• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک آرمی کے سولہویں سربراہ جنرل قمرجاوید باجوہ نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں جموں و کشمیر کی کنٹرول لائن کے حالات میں جلد بہتری آنے کی بات کرکے کئی اہم پیغامات دئیے ہیں۔ ایک پیغام تو پاکستانی قوم کے اعتماد اور محبت کے نام ہے جو جانتی ہے کہ ہماری فوج اپنی تیاری، حربی صلاحیت اور مسلسل کڑی آزمائشوں سے گزرنے کے باعث دنیا کی بہترین فوجوں میں شمار ہوتی ہے ۔ دوسرا پیغام بھارتی حکمرانوں کے لئے ہے جو پاکستانی فوج کی اہلیت و صلاحیت سے واقف ہونے کے باوجود پچھلے کچھ عرصے سے لائن آف کنٹرول پر ہر روز ایسی کارروائیاں کررہے ہیں جن سے جنگ کا تاثر ملے اور جنگ بندی لائن کے قریب رہنے والے خاندانوں کی مشکلات میں اضافہ ہو۔ نئی دہلی کے جارحیت پسند حکمرانوں کے اشتعال انگیز بیانوں کے تناظر میں ایک امن پسند ملک کی حیثیت سے پاکستان کے اس ردعمل کو ’’امن کے پیغام‘‘ کے طور پر لیا جانا چاہئے مگر بھارتی حکمرانوں کو یہ بات بھی مدنظر رکھنا ہوگی کہ پاکستان کے تحمل کو اس کی کمزوری سمجھنا اور اس کے خلاف کسی بھی قسم کی مہم جوئی کرنا ہمالیہ سے بھی بڑی غلطی ہوگی۔ پاکستانی قوم سے بہتر کون یہ جان سکتا ہے کہ نئی دہلی کے حکمراں پاکستان کی اقتصادی ترقی سے خائف ہیں اور جب بھی اسلام آباد معاشی خوشحالی کی منازل سر کرنے لگتا ہے تو بھارت کی طرف سے ایسے اقدامات اور بیانات سامنے آنے لگتے ہیں جن کا مقصد پاکستان کو اشتعال دلانا اور اس کی اقتصادی پیش رفت کی رفتار کو روکنا یا سست کرنا ہوتا ہے۔ دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ بھارت کی طرف سے آنے والے دھمکی آمیز بیانات پر وقت کھپانے سے اسی طرح اجتناب برتا جائے جس طرح دیوانے کی بڑ پر وقت ضائع کرنا غیرضروری سمجھا جاتا ہے مگر دیوانے کو عملی دیوانگی کے اظہارسے باز رکھنے کے لئے موثر انتظامات رکھے جاتے ہیں۔ منگل کے روز منعقدہ تقریب میں جنرل راحیل شریف بطور آرمی چیف اپنی تین سالہ میعاد پوری ہونے پر فوج کی کمان جنرل قمر جاوید باجوہ کو سونپ کر جس باوقار طریقے سے سبکدوش ہوئے اسے مبصرین نے پاکستان میں اداروں کی مضبوطی اور جمہوری روایات کے فروغ کی علامت کے طور پر دیکھا ہے۔ جنرل باجوہ کو فوجی کمان ایسے وقت ملی ہے جب شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے ذریعے بڑی حد تک ملکی عملداری بحال کی جاچکی ہے اور دیگر حصوں میں بھی دہشت گردوں اور غیرملکی جاسوسوں کے نیٹ ورک پر کاری ضرب لگی ہے مگر ان کامیابیوں کو برقرار رکھنے کے لئے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ دوسری جانب بھارت میں انتہا پسند جماعت کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان دشمن اقدامات و اعلانات میں مزید شدت آگئی ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے بھی ماضی کی طرح پاکستان سے ان اقدامات کا مطالبہ کیا جارہا ہے جو 40سے زیادہ ملکوں کی فوجیں مل کر بھی نہ کرسکیں۔ 8؍جولائی سے مقبوضہ کشمیر میں احتجاج اور آزادی کے نعروں پر مبنی جو نئی لہر آئی ہے اس کے جواب میں کشمیری عوام پر بھارتی مظالم انتہا کو پہنچے ہوئے نظر آرہے ہیں اور بھارت خود ساختہ ڈراموں کے ذریعے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ محاذ گرم کئے ہوئے ہے۔ منگل کے روز جموں میں بھارتی فوج کی شمالی کمان کے کیمپ پر مسلح افراد کے جس حملے میں میجر سمیت 7اہلکار ہلاک اور 2افراد زخمی ہوئے اور جس میں تینوں حملہ آوروں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا وہ خواہ کشمیری حریت پسندوں کی کارروائی ہو یا ماضی کی طرح بھارت کا خود تخلیق کردہ ڈرامہ۔ اس کا الزام فوری طور پر پاکستان پر عائد کردیا گیا۔ کنٹرول لائن پر بھی بھارتی جارحیت جاری رہی جس کا منہ توڑ جواب دیا گیا۔ حالات ایسے مقام پر نظر آرہے ہیں جہاں کنٹرول لائن کوکنٹرول کرنے کی بھی ضرورت ہے اور سی پیک منصوبے کو بحفاظت پایہ تکمیل تک پہنچانا بھی ناگزیر ہے۔ یہ چیلنج متقاضی ہیں کہ ہمارے تمام ادارے اپنے اپنے دائروں میں رہتے ہوئے چوکنا رہیں اور عسکری ہی نہیں سفارتی محاذ پر بھی زیادہ مستعدی نظر آئے۔

.
تازہ ترین