• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچوے بڑے ملک کے شہری ہیں۔ دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں اور استعداد کار کے حوالے سے چھٹی بڑی فوج کی انہوں نے کمانڈ کی ہے۔ بطور آرمی چیف وہ ایسے اسلامی ملک کی فوج کے سپہ سالار تھے، جو پوری امت مسلمہ کا واحد نیوکلیئر ملک ہے۔ ضرب عضب میں ان کے کردار کو کئی مرتبہ برملا سراہا گیا اور آج بھی اگر دنیا میں کہیں ان کی قدر کی جاتی ہے تو اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ وہ دنیا کی بہترین افواج میں شمار کی جانے والی نیوکلیئر فوج کے سربراہ رہے ہیں۔ آج ان کی ریٹائرمنٹ کے صرف چند ہی ہفتے بعد غیرملکی افواج کی سربراہی کرنے کی خبریں زیر گردش ہیں۔ بین الاقوامی جریدے اس معاملے پر کھل کر لکھ رہے ہیں۔ آج کوشش کروں گا کہ چند تلخ حقائق قارئین کے گوش گزار کروں۔
سب سے پہلے تو جنرل (ر) راحیل شریف کی نئی ملازمت کے بعد ان مٹھی بھر افراد کے دلائل تو ختم ہوگئے، جو کہتے تھے کہ جنرل صاحب! مقررہ وقت پر ریٹائرمنٹ کے بعد گمنامی کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ سابق آرمی چیف کا 39ممالک کے اتحاد کی فوج کی سربراہی کے لئے کوشش کرنا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ سابق آرمی چیف ابھی نوکری کرنے میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے اور اگر جنرل(ر) راحیل شریف کو توسیع نہیں دی گئی تو یہ صرف ملک کے منتخب وزیراعظم کا اصولی موقف تھا، ورنہ توسیع کی بھی اتنی ہی کوششیں کی گئی ہیں جتنی آج اسلامی ممالک کی فوج کی سربراہی کے لئے کی جارہی ہیں۔
سرکاری ملازم ریٹائرمنٹ کے 2سال تک کسی بھی قسم کی ملازمت یا سیاسی سرگرمی کرنے کا اہل نہیں ہوتا۔ بلکہ آرمی چیف کے معاملے میں تو یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ فوج کے اس اعلیٰ منصب سے ریٹائر ہونے والے تو دو سال تک میڈیا پر انٹرویو بھی نہیں دیتے، نئی نوکری کرنا تو دور کی بات ہے۔ ماضی میں تو ریٹائر ہونے والے آرمی چیف ملک سے باہر سفر بھی این او سی لے کر کرتے تھے۔ بعض دوستوں کے دلائل ہیں کہ نیشنل سیکورٹی ایڈوئزر ناصر جنجوعہ کو ریٹائرمنٹ کے فورا بعد وفاقی وزیر کے برابر عہدے پر کیسے لگا دیا گیا؟ اگر انہیں لگایا جاسکتا ہے تو جنرل(ر) راحیل کے معاملے میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے۔ قارئین کی معلومات کے لئے عرض کرتا چلوں کہ رولز آف بزنس میں سرکاری افسر کے لئے ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال کی ہی شرط ہے۔ مگر وزیراعظم پاکستان کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ رولز آف بزنس کے کسی بھی کیس میں رعایت کرسکتے ہیں۔ ہاں! اگر وزیراعظم نے جنرل(ر) راحیل کے معاملے میں کسی جگہ پر خصوصی رعایت سے کام لیا ہے تو قوم کو بتانا چاہئے۔
اب اگر قانونی تقاضوں سے ہٹ کر اس فیصلے کے داخلی اور خارجی پہلوؤں پر غور کیا جائے، تب بھی معاملات کچھ اچھے نہیں ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب یمن کے معاملے پر سعودی عرب میں فوج بھیجنے کا معاملہ آیا تو سب سے زیادہ عسکری حکام کا دباؤ تھا کہ کسی کی جنگ میں خود کو نہ دھکیلا جائے۔ یاد رہے کہ اس وقت جنرل(ر) راحیل آرمی چیف تھے۔ اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل میں برادر عرب ملک کے ایک سینئر وزیر نے مجھ سے کہا تھا کہ اس بار پاکستان نے ہمارے ساتھ جو کچھ کیا ہے، اس کا ہمیں بہت افسوس ہے۔ اس وقت بھی فوج کوئی لڑنے کے لئے نہیں بھیجنی تھی بلکہ برادر ملک کو اخلاقی مدد کی ضرورت تھی۔ مگر صرف اس لئے روکاگیا کہ ملک کی منتخب حکومت کمزور ہو اور اس کی بین الاقوامی ساکھ متاثر ہو۔ آج پاکستان کے سابق آرمی چیف اسی اتحادی فوجی کی سربراہی کے لئے کوشاں ہیں کل تک وہ جس کی اخلاقی سپورٹ میں بھی رکاوٹ تھے۔ آج جب جنرل(ر) راحیل اس 39ملکی اتحادی فوجی کی سربراہی کریں گے۔ جو کسی بھی وقت حزب اللہ، شام، ایران یا پھر حوثی باغیو ں کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کرسکتی ہے تو قارئین ہماری خارجہ پالیسی پر اس کے اثرات بہتر جان کرسکتے ہیں۔ جنرل(ر) راحیل یہ سب کچھ انفرادی حیثیت میں کرسکتے تھے مگر آج ان کا تعارف ذاتی نہیں بلکہ پاکستان کی فوج کے ریٹائرڈ سپہ سالار کا ہے۔ جب بھی کوئی ایسا معاملہ ہو گا، نام میرے پاکستان کا آئے گا اور پھر نتائج سب جانتے ہیں۔ مذہبی جذبات بآسانی ابھارے جا سکتے ہیں۔ یہ خاکسار ان چند لوگوں میں سے ہے جس نے یمن معاملے پر سعودی حکومت کو کھل کر سپورٹ کیا تھا اور آج بھی سمجھتا ہوں کہ حرم کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اگر ایک طرف ہمارا برادر ملک سعودی عرب ہے تو دوسری جانب ایران بھی ہمارا اسلامی بھائی ہے۔ بلکہ ایران تو وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ اس لئے خدارا حرم سے محبت کو اتحادی فوج کی سربراہی سے منسلک مت کریں۔ جبکہ اطلاعات یہاں تک ہیں کہ سویلین حکومت نے ریٹائرمنٹ سے قبل ہی جنرل(ر) راحیل کی نئی ملازمت کے لئے راہ ہموار کرنے میں ساتھ دیا تھا مگر منتخب جمہوری حکومت کو علم ہونا چاہئے کہ اگر آج تنقید سابق آرمی چیف پر ہو رہی ہے تو کل یہ سارا ملبہ آپ پر بھی آسکتا ہے۔ اگر کوئی چیز خفیہ ہوئی ہے تو آپ کو اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ باقی سویلین عسکری تعلقات سے جڑا ہوا ایک معاملہ لاپتہ افراد کا بھی ہے۔
ماضی میں بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں سے لوگ لاپتہ ہوتے تھے مگر آج ملک کا دارالحکومت نشانے پر ہے۔ افتخار چوہدری تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔ کبھی بھی اداروں کی تضحیک کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، لیکن اگر کسی نے سوشل میڈیا پر کوئی ایسے اقدام اٹھائے ہیں جو آپکی نظروں میں حب الوطنی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہیں تو پھر اس پر چارج فریم کریں۔ اگر قانونی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر اقدام اٹھایا گیا ہوتا تو آج یہی میڈیا آپ پر تنقید نہیں بلکہ آپ کا دفاع کر رہا ہوتا۔ زیادہ دور مت جائیں عرب اسپرنگ دیکھ لیں۔ تیونس سے اٹھنے والی لہر کو آمر بھی نہیں روک سکے۔ سینکڑوں افراد سے معاملہ کروڑوں تک پہنچ گیا۔ اگر ملک کے وزیراعظم، چیف جسٹس آف پاکستان، صدر مملکت کی تضحیک پر حساس اداروں نے موثر کاروائی کی ہوتی تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔ مگر اب یہ وہ دور نہیں ہے کہ کسی نے بات نہ مانی تو اسے غائب کر دیا۔ ایسے اقدامات سے اداروں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ بلکہ مجھے یاد آرہا ہے دنیا کے بڑے ممالک کے آئین میں تو غداری کی شق بھی نہیں ہے۔ جس برطانیہ کے ماڈل کو ہم فالو کرتے ہیں، اس کا آئین اٹھا کر دیکھ لیں مگر ایک ہم ہیں جنہوں نے اسے مسئلہ بنا کر نیا جوار بھاٹا کھولا ہوا ہے۔ 21ویں صدی میں دنیا کہاں کی کہاں نکل گئی ہے اور ہم اب تک حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ دینے اور لینے میں لگے ہوئے ہیں۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے وزیراعظم پاکستان کو اس کا سخت نوٹس لینا چاہئے۔ دونوں بالا معاملات پر قوم حقائق جاننا چاہتی ہے۔ اگر آپ نے اب بھی لیت ولعل سے کام لیا ہے تو کل اس کے نشانے پر آپ بھی ہوسکتے ہیں۔

.
تازہ ترین