• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ مہینہ ڈیڑھ قبل راقم نے اپنے ایک کالم میں لکھا ’’نادرہ کا نام ذہن کے نہاں خانے پر نمودار ہوتے ہی پاکستان اور ہندوستان کی دو خوبرو اداکارائیں قلب و نظر کے سامنے جلوہ آرا ہو جاتی ہیں، لیکن اگر نادرہ کے آخر سے ’’ہ‘‘ نکا ل کر اس کی جگہ الف لگا دیا جائے تو یہ’ نادرا‘پاکستانی شہریوں بالخصوص کراچی میں آباد پختونوں کیلئے ایک گراں مزاج معشوق کا روپ دھار لیتی ہے ،اب یہ بھی مشکل ہےکہ نادرا(NADRA) HEہےیاSHE،اگراسے ہم اتھارٹی سمجھ لیں پھر تو یہ SHE یعنی مونث ہے اور اگر ادارہ مان لیں تو پھر HE یعنی مذکر ہے ، مگر ادارے والی بات البتہ کہیں نظر نہیں آتی... خیر جو کچھ بھی ہے یہ وفاق کی ’منکوحہ‘ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ایک آمر پرویز مشرف نے نادرا کے ذریعے شناختی کارڈ کی فراہمی کا آسان اور شفاف نظام متعارف کرایا تھا، لیکن آج نام نہاد جمہوری دور میں شناختی کارڈ کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔جب طالبان صاحبان کی سرگرمیاں عروج پر تھیں تو کراچی میں مقیم قبائلی علاقوں کے پختونوں کو شناختی کارڈ کے حصول میں مشکلات درپیش تھیں ،اب جب سے ملا اختر منصور صاحب شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے ہیں، تب سے افغان مہاجرین کی شناخت کے نام پر تصدیقی عمل کے چھری تلے بندو بستی علاقوں کے پختون بھی آگئے ہیں، کراچی میں مختلف اعتراضات لگا کر ان کے شناختی کارڈ بلاک کر دیئے جاتے ہیں اور یا پھر ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا فارم بھروا بھروا کر انہیں ایسا ہلکان کر دیا جاتا ہے کہ وہ تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کی مشکلات بیان کرنے کیلئے دفتر کے دفتر درکار ہیں، تاہم اگر کسی کو پختونوں کی مشکلات کا اندازہ لگانا ہو تو وہ کراچی ڈی ایچ اے میں نثار شہید پارک سمیت نادرا کے ان دفاتر کا دورہ کر لےجو پختون آبادیوں سے منسلک ہیں‘‘۔
اقتباس آپ نے ملاحظہ فرمایا، اب گیارہ اکتوبر کو اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی ہے، جس میں کہا گیا ہے ’’وزیر داخلہ کی ہدایت پر نادرا کی جانب سے عوامی مرکز اور ڈی ایچ اے میں واقع دفاتر میں ایوننگ شفٹ کا آغاز کردیا گیا ہے یہ دفاتر صبح نو بجے سے رات نو بجے تک کھلے رہیں گے، کراچی میں نادرا دفاتر میں عوام کو درپیش مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے نادرا کو ہدایت کی ہے کہ وہ عوامی مسائل کے حل کے لئے فوری اقدامات اٹھائیں، خبر کے مطابق وزیر داخلہ کی ہدایت پر کراچی میں تین میگا سینٹرز کے قیام پر تیزی سے کام جاری ہے جو اس سال کے آخر یا اگلے سال کے آغاز پر اپنا کام شروع کردیں گے۔‘‘
وزیر داخلہ اور ڈی جی نادرا سندھ کے ان مستحسن اقدامات پر کراچی کے عوام بالخصوص پختونوں نے یقیناً سکون کا سانس لیا ہوگا، اور جب ان کی دشواریاں کم ہوتی نظرآئیں گی تو پھر وہ یہ طمانیت کرسکیں گے کہ وہ بھی اس ملک کے برابر کے شہری ہیں ۔ ہم جب اپنے اداروں کی کارکردگی پر بعض اوقات سوالات اٹھاتے ہیں تو غرض و غایت محض اصلاح کی اپنی سی کوشش اور مقصود شکایات پر توجہ ہوتی ہے۔ اگرچہ وطن عزیز کے اکثر ادارے ’’جمہوری آزادیوں‘‘ سے بدر جہا مستفید ہونے کے باوصف توجہ دلائو نوٹس پر کم ہی ٹس سے مس ہوتے ہیں، لیکن جو احساس رکھتے ہیں وہ ثابت کرتے ہیں کہ ان میں صدق و صفا کی ابھی بھی رمق و دمق باقی ہے۔ پھر ہم عوام تو ساغر کی کھنکھناہٹ پر ہی جھوم جھوم جاتے ہیں چہ جائیکہ کاسہ رنگ ِسبوسے مچلتا نظر آئے۔ سو نادرا (NADRA) کے ان فوری اقدامات پر کیوں نہ جی بھر کر اطمینان کرلیا جائے۔
امر استعجاب مگر یہ بھی رہا کہ شناختی کارڈ کے حصول میں حائل رکاوٹیں عبور کرنا جہاں لاچار عوام کے لئے مشکل تر ثابت ہورہا ہے، وہیں تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں نے عوام کے اس بنیادی مسئلے پر چپ سادھ لی ہے۔ یہ تو وزیر داخلہ اور نادرا حکام کی اعلیٰ ظرفی و فرض شناسی ہے کہ ان کے سامنے شکایات آنے پر وہ بروقت ازالے کی تدابیر کررہےہیں وگرنہ سیاسی حوالے سے کسی رہنما نے اس سلسلے میں نادرا سے بات تک کرنا گوارہ نہیں کی(البتہ اگر ’ہ‘ والی نادرہ ہوتی تو پھر شایدتاحدِ نظر دوڑ لگ جاتی..) خیر اور تو اور ان قوم پرستوں کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے جو اپنے پیٹ میں مروڑ کی وجہ بھی خوش خوراکی نہیں بلکہ پختونوں کا غم بتاتے ہیں۔ افغانوں کےہم نسل ہونے کی وجہ سے کراچی میں آباد پختونوں کو اپنی شناخت کا مسئلہ درپیش ہے اور قوم پرستوں کا کہنا ہے کہ بس انقلاب آیا ہی چاہتا ہے، جس میں ایسے تمام چھوٹے چھوٹے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔
جہاں تک مذہبی جماعتوں کی بات ہے تو ان کی تو سوچ یہی ہے کہ جب خلافت قائم ہوگی تو پھر چونکہ پاکستان نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک ِکا شغر ، پوری امت کے لئے کھل جائیگا اس لئے شناختی کارڈ کی ضرور ت ہی ختم ہوجائےگی....ہاں جماعت اسلامی کے رہنمائوں نے نادرا حکام سے نہ صرف ملاقات کی بلکہ مسئلہ کی سنگینی کو بھی اجاگر کیا ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی کے بڑے ضلع غربی کے وائس چیئرمین عزیز اللہ آفریدی ، چیئرمین یوسی پیر آباد نبی سرور آفریدی چیئرمین یوسی سلطان آباد افسر خان خٹک اور چیئرمین گلشن سکند آباد شاہنواز جدون سے ملاقات ہوئی، ان چاروں منتخب عوامی نمائندوں کا موقف تھا کہ شناختی کارڈ کے حصول میں غیر ضروری رکاوٹیں حائل ہیں اوریہ کہ نادرا دفاتر پختون آبادیوں سے کافی فاصلے پر ہیں۔ بہر صورت وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان صاحب کے حالیہ اقدامات سے ان مشکلات کے حل کی امید پیدا ہوچلی ہے ۔ خدا کرے کہ ان کے احکامات پر من ومن عمل ہوسکے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک طرف مسائل کے حل کے لئے اعلانات ہورہے ہوں اور دوسری طرف سرخ فیتہ بھی سرگرم عمل ہو۔ نادرا پر اعتبار کے باوجود بے اعتباری سی بے اعتباری بھی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے زیادہ تر ادارے نت نئے ہتھکنڈے ایجاد کرنے میں گویا پروین شاکر کے اس شعر کے ہی مصداق ہیں۔
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشاں ہوں میں
روز اِک موت، نئے طرز کی ایجاد کرے



.
تازہ ترین