• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاسی رقابت میں آنٹیوں ،پھوپھیوں،تایوں اور چاچوں کے طعنے دئیے جارہے ہیں۔فریقین یہ لڑائی لڑتے ہوئے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو آلات ِحرب وضرب بنائے ایک دوسرے پر حملہ آور ہورہے ہیں۔یوں دکھائی دیتاہے کہ پان پت اُتارنے کی پانی پت کی آخری جنگ لڑی جارہی ہے ۔فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی سُورما نے توغیر شائستگی کی ایک نئی ’’کوک شاستر‘‘ لکھ دی ۔ موصوف نے اپنے سیاسی حریف کو مردانہ وار للکارتے ہوئے زنانہ انداز میں طعنے دئیے۔ کیاعورتوں اورمردوں کے طعن وتشنیع کے انداز الگ الگ ہوتے ہیں ؟ ایک’’ ریسرچ‘‘ کے مطابق عورتوں اورمردوں کی لڑائی ،طعن وتشنیع اور گالیاں الگ ہوتی ہیں۔ایک آوارہ منش نوجوان اکثر کسی نہ کسی سے جھگڑا کربیٹھتاتھا ۔ایک دن وہ خواجہ سراوں سے بری طرح پٹا تب اس کے زمانہ ساز باپ نے اسے نصیحت کرتے ہوئے کہاتھاکہ… بیٹا! آج کے بعد خواجہ سراوں سے نہ لڑنا، ان کی گالیاں عورتوں اورگھسن(گھونسے ) مردوں جیسے ہوتے ہیں۔سیاست کے یہ ’’ ڈبل سم لوگ‘‘ اپنی طبیعت میںیہ ورائٹی رکھتے ہیں بظاہر وہ معزز دکھائی دیتے ہیں لیکن اپنے انداز میں وہ غیر شائستگی کے برانڈ ایمبسڈر ہوتے ہیں ۔ غالب نے کہاتھاکہ
ہر ایک بات پہ کہتے ہوتم کہ تو کیاہے
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیاہے
میڈیا میں غیر شائستگی کا ’’ٹی ٹوئنٹی ‘‘ دکھانے کے بعد اس پر تبصرے بھی کئے گئے۔یوں تو ہماری ساری سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے دست وگریبان رہتی ہیں مگر پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے مابین لڑی جانے والی جنگ کسی ہارر مووی سے کم نہیں ہوتی ۔90ء کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی دو،دو حکومتوں کویوں گھر بھیجا گیاجیسے لالچی ُسسرال سے غریب کی نوبیاہتا بیٹی بابل کے گھر واپس آتی ہے۔دو،دومرتبہ عوام کے ووٹ حاصل کرنے کے باوجود نون لیگ اور پیپلزپارٹی اپنی حکومتوں کی میعاد پوری نہ کرسکیں اور نہ ہی عوام کے مسائل حل کرپائیں۔ ملک کی ان بڑی سیاسی جماعتوں جنہیں عوام کی حمایت حاصل تھی انہیں مکمل طور پر اقتدار بھی نہ سونپا گیا جس کے باعث وہ عوام کے مسائل حل نہ کرپائیں۔ سیاست کی ناکامیوں میں جہاں غیر سیاسی مقتدر قوتوں کا ہاتھ تھا وہاں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ نااہلی اور کرپشن کا بھی چولی دامن کا ساتھ رہا۔ ان حالات کے پیش نظر جمہوریت، سیاست اور سیاستدانوں کے بارے میں انتہائی تیزابی قسم کا پروپیگنڈہ کیاگیااور عوامی سطح پر کسی حد تک یہ امیج بنادیاگیاکہ سیاست اور سیاستدانوں کا اس ملک کے غریب عوام اور ان کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔محترمہ بے نظیربھٹو اور میاں نواز شریف نے اپنے مینڈیٹ کی بے توقیری کے بعد میثاق ِجمہوریت سائن کیاجس کی بنیاد باہمی عزت واحترام کے ساتھ آئین کی پاسداری پر رکھی گئی ۔بی بی کی شہادت کے بعد قومی سیاست بدل گئی ۔پیپلزپارٹی نے تو اپنے دور اقتدار میں میثاق ِ جمہوریت کا پاس رکھا مگر فریق دوم نے میمو گیٹ اسکینڈل کے موقع پر ’’کالا کوٹ ‘‘ پہن لیاتھا۔لالہ عطا اللہ عیسی خیلوی اپنے آپ سے منسوب گیت میں کہتے ہیں کہ ’’اج کالا جوڑا پا ساڈی فرمائش تے ‘‘( آج ہماری فرمائش پر کالاجوڑا پہنو) یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ نجانے کالاکوٹ کس کی فرمائش پر پہنا گیاتھا؟؟؟
جنرل راحیل شریف اور جنرل جاوید قمر باجوہ کے مابین ’ملاکہ چھڑی‘ کے تبادلہ کا منظر خوش کن تھا۔سرکاری اہم عہدوں سے ریٹائر ہونا معمول سمجھاجاناچاہئے، لیکن ہمارے ہاں اسے تاریخی موڑثابت کیاجاتاہے۔یہ تردد اخبارات ،الیکٹرانک میڈیا کے کیری پیکر وںکیساتھ ساتھ جمہوری چیمپئنزکے ہاں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔جنرل راحیل شریف نے اپنے پیشہ ورانہ فرائض جس طرح نیک نیتی سے ادا کئے سب کے سامنے ہے ۔ریٹائرمنٹ سے دس بارہ روز قبل ہی گھر کا سامان راولپنڈی آرمی ہائوس سے لاہور شفٹ کرلیاگیاتھا،یعنی اس ضمن میں کسی ’’بریکنگ نیوز‘‘ کی توقع نہیں تھی لیکن آخری وقت تک سسپنس جاری رہا۔یہی تاثر دیا جاتارہاکہ آخری ریلوں میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔ ایک اطلاع کے مطابق جنرل (ر) راحیل نے 80ملین کے ذاتی اثاثے آرمی شہدا فاونڈیشن کیلئے وقف کردئیے ہیں۔ہماری سویلین اور عسکری بیوروکریسی سے وابستہ افراد کے متعلق عام طور پر یہی تاثر پایاجاتاہے کہ یہ سرکاری مراعات ، پروٹوکول اور زیادہ سے زیادہ سہولتیں انجوائے کرنے کے عادی ہوتے ہیں، لیکن جنرل راحیل نے اس تصور کو بدلا ہے اور ثابت کیاہے کہ افسر شاہی لینے کا نہیں دینے کا بھی نام ہے۔عسکری حلقوں کے برعکس مالی معاملات کے حوالے سے قومی سیاست کٹہرے میں کھڑی ہے۔حکمران ہوں یا اپوزیشن سب پر کرپشن کے الزامات ہیں۔شکیب جلالی نے کہاتھاکہ
ملتی جلتی داستا ں وجہ ِ غلط فہمی ہوئی
آپ شرمندہ نہ ہوں ،یہ میرا ہی افسانہ تھا
نئے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے اپنا منصب سنبھالنے کے فوراََ بعد یاد گار شہدا پر حاضری دی اور شمالی وزیر ستان ایجنسی اگلے مورچوں کا دورہ کیا۔جنرل باجوہ نے اپنے فرائض کی ادائی اورقومی مفادات کے قبلہ رخ کے تعین کرنے میں کوئی تاخیرنہیں کی دعا ہے کہ انہیں کامیابیاں نصیب ہوں۔ جنرل قمر جاویدباجوہ کے بارے میں بیان کیاگیاہے کہ وہ ایک خوش مزاج شخص ہیںاور ان کا تعلق گجرانوالہ کے مضافات میں واقعہ گکھڑ منڈی سے ہے ۔ٹیلی وژن میں بھی ان کے جو ویڈیو کلپس دکھائے گئے ہیں ان میں جنرل باجوہ ہنستے مسکراتے دکھائی دے رہے ہیں۔میرا لڑکپن گکھڑ منڈی میں گزراہے اس کی وجہ میرا جگری دوست ببوبرال مرحوم تھا جسے ملنے اکثر میں وہاں جایاکرتاتھا ۔آنسو بلافیم اداکار اسد بخاری اور دھمالوں کے موزارٹ سمجھے جانے والے موسیقار نذیر علی کا تعلق بھی اسی علاقہ سے تھا۔مجھے یاد ہے باباپیرشاہ کے مزار کے ارد گرد کھیتوں میں بیٹھ کر جب ببوبرال مجھے ملکہ ترنم نورجہاں کی پنجابیاں اور مہدی حسن کی غزلیں سنایا کرتا تو یہ بھی کہتاتھاکہ ’’گکھڑ کی مٹی سریلی اوریہاں کا پانی میٹھا ہے‘‘۔سابق صدر محمد رفیق تارڑ کا تعلق بھی گکھڑ سے تھا جنہیں میاں نواز شریف کا معتمد ِخاص سمجھا جاتا تھا۔ نامور کالم نگار منوبھائی بتاتے ہیں کہ رفیق تارڑبھی خوش مزاج شخص ہیں چٹکلوں ،لطائف اور پھبتیوں پر کھلکھلاکر داد دیاکرتے ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف کی خوش مزاجی بھی مشہور ہے خدا کرے ان کے فیصلے سُریلے اور میٹھے ثابت ہوںاور قوم بھی ان سے بہرہ مند ہو۔

.
تازہ ترین