• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا میں کوئی بھی معاشرہ ایسا نہیں جو مختلف قسم کے مسائل کا شکار نہ ہو، ہمارا معاشرہ بھی ایسے بہت سے مسائل کا شکار ہے جن میں سے اسے نکالنا ملک اور قوم کی ترقی کیلئے اشد ضروری ہے۔ میرے نزدیک ہمارے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ بے اطمینانی ہے، جنہیں زندگی میں کچھ بھی نہیں ملا ان کی بے اطمینانی تو سمجھ میں آتی ہے اگرچہ تقسیم رزق کے غیر منصفانہ نظام کے باوجود ایسے بہت سے بے یار و مددگار لوگ محنت اور پورے تواتر سے محنت کے سبب وہ سب کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جو وہ حاصل کرنا چاہتے تھے تاہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلاحیتوں کی تقسیم کا نظام بھی اپنی جگہ پرفیکٹ ہو گا مگر انسانی ذہن غالباً اس کا احاطہ نہیں کر پاتا چنانچہ ہر کوئی اپنے لئے وہ کچھ حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو وہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور یوں مجھے ان لوگوں کی بے اطمینانی بے چین کرتی ہے جنہیں زندگی بہت کچھ دیتی ہے مگر وہ ساری عمر غیر مطمئن رہتے ہیں۔
یہ منظر آئے روز میری نظروں سے گزرتا ہے کہ ایک صاحب بے روزگار ہونے کی وجہ سے سخت پریشان نظر آتے ہیں، ان کے پاس ماسٹر کی ڈگری بھی ہوتی ہے، وہ ہر جگہ اپلائی کرتے ہیں مگر انہیں انٹرویو کال تک نہیں آتی۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ سب درخواستوں کی پہلے اسکروٹنگ ہوتی ہے، پھر انہیں انٹرویو کال جاتی ہے جو مطلوبہ شرائط جن کا واضح ذکر اخباری اشتہار میں دیا گیا ہوتا ہے، اس پر پورا اترتے ہوں۔ انٹرویو کے دوران کچھ نمبر فرسٹ ڈویژن کے ہوتے ہیں جو پہلے سے متعین ہوتے ہیں، انٹرویو لینے والا وہاں ڈنڈی نہیں مار سکتا، اس کے علاوہ ڈنڈی ماری جاتی ہے مگر جو انٹرویو کے لئے منتخب ہی نہیں ہوا ہوتا وہ تو بے چین دکھائی دیتا ہی ہے مگر جو انٹرویو دیتا ہے اور ملازمت کے حصول میں کامیاب ہو جاتا ہے، پہلے چند دن وہ خوش رہتا ہے، اس کے بعد وہ بھی مضطرب ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ وہ سب کچھ ابھی سے حاصل کرنا چاہتا ہے جس کے لئے ابھی ایک لمبا سفر درکار ہوتا ہے۔ یہ مثال کالجوں یونیورسٹیوں میں داخلے سے لے کر سرکاری ملازمت کے حصول میں کامیابی یا ناکامی کے حوالے سے ہے۔ یہی مسابقت اور مقابلہ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی نظر آتا ہے۔
مجھے احساس ہے کہ یہ ایک عامیانہ سی مثال ہے جو میں نے دی ہے اور اس میں کمی بیشی کا امکان بھی ہوتا ہے۔ شدید قسم کی بے اطمینانی وہاں نظر آتی ہے جہاں آپ نے خود کو ایک اعلیٰ مسند پر بزعم خویش بٹھایا ہوتا ہے مگر زمانہ اسے تسلیم نہیں کرتا۔ آپ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ آپ اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ہیں، جن کی قدر نہیں ہو رہی اور آپ سے کم تر صلاحیتوں کے مالک افراد اس منصب پر جلوہ افروز ہیں، جس پر آپ کا حق تھا۔ یہ بے اطمینانی زندگی کے ہر شعبے میں پائی جاتی ہے حتیٰ کہ یہ کیفیت ادب میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ باہمی رنجشیں اور نفرتیں عروج پر نظر آتی ہیں۔ اس کے علاوہ عام زندگی میں جو بے گھر ہے اور جس کی تنخواہ کا بڑا حصہ مالک مکان کی نذر ہو جاتا ہے، اس کا بے قرار ہونا بنتا ہے، مگر جس کا اپنا گھر ہے، وہ بھی بے چین ہے کہ یہ پانچ مرلے کا کیوں ہے کیونکہ اس کا حق دس مرلے کے گھر کا تھا۔ دس مرلے والا ایک کنال، ایک کنال والا دو کنال اور دو کنال والا خود کو ایکڑوں میں پھیلے ہوئے گھر کا مستحق سمجھتا ہے۔ سائیکل والا کار، کار والا بڑی کار اور بڑی کار والا ہیلی کاپٹر کے خواب دیکھتے دیکھتے شوگر، بلڈ پریشر اور ہارٹ کا مریض بن جاتا ہے۔
آپ اسی طرح آگے بڑھتے جائیں، افسروں میں سینیارٹی کی بنیاد پر تعیناتی زندگی اور موت کا مسئلہ بن کر رہ جاتی ہے۔ اس ضمن میں یقیناً بہت سی ناانصافیاں سامنے آتی ہیں لیکن زندگی یہاں ختم تو نہیں ہو جاتی، ایک نہ ایک دن انصاف مل بھی سکتا ہے لیکن اگر نہیں بھی ملتا تو کیا جلنے کڑھنے سے مل جائے گا؟ ایسے مواقع پر اگر ہم اپنی ذات کی نفی کر کے بہت سے دوسرے عوامل پر بھی نظر ڈالیں، جو آپ کو پیچھے لے جانے کا باعث بنے ہیں، اور اگر خود میں کوئی کمی ہے تو اس کا حل تلاش کریں، اس صورت میں ممکن ہے کہ ہم ریس کے اس گھوڑے کی طرح سب سے آگے نکل جائیں جو ریس کے دوران سب سے پیچھے نظر آ رہا ہوتا ہے مگر بہتر ہو گا اگر ہم خود فریبی سے کام لیتے ہوئے اپنی ناکامی کی وجہ ہی تلاش نہ کریں کہ آپ کو بڑے صاحب کی خوشامد کرنا نہیں آتی اور یہ کہ آپ کی خوبیاں آپ کے پیچھے رہ جانے کا باعث بنی ہیں۔ میرے ایک دوست نے ساری عمر کوئی کام ہی نہیں کیا اور ساری عمر یہی کہتا رہا کہ وہ اس دنیا کا فرد ہی نہیں ہے لہٰذا اس فریبی دنیا میں ایڈجسٹ نہیں ہو سکا۔
ان دنوں سیاسی ماحول بھی افراتفری ، بے قراری اور بے چینی کا بہت بری طرح شکار ہے۔ ایک شخص کا خیال ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم بننے کا حق صرف اسے حاصل ہے، انتخابات جعلی ہیں اور اس کے علاوہ سارے ادارے بھی نااہل اور کرپٹ ہیں۔ نہ عوام اسے اتنے ووٹ دیتے ہیں کہ وہ وزیر اعظم بن جائے اور نہ دوسرے ادارے اسے اس حوالے سے ’’انصاف‘‘ دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ بے قراری، بے اطمینانی اور اضطراب کا وائرس ایک عرصے سے پورے معاشرے میں پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ صاحب اپنی کمزوریوں کا جائزہ نہیں لیتے، اس کی بجائے انہوں نے پورے ملک کو کئی برسوں سے تعطل کا شکار کیا ہوا ہے۔ یہ اکیلے ان صاحب کا مسئلہ نہیں، کسی نہ کسی سطح پر ہم سب کا مسئلہ ہے جس کے نتیجے میں ہم سب خود ایک ’’مسئلہ‘‘ بن چکے ہیں۔ کیا ہم کبھی بھی خود آگہی کی منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے؟




.
تازہ ترین