• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تھرپارکرکسی سلگتے ہوئے زخم سے کم نہیں ۔وہاں کئی برسوں سے بچوں کی اموات کا رقص جاری ہے جس میں کبھی تیزی تو کبھی کمی واقع ہوجاتی ہے ۔(شاید صدیوں سے ہو اور ہمیں اب معلوم ہوا ہو )اگرچہ اِس کے بہت سے اسباب ہیں مگرماہرین کے نزدیک سب سے بڑا سبب غربت سے جڑی ہوئی غذائی قلت ہے۔زمین سے نکلتی ہوئی بھوک کی چیخ ہے ۔میں جب تھر پارکر سے لوٹ کر آیا تھا تو میں نے لکھا تھا ’’میں اس سات سالہ نابینابچے کو کیسے بھول سکتا ہوں جو سوکھی ہوئی روٹی کا ایک ٹکڑے کا نوالہ ہاتھ میں لے کر لکڑی کے برتن میں گھلی ہوئی مرچ کا کوئی قطرہ ڈھونڈ رہا تھا۔ میں اُس بارہ سالہ گونگے بچے کوکیسے اپنے ذہن سے نکال سکتا ہوں جو اشاروں کی زبان سے مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ مجھے روٹی چاہئے، پانی چاہئے ،بجلی چاہئے۔میں اُس گھر کو کیسے بھلا سکتا ہوں جس کے باسی اپنے کچے کوٹھے کے دروازے کی جگہ دیوار بنا کر تھر سے ہجرت کر گئے تھے کہ وہاں فاقوں نے زندگی ان کیلئے اجیرن کردی تھی۔میں مسلمانوں کے اُس گائوں کو کیسے بھول سکتا ہوں جہاں ایک سوسےزائد گھر تھے مگر کسی گھر میں قرآن حکیم موجودنہیں تھا۔جہاں کوئی بچہ ،کوئی لڑکی ، کوئی بوڑھا ایسا نہیں تھا جو لفظ پڑھ سکتا ہو۔میری یادداشت سے وہ مندر کیسے نکلیں گے جہاں کی ہندو آبادی نے دیویوں اور دیوتائوں کے بتوں کی جگہ اُن کی پھٹی پرانی تصویریں رکھی ہوئی تھیں کہ بت اُن کی قوتِ خرید سے باہر ہیں۔میں اُس بوڑھے شخص سے کیسے صرفِ نظر کرجائوں جس نے میزبان کے طور پر ہمیں پانی پلایا تو پانی کے گلاس آدھے آدھے بھرے۔وہ جو ایک ہفتہ سید ظفراللہ شاہ کے ساتھ میںنے تھرپارکر میں گزارا ہے وہ میرےلئے بہت تکلیف دہ تھا۔ میں نے اپناایسا پاکستان پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔‘‘
ابھی تھوڑی دیر پہلے درد کےوہی منظر پھرمیری بدبخت آنکھوں میں لہرانے لگے جنہیں کیا کیا دیکھنا پڑا ہے ۔کہیں میرے اندر دکھ کی کوئی کراہ پھیل گئی دراصل میں اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے ’’یونیسیف‘‘ کی ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا جس میں ہمیں ہوشیارکیا گیا تھا خبردار کیا گیا تھا کہ پاکستان میں مزید پانچ لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہونے والے ہیں ۔یونیسیف نےدوہزار گیارہ میں بھی ایک سروے کرایا تھا جس کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں چوالیس فیصد بچے ،بچوں کے غذائی معیار پرپورےنہیں اترتے وہ ذہنی و جسمانی نشو ونما میں ادھورے پن کا شکار ہیں۔ان کی حالت ان کی عمر وں کے مطابق نہیں ۔ پاکستان کو خوراک کی کمی اور لاغر ہوجانے والے بچوں کے معاملات میں ایمرجنسی کا سامنا ہے۔خاص طور پرسندھ میں توخاموش ایمرجنسی ہے وہاں بچوں کے حوالےسے شدید قحط کی صورتحال قرار دی جا سکتی ہے کیونکہ وہ صحرائی علاقہ ہے۔ان کے نزدیک بچوں کو مکمل غذا نہ ملنے کا بنیادی سبب غربت ہے ۔
میں نے اس رپورٹ کے متعلق جب کچھ پاکستانی حکام سےبات کی توانہوں نے عجیب و غریب حد تک دلچسپ جواب دیا ۔انہوں نے کہاکہ یونیسیف کی اِس رپورٹ کے مطابق دنیا میں چار کروڑ اسی لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہونے والے ہیں جن میں پانچ لاکھ بچوں کا تعلق پاکستان سے ہے ۔دراصل یونیسیف کا ایک ٹارگٹ یہ بھی ہےکہ دنیا بھر کے ان بچوں کی غذائی قلت کے خاتمے کےلئے 34کروڑ ڈالر کےعطیات جمع کئے جائیں۔سو اس صورتحال کے پس منظر میںان عطیات کے جمع کرنے کی تشہیری مہم بھی ہو سکتی ہے ۔
میں ذاتی طور پر اس بات سے قطعاً اتفاق نہیں کرتا۔میں اتنا چاہتا ہوں کہ ہمیں (ہم جو آنکھیں رکھتے ہیں )ہر گلی محلہ میں دوچار لاغر بچے ضرورنظر آجاتے ہیں ۔ جن کے متعلق ڈاکٹر ز کایہی کہنا ہوتا ہے کہ پیدائشی طور پر تو یہ صحت مند تھے مگر غذائی کمی کا شکارہو گئے ہیں ۔اسی سبب اُن بچوں کا وزن کم ہوگیا ہے اور قد بڑھنے کا عمل رک گیاہے ۔ان لا غر بچوں کو اگر پروٹین سےبھری ہوئی خوراک فراہم کی جائے تو یہ دوبارہ صحت مند ہو سکتے ہیں ۔میانوالی میں جہاں میرا بچپن گزرا ہے وہاں میرے محلے میں بھی کئی ایسے بچے تھے ۔ بے شک ایسے بچے ہمیں صرف غریب گھروں میں دکھائی دیتے ہیں ۔جہاں چند نوالوں کے لئے زندگی سسکتی ہوئی گھسٹ گھسٹ کر چل رہی ہوتی ہے سو حکومت کو چاہئے کہ وہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرے۔
تھر پارکر میں غذائی قلت کا بنیادی سبب پانی کی کمی ہے ۔ وہاں چونکہ سالوں خشک سالی آبادرہتی ہے اس لئے قحط سالی کے پر کھلنے لگتے ہیں ۔ خدانخواستہ اگر پورے پاکستان میں غذائی قلت پیدا ہوئی تو اس کا سبب پانی کی قلت ہوگی ۔بظاہر تو پاکستان میں پانی کی قلت دکھائی نہیں دیتی پاکستان کوصرف آلودہ پانی کے عفریت نے جکڑ رکھا ہے مگر ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے موجودہ آبی ذخائر پاکستان میں پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کےلئے ناکافی ہیں ۔ پانی کی قلت کا سامنا پاکستان کو ہونے والاہے ۔ پاکستان میں اس وقت انسانی ضروریات کیلئے پانی کی دستیابی فی کس 1 ہزار کیوبک میٹر سالانہ سے کم ہے۔جبکہ 1950 میں ملک کی آبادی تین کروڑ 40 لاکھ تھی اور فی شخص کے لیے 5260 کیوبک میٹر پانی موجود تھا۔ اس لئے غذائی تحفظ کے استحکام اور زرعی پیداوار میں اضافے کیلئے پانی کے ذخائر، تقسیم اور آبپاشی کے پانی کی قیمتوں میں کمی کے اقدامات کو انتہائی اہم قرار دیا گیاہے۔ایک اور رپورٹ کے مطابق 1947ءمیں پاکستان کے پاس جتنا پانی تھا اس وقت اُس کا پانچواں حصہ باقی رہ گیا ہے، دوکروڑ ایکڑ زمین بنجر ہو چکی ہے۔ڈیموں کی تعمیر اور پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات میں خرابی کے سبب اوسطاً سالانہ 20 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع چلا جاتاہے ۔پانی کے مسائل میں سندھ طاس معاہدہ بھی ایک اہم حیثیت رکھتا ہے ۔ بھارت کی طرف سے اکثرپانی بند کرنےکی دھمکیوں کے سیلاب آتے رہتے ہیں۔وہ قطرہ قطرہ سندھ طاس معاہدہ کوختم کرنا چاہتا ہے ۔سوچتا ہے اور پھر سوچ کر رہ جاتا ہے۔ ورلڈ بنک نے ضمانت دی ہوئی ہے ۔چین پاکستان کے کہنے پر بھارتی دریائوں کا پانی بھی بند کر سکتا ہے بہر کیف یہ طے شدہ ہے کہ خدا نخواستہ اگر پاکستان اور بھارت میں آئندہ کوئی جنگ ہوئی تو وہ اِسی پانی کی بنیاد پر ہوگی ۔یہی دعا ہے کہ ایسا موقع کبھی نہ آئے۔کبھی خدا وہ دن نہ دکھائے کہ پورے ملک پر تھر پارکر محیط ہوجائے ۔



.
تازہ ترین