• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میڈیا آزاد نہیں ہوا تھا۔ ایک ہی سرکاری ٹی وی ہوتا تھا اورخبریں جاہلیت بھری سنسر شپ سے گزر کر لوگوں تک پہنچتی تھیں۔ لوہاری گیٹ کے باہر مجھے ایک شخص ملا، کہنے لگا ’’مجھ سے کان صاف کرا لیجئے۔ میں بڑے اچھے طریقے سے کان صاف کرتا ہوں‘‘۔ میں نے غور سے دیکھا تو اس کا چہرہ مجھے جانا پہچانا لگا۔ مجھے اگلے ہی لمحے یاد آگیا کہ اس شخص کے ساتھ تو برسوں پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھتا رہا ہوں۔ یہ پاکستان کا اچھا بھلا مشہور ادیب ہے۔ اس نے بھی مجھے پہچان لیا۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ تم یہ لوگوں کے کان کیوں صاف کرتے پھر رہے ہو۔ اچھے بھلے لکھنے والے آدمی ہو۔ تمہیں کہیں بھی نوکری مل سکتی تھی۔ کہنے لگا میں پیسوں کے لئے تو لوگوں کےکان صاف نہیں کرتا۔ دراصل اس قوم کے کانوں میں بڑی میل جم گئی ہے۔ لوگوں کو کوئی بات سنائی ہی نہیں دیتی۔ اب دیکھو انیس سو اڑتالیس میں جو مکان مجھے الاٹ ہوا تھا اس کا قبضہ ابھی تک مجھے نہیں ملا۔ میں کونسی کورٹ میں نہیں گیا۔ کس عدالت کا دروازہ میں نے نہیں کھٹکھٹایا مگر کوئی سنتا ہی نہیں۔ بس بات میری سمجھ میں آگئی کہ اس قوم کے کانوں سے میل نکالنی بڑی ضروری ہے اور بات میری سمجھ میں بھی آگئی تھی کہ انصاف کی تلاش میں بیچارہ دماغ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے مگر اب میں سمجھتا ہوں کہ میڈیا نے لوگوں کے کانوں سے میل نکال دی ہے۔ اب پاکستانی عوام میڈیا کی ایک ایک بات سنتے ہیں اور اس کا پورا پورا تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کہنے والا کون ہے اور کہہ کیا رہا ہے۔ پچھلی رات میں برمنگھم میں ایک پاکستانی ریستوران پر کھانا کھا رہا تھا۔ جہاں ٹیلی وژن پر ایک خبر آئی اور میرے ساتھ میز پر بیٹھے ہوئے کچھ پاکستانیوں میں بحث کا آغاز ہوگیا۔ انہی میں سے کچھ جملے کوٹ کررہا ہوں ۔
’’بے شک ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے، جو ایک خود مختار ادارہ ہے مگر غیر ملکی معاملات میں اسے برطانوی خارجہ پالیسی کے دائرے میں رہنا ہوتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے اِس ادارے کا مزاج پاکستان کے حوالے سے کچھ بدلا بدلا ہے یعنی پاکستان میں برٹش خارجہ پالیسی میں کوئی اہم تبدیلی واقع ہوئی ہے‘‘۔
یہ تجزیہ اُس خبر کا کیا جارہا تھا جس میں اس نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق مے فیئر کےجن فلیٹس کے متعلق یہ کہا جارہا ہے کہ وہ دوہزار پانچ میں خریدے گئے وہ برطانوی ریکارڈ کےمطابق 1993سے شریف خاندان کی ملکیت ہیں۔
’’اس نے یہ خبر نشر کرتے ہوئے یقیناً یہ سوچا ہوگا کہ یہ خبر پاناما کیس پر ضرور اثر انداز ہوگی کسی نہ کسی انداز میں، جو ان دنوں سپریم کورٹ میں روزانہ کی بنیاد پر سنا جا رہا ہے۔ چلو یہ خبر درست ہی سہی مگر اُس کی ٹائمنگ تو دیکھو۔ بے شک یہ ادارہ کچھ ماہ سے پاکستان کی تصویر خاصے منفی انداز میں پینٹ کر رہا ہے‘‘۔
’’میرا اور اس نشریاتی ادارے کےاعتمادکا رشتہ تو بہت عرصہ پہلے زخم زخم ہو گیا تھا۔ تم اس وقت بہت چھوٹے تھے۔ 1965کی ایک توپوں کے گولوں سے کھڑکیوں کی طرح بجتی ہوئی صبح تھی جب اس نے کہا تھا بھارتی فوجیں لاہور میں داخل ہو گئی ہیں، میرے کان بے اعتباری کی دراڑوں سے بھر گئے تھے۔ سو ایسی خبریں میری آنکھوں میں اُتریں تو وہی درد پھر سے جاگ پڑتے ہیں۔ اگرچہ اِس نے اُس وقت اپنی اُس خبر پر معذرت کی تھی مگر یہ طے ہے کہ اس کی پالیسی میں بھارت کی طرف جھکائو ضرور موجود ہے‘‘۔’’خاص طور پر بلوچستان کے حوالے سے تو اس کی خبریں سن کر ایسا لگتا ہے جیسے ہم انڈین میڈیا کو سن رہے ہیں۔ اس کے مطابق پچھلے کچھ سالوں میں ہزاروں افراد کو پاکستان کی سرکاری ایجنسیوں نے مبینہ طور پر اغوا کیا ہوا ہے اور پھر ان کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ ابھی پانچ لوگوں کے گم ہونے پر تو امریکہ اور برطانیہ دونوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے جیسے وہ پانچوں امریکی شہری تھے۔ انہیں پاکستان میں بھوک سے خودکشیاں کرتے ہوئے لوگ نظر نہیں آتے۔ ایک کروڑ سے زائد ایسے بچے نہیں دکھائی دیتے جنہیں تعلیم نہیں دی جا رہی۔ اسپتالوں کے کاریڈورز میں مرتی ہوئی عورتوں پر انہوں نے کبھی تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ کیا انہیں علاج فراہم کرنا حکومت کا کام نہیں‘‘۔
’’سارا درد گوادر کا ہے یار۔ جس نے ان کی نیند خراب کی ہوئی ہیں۔ یہ جو بلوچستان کے پہاڑوں میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوا ہے، اس کا ہدایت نامہ صرف ہمسایہ ملک سے ہی نہیں سمندروں کے اِس طرف سے جاتی ہوئی ہوا کی الیکٹرانک لہروں پر بھی لکھا ہوتا ہے‘‘۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ اس ادارے کو یہ کہنے کی اب ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ بلوچ قوم پرستی کی تحریک قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہر دور میں چلتی رہی ہے‘‘۔ ’’اس نے دبے لفظوں میں اسے بلوچستان کی آزادی کی تحریک بھی کہا ہے۔ اس کا یہ کہنا کہ ’پاکستان کو اب بلوچستان میں زیادتیوں کا جواب دینا ہوگا‘ یا ’لاپتہ بلوچوں کی کہانیاں شائع کرنا‘ واضح طور پرکہہ رہا ہے معاملہ گوادر نے اور زیادہ گمبھیر بنا دیا ہے‘‘۔
’’کشمیری مجاہدین تو اس ادارے کو ہمیشہ سےدہشت گرد نظر آتے ہیں، بھارتی فوجیوں کے تشّدد یا گولیوں سے چھلنی کشمیریوں کی لاشیں دیکھتے ہوئے یہ لوگ اپنی آنکھوں پر پتہ نہیں کونسے رنگ کی عینک چڑھا لیتے ہیں کہ منظر ہی بدل جاتا ہے۔ وہاں کی فوجی ایجنسیوں کے اغوا کردہ کشمیریوں کی فہرستیں تو کبھی نہیں بنائیں۔ کشمیر میں ’’را‘‘ کی کارروائیوں کے بارے میں ان کی لاعلمی حیرت انگیز ہے‘‘۔
میں نے کھانا کھا لیا تو ان سے معذرت کے ساتھ کہا کہ آپ لوگوں کو تو اس غیر ملکی نشریاتی ادارے کا احسان مند ہونا چاہئے کہ ایک ایسا مقدمہ جس میں بیس کروڑ عوام ایک طرف ہیں اور ایک خاندان ایک طرف ہے اُس میں اس نے پاکستانی عوام کا ساتھ دیا ہے اور حقائق لوگوں تک پہنچائے ہیں، یقیناً سپریم کورٹ میں بھی اس خبر کی بازگشت سنائی دے گی تو ان میں سے ایک شخص نے خاصی لمبی تقریر فرمادی جس کا نچوڑ یہ تھا ’’یہاں کسی کے پاس اگر چند ہزار پونڈ پکڑے جائیں اور یہ پتہ نہ چلے کہ یہ کہاں سے آئے تھے تو نہ صرف پولیس انہیں اپنے قبضے میں لے لیتی ہے بلکہ قیدوبند کی سزائیں بھی ملتی ہیں۔ مگر جب یہ ملینز پونڈز کے فلیٹس خریدے گئے تھے اُس وقت یہاں کی حکومت نے ان لوگوں سے یہ کیوں نہیں پوچھا تھا کہ ہاں بھائی بولو یہ دولت کہاں سے چرا کےلائے ہو۔ کیا یہاں کی حکومت کےپاس اس سرمائے کی منی ٹریل نہیں ہوگی۔ بالکل ہوگی۔ اگر یہ سچے ہیں تو بتاتے کیوں نہیں کہ 1993میں سرمایہ کس اکائونٹ سے کس اکائونٹ میں منتقل ہوا تھا۔ دوسرا اگر وہ غیر قانونی تھا تو آج تک اس کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی‘‘۔
دوستو! سپریم کورٹ کا فیصلہ چاہے کچھ بھی ہو ۔ لگ رہا ہے کہ پاناما کیس ایک نئے دور کی تمہید بننے والا ہے۔

.
تازہ ترین