• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر جگہ ہر کوئی یہی سوال اٹھا رہاہے کہ 2نومبر جب پی ٹی آئی اسلام آباد کو بند کرنے کی کوشش کرے گی تو کیا ہو گا؟ اس کا جواب نہ تو’’لاک ڈائون‘‘ کے اسپانسرز کے پاس ہے اور نہ ہی حکومت کے جو کہ اس غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کو ہر صورت ناکام بنانا چاہتی ہے۔ تاہم خدشات اور وسوسوں کا ایک طوفان ہے جو جوں جوں احتجاج کا دن نزدیک آرہا ہے بڑھتا جا رہاہے۔ اس امر پر سب کا اتفاق ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان لاشوں کی تلاش میں ہیں تاکہ ان کے ایجنڈے اور مشن کی تکمیل ہو سکے۔ وہ ایجنڈا اور مشن بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ وہ ہر صورت چاہتے ہیں کہ وزیراعظم نوازشریف کو اقتدار سے محروم کیا جائے چاہے مارشل لاہی کیوں نہ لگ جائے لیکن یہ ان کی ناعاقبت اندیشی ہے کہ وہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اقتدار ان کی جھولی میں آ گرے گا۔ہمیں یاد ہے کہ جب 12اکتوبر 1999ء کو پرویز مشرف نے مارشل لالگایا اور ملک کو اندھیروں میں دھکیل دیا تو پی پی پی نے بھی مٹھائیاں بانٹی تھیں۔ جب مٹھائی کا ایک ڈبہ ہمارے دفتر ہمارے ایک رپورٹر لے کر آئے جو کہ پی پی پی کے زیروپوائنٹ پر واقع میڈیا سینٹر نے انہیں دیا تھا تو ہم نے اپنے ساتھی سے کہا تھا کہ واپس جاکر فوراً پی پی پی والوں کو بتا دو کہ مارشل لا اس لئے نہیں آیا کہ وہ انہیں اقتدار میں لے آئے اور ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو گا جو کہ نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ہوا ہے۔ اس وقت پی پی پی والوں کو ہماری یہ بات بڑی عجیب لگی اور انہوںنے اس پر یقین نہیں کیا مگرچند ہفتوں بعد ہی ایک ہینڈ آئوٹ جاری کیا گیا جس میں یہ کہا گیا کہ نون لیگ والے بڑے چور ہیں مگر پی پی پی والے بھی کوئی کم ڈاکو نہیں ہیں۔ اس طرح ہمارا تجزیہ صحیح ثابت ہوا اور آنے والے کئی سالوں تک پی پی پی ماتم کرتی رہی یہاں تک کہ بے نظیر بھٹو شہید بھی اگلے کئی سال پاکستان واپس نہ آسکیں اور جلاوطنی کی زندگی ہی گزارتی رہیں۔
پی ٹی آئی والے اس وقت 70ہزار فٹ کی بلندی پر اڑ رہے ہیں اور نیچے آنے کا نام نہیں لے رہے جبکہ حقائق کچھ اور ہیں۔ ہم انہیں بھی بتا دیتے ہیں کہ اللہ نہ کرے اگر ان کے 2نومبر والے ایڈونچر کے نتیجے میں کوئی غیر جمہوری عمل ہوا تو ان کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا اور وہ بھی پی پی پی والوں کی طرح کئی سال روتے رہیں گے۔ ان کا رونا شاید اتنا اہم نہ ہو مگر جو بات سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہو گی وہ یہ کہ پاکستان ایک بار پھر کئی سال تک اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا اور دنیا میں بدنام ہوتا رہے گا۔پی ٹی آئی والے بڑے ’’معصوم‘‘ لوگ ہیں اور انتہائی بے بس بھی ہیں۔ وہ صرف وہی سنتے اور کہتے ہیں جو عمران خان کہتےاور کرتے ہیں۔ ہماری بہت سی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نام کی چیز کم ہی ہے مگر اس انڈیکس میں پی ٹی آئی سب سے نیچے ہے جہاں جو بھی عمران خان سے اختلاف کرے وہ اسی وقت اس کی درگت بنادیتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ اسے پارٹی سے ہی چلتا کردیا جائے۔ صرف تین چار مخصوص بندے ہیں جنہوں نے کپتان کو گھیر رکھا ہے۔ ان کے سب سے بڑے ایڈوائزر جہانگیر ترین ہیں۔ پارٹی میں جو بھی ان کے خلاف بات کرے اس کی خیر نہیں۔ ان کے دوسرے سب سے بڑے مشیرشیخ رشید ہیں جن کا سیاسی میدان میں نا کچھ آگے نہ کچھ پیچھے وہ تنہا ہی ہر وقت طوطا لئے پھرتے رہتے ہیں جس کے ذریعے وہ فال نکال کر حکومت کے جانے کی پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں۔وہ ہر وقت عمران خان کو یہی بتاتے ہیں کہ ’’انتہائی طاقتور اشخاص‘‘ نے ان کو بتایا ہے کہ دبائو بڑھائیں نوازشریف گئے سو گئے۔ پچھلے کئی سالوں پر محیط ان کی پیش گوئیوں پر ایک خاصی موٹی کتاب چھاپی جاسکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے کسی بھی لیڈر سے بات کر لیں اسے معلوم ہی نہیں کہ جو کچھ وہ2نومبر کو کرنے جارہے ہیں اس کا آخر نتیجہ کیا نکلے گا جبکہ سب جانتے ہیں کہ وزیراعظم تو استعفیٰ دیں گے نہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ جو لاک ڈائون وہ کرنے جارہے ہیں وہ کب تک جاری رکھیں گے۔ عمران خان جو کچھ بھی 2نومبر کو کرنے جارہے ہیں اس کا کوئی جواز نہیں ہے خصوصاً اس کے بعد جبکہ عدالت عظمی نے آف شور کمپنیوں کے بارے میں وزیراعظم،ان کے فیملی ممبرز اور کچھ دوسرے افراد کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔ یہی ان کا مطالبہ تھا کہ کوئی اعلیٰ ترین عدالتی فورم اس مسئلے کو حل کرے۔ اب چونکہ یہ ایشو عدالت کے سامنے ہے وہی ہدایات بھی جاری کر سکتی ہے کہ دونوں فریق مل بیٹھ کر عدالتی کمیشن کے لئے ایک مخصوص ٹائم فریم میں ٹی او آرز تیار کریں۔ اس کے علاوہ عدالت کچھ دوسرے طریقے بھی استعمال کر سکتی ہے جس سے آف شور کمپنیوں کے بارے میں تحقیقات کی جاسکے۔اس سلسلے میں یکم نومبر کو ہونے والی عدالتی کارروائی بہت اہمیت کی حامل ہو گی۔ جو بھی سپریم کورٹ کا حکم ہو گا نہ صرف حکومت بلکہ عمران خان کو بھی ماننا پڑے گا۔
جہاں تک حکومت کا سوال ہے اسے بھی یہ اندازہ نہیں ہے کہ 2نومبر کو حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔ تاہم اس کی یہ سرتوڑ کوشش ہے کہ عمران خان کا لاشیں حاصل کرنے کا خواب پورا نہ ہونے دیا جائے۔ یقیناً اسلام آباد اور اس کے شہریوں کو تحفظ دینے کے لئے بہت سے اقدامات کئے جائیں گے جن میں سینکڑوں کنٹینرز کا استعمال بھی ہو گا۔ پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لائیو بلٹس نہیں دی جائیں گی بلکہ انہیں ربڑ بلٹس دی جائیں گی تاکہ وہ بوقت ضرورت استعمال کر سکیں اور کوئی جانی نقصان نہ ہو۔ دنیا میں کوئی بھی حکومت اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ کوئی سیاسی جماعت یا گروہ دارالحکومت بند کر کے انتظامیہ کو مفلوج کر دے اور امور حکومت ادا نہ کئے جاسکیں۔ ایسا تو کسی ناکام ریاست میں ہی ہوسکتا ہے جو کہ یقیناً پاکستان نہیں ہے۔ اسلام آباد کے تمام 9 انٹری اور ایگزٹ پوائنٹس پر پولیس اور دوسری فورسز تعینات کی جائیں گی تاکہ احتجاج کرنے والے یہاں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ ڈال سکیں۔ یہ کہنا تو آسان ہے مگر کرنا یقیناً کافی مشکل ہوگا جبکہ دوسری پارٹی یہ کہتی ہے کہ وہ کشتیاں جلا کر اسلام آباد آرہی ہے۔ عمران خان کی دھمکیوں، دعوئوں، الزامات، نعروں اور اعتماد پر اگر نظر ڈالیں تو یہ یقیناً 2014ء سے کسی طرح مختلف نہیں ہیں۔ انہوں نے اس وقت بھی بار بار کہا تھا کہ وہ وزیراعظم کا استعفیٰ لئے بغیر ڈی چوک سے نہیں جائیں گے اور اب بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ ان کے ہر وقت احتجاج نے پاکستان کی سیاست کو ایک نیا رخ دے دیا ہے جو پچھلے 70سال میں کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی کے سوا اور کیا ہے۔ عوام نے انتخابات کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کر دیا مگر جن کو اس نے پسند نہیں کیا وہ جیتنے والوں پر لعن طعن کر کے عوام کی توہین کر رہے ہیں جس کی سزا ووٹرز انہیں آئندہ الیکشن میں ضرور دیں گے۔


.
تازہ ترین