• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج خادم پنجاب (وزیر اعلیٰ شہباز شریف) کی پنجاب کے محنت کشوں کی کچھ بلواسطہ خدمات کا ذکر بھی ہو جائے۔ براہ راست خدمات کے ساتھ جاری و ساری ہیں۔ براہ راست خدمات کا ذکر تو اخبارات اور ٹیلی وژن کے پروگراموں میں ہوتا رہتا ہے۔ بلواسطہ خدمات کی ایک جھلک روزانہ چوبرجی لاہور کے چوک سے گزرتے وقت دکھائی دیتی ہے۔ چوبرجی چوک پاکستان کے تاریخی مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ ہندوستان کے مغل شہنشاہ اورنگزیب کی بیٹی کا باغ کا دروازہ ہے۔ اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ لاہور شہر کو اورنج ٹرین سسٹم کے حوالے کرنے سے اس تاریخی خزانے کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا چنانچہ اورنج ٹرین کی راہ میں تاریخ کی رکاوٹ حائل ہو گئی وہ تعمیراتی کام تقریباً رک گیا۔ تعمیراتی کام رک گیا مگر عام لوگوں کی آمدورفت نہ رک سکی اور لاہور شہر کے ساتھ لاہور کی دیگر آبادیوں اور ٹائون شپ کا رابطہ جاری رہا۔ خادم پنجاب کے خادموں اور عام شہریوں پر حکومت چلانے والوں نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ تعمیراتی علاقہ یا علاقوں میں متبادل سڑکیں تعمیر کروائی جائیں جن پر ٹریفک آسانی سے جاری رکھی جائے چنانچہ ٹوٹے پھوٹے علاقوں میں ٹریفک جاری رکھنے سے گاڑیاں موٹریں اور بسیں خراب اور بیمار ہوتی رہیں اور علاج کے لئے گاڑیوں کے اسپتالوں میں داخل ہوتی رہیں اور یوں ان اداروں کی محنت کشوں اور مالکوں کی بلواسطہ خدمت جاری رہی اور ابھی تک جاری ہے اور اورنج ٹرین کے چلنے تک جاری رہے گی۔معاملہ تو یہ بھی لائق توجہ ہو سکتا ہے کہ خادم پنجاب نے لاہور شہر کے علاقوں کے درمیان سفر کی سہولتوں کی فراہمی کے ذریعے عام لوگوں کے سفر کے فاصلے کم اور سستے کئے ہوں گے مگر میرے جیسے لوگوں کے ساتھ یہ امتیاز برتا گیا کہ ان کے گھروں اور دفتروں کے درمیانی فاصلے بڑھ گئے ہیں پہلے جو فاصلہ دو میل کا تھا وہ اڑھائی میل کا ہو گیا ہے اور بیچ میں آدھے میل سے بھی زیادہ ٹریفک کی سہولتیں آ گئی ہیں۔ سفر کو آسان بنانے کے لئے اس میں کچھ مشکلات ڈال دی گئی ہیں۔ ان مشکلات کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ پرانے بادشاہوں اور حکمرانوں کے زمانے میں جب بھی کوئی سفری سہولت فراہم کی گئی اس کے ابتدائی زمانے میں کچھ مشکلات کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر اس سے کبھی انکار نہیں ہو سکتا کہ یہ تمام مشکلات وقت کے ساتھ چلتے چلتے مشکلات نہ رہیں یا بقول شاعر؎مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آسان ہو گئیںسوچا جا سکتا ہے کہ جب برصغیر پاک و ہند میں ریلوے لائن بچھائی گئی ہو گی تو اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی جائیدادیں متاثر ہوئی ہوں گی۔ بے شمار لوگوں اور جانداروں کو گاڑی کے نیچے آ کر مارے جانے کا اندیشہ بھی لاحق ہوا ہو گا مگر ریلوے لائن بچھانے ٹرین چلانے اور ریلوے نظام کو نافذ کرنے کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور شاید یہ بھی ضروری سمجھا جاتا ہو گا کہ ترقی کی راہوں پر چلتے ہوئے ان لوگوں کا بھی خیال رکھا جائے جو ترقی کی راہوں پر چلنے والوں کی راہوں میں آ سکتے ہیں۔میرے آج کے کالم کے اندر سے جو خواہش جھانک رہی ہے وہ بہت سارے لوگوں کی سمجھ میں آ گئی ہو گی ہو سکتا ہے کچھ لوگ نہ سمجھے ہوں۔ گزارش اس کالم کے اندر یہ ہے کہ اورنج ٹرین لاہور کی ایک ضرورت ہے جو پوری ہونی چاہئے مگر اس ضرورت کے پورے ہونے کے راستے میں جو توڑ پھوڑ ہو رہی ہے اور ٹریفک کے لئے جو مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں ان کی موجودگی میں متبادل انتظامات بھی بہت ضروری اور لازمی تھے اور یہ انتظامات خادم پنجاب نے خود اپنے سرکاری خزانے کے خرچ سے نہیں ٹھیکہ داروں کے خرچ سے کروانے تھے۔ ان متبادل انتظامات کی جانب خادم پنجاب کے اصل خادموں کی چنداں توجہ نہیں ہے۔

.
تازہ ترین