• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عناصر میں ظہورِ ترتیب ... خصوصی تحریر…لبنیٰ اشرف

فرض کرو ہم اہل وفا ہیں جو عوام کی اکثریت ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ فصلِ گل کو اس چمن میں اترنے سے کون روک رہا ہے؟ ہمارے دشمن؟ نہیں۔ اغیار؟ نہیں۔ بیرونی سازشیں؟ جواب ہے ذمہ دار ہیں ہم اور ہمارے رہبر۔ وجہ ہے ہماری ترجیحات، ہمارے فیصلے، اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام اور حکمراں پاکستان کو ترقی یافتہ اور اپنی آنے والی نسلوں کو پھلتا پھولتا اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اگر مستقبل کی منصوبہ بندی اور فیصلے زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے کئے جائیں تو کیا ہماری مذکورہ بالا خواہشوں کی تکمیل ممکن ہے۔ اپنی صورتحال پر اکثر یہ شعر یاد آتا ہے۔
زیست کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا
یہ درست ہے کہ موٹر ویز، سڑکوں کا جال، ٹرینوں کے لئے جدید سسٹم، مطلب ذرائع آمدورفت میں بہتری معاشی ترقی کے لئے بہت اہم کردار ادا کرتی ہے مگر یہ بھی ایک بھیانک حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان میں 44فیصد بچے یعنی تقریباً ہر دوسرا بچہ شدید غذائی قلت کے سبب STUMTED GROWTH کا شکار ہے۔ ایسے بچوں کا قد اپنی عمر کے نارمل بچوں کی نسبت چھوٹا رہ جاتا ہے۔ دماغ بھی صحیح طور پر نہیں بڑھتا اس کا اثر ان کی سیکھنے کی صلاحیتوں اور ان کی صحت پر پڑتا ہے یہ بچے زندگی کے ہر معاملے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بچے میں یہ نقائص اپنی زندگی کے پہلے 1000دن یعنی حمل سے بچے کی دوسری سالگرہ تک شدید غذائی قلت اور ناکافی نیوٹرینٹ ملنے کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ STUMTED GROWTHسے بچے میں جو نقائص پیدا ہوتے ہیں پھر انہیں دور نہیں کیا جاسکتا۔ یونیسیف کے مطابق 165ملین STUMTED GROWTHکے شکار بچوں کا 80فیصد 14ملکوں میں پائے جاتے ہیں اور پاکستان اس مسئلے کے شکار بچوں کی تعداد کی اکثریت کے حساب سے تیسرے نمبر پر ہے۔ کئی ملکوں نے ہنگامی بنیادوں پر کام کرکے صورتحال کو بہتر بنایا ہے۔ ہمارے سوچنے کی بات یہ ہےکہ غذائی قلت کا شکار یہ بچے جب آج سے دس پندرہ سال بعد ہماری افرادی قوت ہمارے دست و بازو بنیں گے تو کیا یہ غیر صحت مند بچے ان ترقیاتی منصوبوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے جن پر ہم آج کام کر رہے ہیں، کیا یہ وقت آنے پر اس ملک کی ذمہ داریاں سنبھال سکیں گے یا معیشت پر بوجھ بن جائیں گے؟سوچتی ہوں اگر میں ایک بوسیدہ گھر میں رہ رہی ہوں جس کی دیواریں بے رنگ ہوں پلستر اکھڑا ہوا ہو، بے روزگاری ہو، گھر میں کھانے کو نہیں ہو اور مجھے کہیں سے پیسے مل جائیں تو کیا کروں گی۔ کیا میں دیواروں پر رنگ و رغن کرائوں گی، نئے کپڑوں کے پیچھے بھاگوں گی یا بھوک سے نڈھال بچوں کیلئے کھانے کا بندوبست کروں گی، کوئی جاہل یا ان پڑھ ماں بھی ہوگی تو سب سے پہلے بچوں کیلئے کھانے کا بندوبست کرے گی کہ زندگی کی ڈور بندھی رہے۔ پھر ہمارے ماہرین معاشیات اور ہمارے حکمراں اس مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر کیوں ڈیل نہیں کر رہے۔ ہمارے میڈیا کو یہ طوفان آتا کیوں دکھائی نہیں دے رہا، عوام کی خیر خواہ سیاسی جماعتیں اور حکومت عوامی مظاہروں پر توجہ مبذول کروائے جانے کی بجائے رضاکارانہ طور پر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں کیوں نہیں کرتیں؟ چلئے ایک لمحہ کو اربوں کھربوں کے ترقیاتی منصوبوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ غیر ترقیاتی اور غیر ضروری اخراجات کی بات کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پرائم منسٹر ہائوس میں کانفرنس روم بنانے کیلئے 22کروڑ مختص کئے گئے۔ پرائم منسٹر ہائوس اور پرائم منسٹر سیکرٹریٹ میں کتنا فاصلہ ہے وہاں کانفرنس روم تو ہونگے وہ کیوں نہیں استعمال کیا جاتے؟ یہ 22کروڑ غذائی قلت کے شکار بہت سے بچوں کے 1000دن بہتر بنا سکتے تھے۔ پھر تلور جو ایک موسم میں ہجرت کرکے پاکستان آتا ہے ان کی افزائش نسل کے لئے کروڑوں عطا کئے گئے اچھی بات ہے لیکن پہلے اپنے بھوک کے مارے بچوں کی نسل کو بچایئے گزشتہ دنوں وزیر اعظم کے دورہ بلوچستان کے موقع پر سوشل میڈیا پر یہ بات کی جارہی تھی کہ 300یا 400افراد کے کھانے کے انتظام و انصرام پر 34لاکھ خرچ کئے گئے، شادیوں پر کھانے پر پابندی لگ سکتی ہے تو سیاسی اجتماعوں اور حکومتی ضیافتوں پر کیوں نہیں۔ چند مثالیں یہ کہنے کیلئے کہ غیر ترقیاتی کاموں کی مد میں بھی جگہ جگہ اربوں خرچ ہو رہے ہیں۔ کاش حکمراں اور ہمارے پالیسی ساز یہ سمجھ لیں کہ غذائی قلت کا شکار بچے ان کے اپنے بچے ہیں۔ برسبیل تذکرہ 2012ءمیں افریقی ملک ملاوی کی JOYCE BANDنے حکومت سنبھالی تو حکومتی اخراجات میں کمی کرنے کیلئے صدر کا ذاتی جہاز اور 60لگژری گاڑیاں فروخت کردیں۔ ہم بھی ابتدا غیرترقیاتی اخراجات میں کمی کرکے کرسکتے ہیں۔بس ایک بار عوام پر گزرنے والے حالات پر خود پر منطبق کر لو پھر فصلِ گل کو اس چمن میں اترنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

.
تازہ ترین