• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان نے غلطیاں کیں لیکن سیکھتے کچھ نہیں۔ اس کے باوجود خان صاحب کی مقبولیت اپنی جگہ قائم ہے اور تحریک انصاف پاکستان پیپلز پارٹی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن چکی ہے جس میں پی پی پی کی نااہلی کا بہت بڑا کردار ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دوسری بڑی سیاسی جماعت بننے سے کام نہیں بنے گا۔ تحریک انصاف نے اگر وہ کچھ کرنا ہے جس کا وہ اپنے منشور اور تقریروں میں وعدہ کرتی ہے تو اُسے الیکشن جیتنا ہو گا اور ن لیگ کو ووٹوں کے زور سے شکست دینا ہو گی۔ اس کے لیے خان صاحب کو اپنی موجودہ طرز سیاست پر غور کرنا ہو گا ورنہ جو حالات اب تک چل رہے ہیں اگر ویسے ہی رہے تو ن لیگ کو 2018 کے انتخابات میں شکست دینا مشکل ہو گا۔ گزشتہ ساڑھے تین سال خان صاحب نے احتجاجی سیاست میں ضائع کر دیئے اور حاصل کچھ نہ ہوا۔ ہر کسی پر جو اُن سے اتفاق نہ کرے اُس پر بغیر کسی ثبوت اور سنی سنائی باتوںپر الزامات لگا کر خان صاحب نے اپنے ووٹ بینک کو بڑھنے سے روکا۔ پہلے الیکشن میں دھاندلی کی بات کرتے رہے اور کمیشن کا مطالبہ کیا اور انتخابی اصلاحات کو آئندہ صاف شفاف الیکشن کے لیے لازمی قرار دیا۔ جب اپنی مرضی کا نتیجہ کمیشن سے نہ ملا تو اصل مقصد یعنی انتخابی اصلاحات کو بھول ہی گئے۔ ن لیگ اور پی پی پی تو موجودہ نظام کی پیداوار ہیں اور اسی سے خوش ہیں۔ انتخابی اصلاحات کی ایک پارلیمانی کمیٹی اگست 2014 میںبنائی گئی لیکن ابھی تک اُس نے اپنا کام مکمل نہیں کیا۔ مان لیتے ہیں کہ ن لیگ اور پی پی پی تو انتخابی اصلاحات چاہتے ہی نہیں لیکن خان صاحب اس مسئلہ پر حکومت پر دبائو ڈالنا تو درکنار، اس مسئلہ پر بات ہی نہیں کرتے۔ تو فرق کیا رہا دوسروں میں اور تحریک انصاف میں؟ انتخابی اصلاحات بھلا کر خان صاحب کا اب سارا زور پاناما لیکس پر ہے اور اس کا مقصد نواز شریف کو کسی بھی صورت میں حکومت سے باہر کرنا ہے۔ پاناما لیکس کے انکشافات اور میاں نواز شریف کی فیملی پر الزامات کے فوری بعد سے میری یہ رائے رہی کہ عدالتی کمیشن کے قیام کی بجائے اپوزیشن جماعتوں اور خصوصاً تحریک انصاف کو نیب، ایف بی آر اور ایف آئی اےکو حکومتی اثر سے آزاد کرنے کی تحریک چلانی چاہیے تاکہ ان اداروں کے ذریعے پاناما لیکس کے مسئلہ پر تحقیقات کی جائیں اور یہ ثابت کیا جا سکے کہ کس نے کرپشن، منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے پیسے سے آف شور کمپنیاں بنائیں اور بیرون ممالک دولت جمع کی۔ تحریک انصاف اور اپوزیشن جماعتیں کمیشن کے قیام اور اپنی مرضی کے ٹی او آر کے مطالبہ پر ڈٹی رہی ہیں اور پھر آخر کاریہ معاملہ سپریم کورٹ کے پاس لے آئے تاکہ وزیر اعظم نواز شریف کی ’’تلاشی‘‘ لی جا سکے۔ معاملہ ابھی تو سپریم کورٹ کے سامنے ہے۔ فیصلہ کیا ہو گا اس کا بھی کسی کو کوئی پتا نہیں لیکن اس طرز احتساب میں کچھ ایسی خامیاں ہیں جس کا فائدہ الزامات سامنا کرنے والوں کو ہی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو تحقیقات متعلقہ اداروں کی طرف سے ہونا چاہیے تھیں وہ ہوئی نہیں، جو کام استغاثہ کو کرنا تھا وہ موجود ہی نہیں اور سارے کا سارا بوجھ پٹیشن دائر کرنے والوں یعنی تحریک انصاف نے اپنے اوپر لے لیا۔ ٹھیک ہے ان پٹیشنز سے وزیر اعظم میاں نواز شریف پرسیاسی دبائو بڑھا لیکن تحقیقات اور ثبوت جمع کرنے کا کام کسی نے نہ کیاجس کا فائدہ نواز شریف اور ان کے بچوں کو ہی ہو سکتا ہے۔ اسی بنا پر تحریک انصاف کے ثبوتوں کو گزشتہ روز سپریم کورٹ نے الف لیلیٰ کی کہانی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اخباری تراشے ثبوت نہیں ہوتے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ان شواہد کا نہ سر ہے نہ پیر اور یہ بھی کہ سچ کاغذوں کے ڈھیر میں دفن کر دیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کا کام ثبوت اکٹھا کرنا نہیں ہوتا۔ یہ کام تو احتساب کے لیے بنائے گئے اداروں یعنی نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو کرنا ہوتا ہے لیکن یہ ادارے تو آزاد ہیںہی نہیں۔ ن لیگ اور پی پی پی نے اپنی حکومتوں کے دوران ان اداروں کو مضبوط اور آزاد بنانے کی کوشش کے برعکس انہیں کمزور کیا۔ عمران خان اور تحریک انصاف سے توقع یہ تھی کہ وہ دوسروں سے ہٹ کر اداروں کی مضبوطی کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنا کردار ادا کریں تاکہ کرپشن کا خاتمہ ہو سکے اور لوٹ مار کرنے والوں کا احتساب ہو سکے۔ اس کے لیے اصلاحات کی ضرورت تھی۔ میاں صاحب اور اُن کی حکومت کو تو جیسے اصلاحات کے نام سے ہی چڑ ہے، پی پی پی سے اس کی توقع رکھی ہی نہیں جا سکتی لیکن اداروں کی اہمیت اور اصلاحات کی ضرورت کے ادارک کے باوجود عمران خان اور تحریک انصاف نے ن لیگ کی حکومت پر اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ دبائو نہ ڈالا۔ پہلے تحریک انصاف کی ساری سیاست کا محور انتخابات میں مبینہ دھاندلی رہا اور اب سارا فوکس نواز شریف پر ہے۔ فرض کریںاگر سپریم کورٹ نواز شریف کو نااہل قرار دے دیتی ہے تو کل کسی دوسرے حکمراں پر کوئی الزام لگتا ہے تو پھر سے ہم کمیشن بنانے کی بات کریں گے، سپریم کورٹ جائیں گے اور یہی کچھ بار بار ہوتا رہے گا۔ کرپشن کے خاتمے اور گڈ گورننس کے لیے اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے اصلاحات پر مرکوز سیاست ہی تحریک انصاف کو دوسروں سے مختلف کر سکتی ہے اور یہی کام ملک اور عوام کے وسیع تر مفاد میں ہو گا۔ مرکز کی سیاست میں تحریک انصاف ایک تعمیری اپوزیشن کا کردار ادا کر کے اپنی مقبولیت میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی اس انداز میں خدمت کر سکتی ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ کتنا اچھا ہو کہ عمران خان اور تحریک انصاف اداروں کی مضبوطی کے لیے ایک اصلاحاتی پیکچ پارلیمنٹ میں پیش کریں اور حکومت سے مطالبہ کریں کہ اس پیکیج پر عمل درآمد کیا جائے۔ اگر حکومت اس اصلاحاتی پیکچ پر عمل نہیں کرتی تو پارلیمنٹ میں احتجاج کے ذریعے حکمرانوں پر دبائو بڑھایا جائے۔ پھر بھی حکومت نہ مانے تو پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیا جائے اور حکومت کے خلاف عوامی احتجاجی تحریک چلائی جائے۔ ایسی تعمیری اپوزیشن کو عمومی طور پر میڈیا اور عوام کی طرف سے حمایت حاصل ہو گی۔ اگر حکومت اصلاحاتی پیکچ پر عمل کرتی ہے تو اس کا کریڈٹ تحریک انصاف کو ملے گا۔ بصورت دیگر پارٹی عوام میں مقبول ہو گی اور حکومتی جماعت کو نقصان ہو گا۔ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ہیومن ڈیولپمنٹ کے میدان میں خیبر پختون خوا تمام صوبوں سے آگے ہے جو ایک اچھی خبر ہے۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ اگر عمران خان اپنی پوری توجہ خیبر پختون خوا کو دیتے تو صوبہ دوسرے کئی شعبوں میں بھی بہت بہتر ہو سکتا تھا۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ خان صاحب اپنی سیاسی حکمت عملی پر غور کریں اورماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے ایک ایسی طرز سیاست پر توجہ دیں جو تعمیری ہو، جھوٹے الزامات سے پاک ہو اور جس میں مخالفین کے خلاف غیر مہذب زبان کا استعمال نہ ہو۔ اگر ایسا نہ ہوا تو نواز شریف اور ن لیگ کو مضبوط کرنے میں خان صاحب کا اہم کردار ہو گا۔

.
تازہ ترین