رکاوٹیں تو ہماری بہتر منصوبہ بندی سے دور ہو سکتی ہیں لیکن بہت سی رکاوٹیں ہمارے اختیار سے باہر ہونگی کیونکہ تیسری سرد جنگ میں امریکہ اور چین کیلئے زندگی موت کا مسئلہ ہونے کی وجہ سے سی پیک منصوبے کے بہت سے مضمرات پر ہمارا کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہو گا۔اب ذرا ان حقائق کی طرف نظر دوڑالیںجو معاشی ثمرات کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔اول، چین یہ منصوبہ اس لئے بنا رہا ہے کہ اسکو بحیرہ عرب اور خلیج فارس کے سمندروں تک رسائی حاصل ہو جائے۔ اوربحیرہ جنوبی چین میں امریکہ کے ساتھ جنگ یا کشیدگی کی صورت میں اپنی سپلائی لائن بحال رکھنے کیلئے اس کے پاس ایک متبادل روٹ موجود ہو۔ دوئم،سی پیک میں بجلی کے منصوبوں کی حیثیت کاروبار ی تو ہے ہی کیونکہ جن شرائط پر کرپٹ پاکستانی سیاستدان اور بیوروکریٹ چینیوں کے ساتھ معاہدے کر رہے ہیں ان سے چینی سرمایہ کار پاکستان سے انتہائی بلند شرح منافع پر سرمایہ سمیٹیں گے لیکن ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کی اصل وجہ وہی ہے جو اورنج لائن پر اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کی ہے یعنی پاکستانیوں خصوصاً موجودہ حکومت کو خوش رکھ کر گوادر تک رسائی اور وہاں پر فوجی اڈے کے حصول کیلئے من مانی شرائط منوائی جائیں۔سوئم،سادہ لفظوں میں پاکستان نے سی پیک کے ذریعے چین کو بحیرہ عرب اور خلیج فارس تک رسائی دے کر وہ کام کر دیا ہے جسے روکنے کیلئے برطانیہ راج اور امریکہ نے ڈیڑھ سوسال تک روس کے ساتھ دو سرد جنگیں لڑی تھیں۔چہارم،جب پاکستان اور ارد گرد کا خطہ سرد جنگ کی لپیٹ میں ہو گا یا خدانخواستہ یہاں گرم جنگ چھیڑ دی جائے گی تو پھر کونسی تجارت ہوگی اور کونسی راہداری؟جب پاکستان نے چین کو سمندروں تک اتنی آسانی سے رسائی دے دی تو امریکہ خاموش تو نہیں بیٹھے گا۔ سوامریکہ اوربھارت کے درمیان ایک اہم تزویراتی فوجی معاہدہ ہوچکا ہے جسکے ذریعے بھارت میں امریکی فوجی اڈے قائم ہونگے۔سی پیک کو غیر محفوظ بنانے کیلئے امریکہ بھارت کی مدد سے دو پہلوئوں پر کام کر رہا ہے۔پہلا پہلو سمندر ی راستے میں رکاوٹ ڈالنے کا ہے۔ لہذا،چابہار کی ایرانی بندرگاہ پر بھارتی موجودگی کو یقینی بنا کر گوادر کے ذریعے چینی رسائی کو کنٹرول کرنا اسی منصوبے کی کڑی ہے اور دوسرا پہلوپاکستان کے اندر خصوصاً سندھ اور بلوچستان میں دھماکوں اورخانہ جنگی کے ذریعے سی پیک کو چینی استعمال کیلئے غیر محفوظ بنانا۔اگر آئی ایس پی آر کی بات مان لی جائے کہ کوئٹہ میں وکلا پر ہونے والا دھماکہ سی پیک کی وجہ سے تھا توسمجھ لیجئے کہ پاکستانی خون سے تیسری سرد جنگ کی آمد کا بگل بج چکاہے۔اسکے باوجود مشکل سوال نہ تو کوئی پوچھ رہا ہے نہ ہی کوئی جواب دے رہا ہے، مثلاً اس منصوبے کو خفیہ کیوں رکھا جا رہا ہے؟ اسے پارلیمان اور عوام کے سامنے کیوں نہیں رکھا جا رہا؟ اس میں اسٹیک ہولڈرزخصوصاً بلوچستان کو کیوں باہر رکھا گیا ہے ؟پاکستان کب تک امریکہ اور چین دونوں کا اتحادی رہ سکے گاجبکہ دونوں ایک خطرناک سرد جنگ کا آغاز کر چکے ہیں؟
ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن ہم تیسری سرد جنگ میں کود چکے ہیں۔ ایک خدشہ جو بہت ہولناک نتائج کا حامل ہے وہ یہ کہ پاکستان کہیں تیسری سرد جنگ کی فرنٹ لائن ریاست کی بجائے اسکا میدان جنگ نہ بن جائے۔ دوسرے لفظوں میں تیسری سرد جنگ میں پاکستان کا کردار کہیں وہ نہ بن جائے جو دوسری سرد جنگ میں افغانستان کا بن گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس جنگ کے خوفناک مضر اثرات سے پاکستان خود کو کس حد تک بچانے میں کامیاب ہوتا ہے اور اس جنگ سے ہونے والے ممکنہ فوائد کس طرح حاصل کر پاتا ہے؟


.
تازہ ترین