• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں روزگار کے بہتر مواقع کم ہونے کی وجہ سے جہاں لاکھوں پاکستانی قانونی طریقوں سے بیرونی ملکوں میں ملازمتیں کر رہے ہیں وہاں لاکھوں ایسے بھی ہیں جو چوری چھپے غیر قانونی دستاویزات پر سمندری، فضائی یا زمینی راستوں سے قسمت آزمائی کے لئے ان ملکوں کا رخ کرتے ہیں اور بالآخر اپنی اور اپنے خاندانوں کے لئے تباہی و بربادی کا باعث بن جاتے ہیں۔ ان کی اکثریت ایسے غریب اور نادار نوجوانوں کی ہے جو جعلی ریکروٹنگ ایجنٹوں کے جھانسے میں آکر راتوں رات دولت مند بننے کے لالچ میں اپنی زمینیں رہن رکھ کر یا قرضے لے کر ایجنٹوں کی ادائیگیاں کرتے ہیں بحری جہازوں، سمندری کشتیوں، ٹرکوں یا دوسری گاڑیوں میں چھپ کر بیرونی سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں اور اکثر ہفتوں بھوکے پیاسے رہ کر یا دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں۔ جو زندہ سلامت منزل مقصود پر پہنچتے ہیں انہیں متعلقہ ملکوں کے قانون نافذ کرنے والے ادارے دھر لیتے ہیں اور جیلوں میں ڈال دیتے ہیں جو لوگ ان مرحلوں سے بھی بخیر و عافیت گزر جائیں انہیں جائز دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے کہیں بھی روزگار نہیں ملتا اور وہ قانون کی نظروں سے چھپتے پھرتے ہیں۔ جعلی ریکروٹنگ ایجنسیاں تو اپنے دام کھرے کر کے بے فکری سے نئے شکار تلاش کرنے لگتی ہیں مگر جن نوجوانوں کے مقدر سے وہ کھیلتی ہیں ان کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ ایسے غیر قانونی تارکین وطن کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ پچھلے تین سال میں غیر قانونی طریقوں سے بیرونی ملکوں خصوصاً یورپی ممالک میں روزگار کے لئے پہنچنے والے تقریباً تین لاکھ پاکستانیوں کو مختلف الزامات میں متعلقہ ملکوں سے بے دخل کر دیا گیا۔ ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے ان ملکوں میں جیلیں کاٹیں اور وہ بھی جو واپس پاکستان آکر قوانین کی خلاف ورزی کے الزامات میں قید و بند کی سزائیں بھگتیں گے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بیرونی ملکوں میں روزگار کمانے والے ہنرمند پاکستانی ملک کا بیش قیمت سرمایہ ہیں، وہ ہر سال اربوں ڈالر پاکستان میں اپنے خاندانوں کیلئے بھیجتے ہیں جس سے زرمبادلہ کے ملکی ذخائر میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قانونی تقاضے پورے کر کے جائز ویزوں پر بیرونی ملکوں کی ضرورت کے مطابق وہاں پہنچتے ہیں اور قانونی ضابطوں کے تحت انہیں وہاں روزگار مل جاتا ہے۔ ان کے قانونی حقوق کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے لئے باقاعدہ محکمہ موجود ہے جو لوگ کسی مقامی قانون کی زد میں آجائیں ان کی رہائی اور وطن واپسی کے اقدامات پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ پاکستانی سعودی عرب میں ملازمتیں کر رہے ہیں ان کی تعداد 20لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ سعودی عرب کے بعد عرب امارات، برطانیہ، ترکمانستان، عمان، کینیڈا، کویت اور بحرین وغیرہ میں لاکھوں پاکستانی مقیم ہیں اور آسودگی کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن غیر قانونی تارکین وطن کا بہت برا حال ہے۔ ان کا کوئی حال ہے نہ مستقبل۔ بیرونی ممالک تارکین وطن کو اپنے قوانین کی روشنی میں دیکھتے ہیں جو ان قوانین کی خلاف ورزی کریں یا جن کے پاس سرے سے قانونی دستاویزات نہ ہوں ان کو فوراً وہاں سے نکال دیا جاتا ہے۔ گزشتہ تین سال میں سب سے زیادہ کویت سے ایسے پاکستانیوں کو نکالا گیا جن کی تعداد ساڑھے انیس ہزار ہے، دوسرے نمبر پر ملائشیا سے ساڑھے دس ہزار پاکستانی بے دخل کئے گئے، ان میں سب سے برا حشر غیر قانونی تارکین وطن کا ہوتا ہے جن کا پہلے غیر ممالک میں اور پھر واپسی پر اپنے ملک میں بھی محاسبہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ روکنے کا قانون موجود ہے پھر بھی انسانوں کی جانوروں کی طرح اسمگلنگ جاری ہے اس سے نہ صرف ان لوگوں کے خاندانوں کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ ملک کی بدنامی بھی ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے حکومت ایف آئی اے اور دوسرے متعلقہ ادارے اینٹی ہیومن اسمگلنگ اسکواڈ اور انسانی اسمگلنگ کی سختی سے روک تھام کریں جس کسی کو بھی قانون باہر جانے کی اجازت نہ دے اسے یہیں روک لیا جائے تا کہ ان لوگوں کو تباہی سے بچانے کے ساتھ ملک کی ساکھ کو بھی بچایا جا سکے۔


.
تازہ ترین