• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’جان تمنا!‘ آج ویلنٹائن ڈے ہے‘ سب عاشق اپنے محبوب کو پھول پیش کررہے ہیں اور میں خود کشی کر رہا ہوں۔ جب تمہیں میرا یہ خط ملے گا تب تک میری گٹکیں بھی پڑھی جا چکی ہوں گی۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ یوں اپنا خاتمہ کرنا پڑے گا لیکن وقت اور حالات نے مجبور کردیا ہے کہ اب زندگی کو خداحافظ کہہ دیا جائے۔ میں نے دل و جان سے تمہیں چاہا‘ تمہاری خاطر اپنے ماموں کی پڑھی لکھی بیٹی کو بھی ٹھکرا دیا جو میڈیکل کالج سے انجینئرنگ کرنے کے بعد پائلٹ بننے والی ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں صرف ٹین جماعتیں پاس ہوں لیکن محبت تعلیم کی محتاج نہیں ہوتی۔ مجھے پتا ہے تمہیں انگریزی بولنے والے لڑکے پسند ہیں لیکن شاید تمہیں نہیں پتا کہ میں فل انگریزی جانتا ہوں۔ یہ بات میں نے جان بوجھ کر تمہیں کبھی نہیں بتائی لیکن آج چونکہ زندگی میں آخری بار تم سے بات ہو رہی ہے اس لئے کچھ نہیں چھپائوں گا۔ تم نے شاید نوٹ نہیں کیا جب پہلی بار میں سائیکل پر تمہارا پیچھا کر رہا تھا اورکھمبے سے ٹکرا کر گرا تھا تو میں نے ’ہائے مرگیا‘ کی بجائے ’Oops‘ کہا تھا۔ اور وہ جب میں تمہارے گھر پھول دینے آیا تھا اور آگے سے تمہارے ابا جی نکل آئے تھے تو یاد کرو میں نے تب بھی اردو میں گھبرانے کی بجائے انگریزی میں گھبرا کر کہا تھا…’Shit‘
لیکن تمہیں کبھی مجھ سے محبت نہ ہو سکی۔ میں نے تمہاری خاطر کیا کچھ نہیں کیا‘ نیوز چینل چھوڑ کر ’بادشاہوں‘ والے ڈرامے دیکھنے شروع کئے‘ ڈولے پر ٹیٹو بنوایا‘ گلے میں ’S‘ والا لاکٹ پہنا‘ اپنی سم تمہارے نیٹ ورک پر منتقل کروائی‘ تسمے والے بوٹ پہننا شروع کئے، کلین شیو کروائی‘ ایک رنگ کی جرابیں پہننا شروع کیں‘ شلوار قمیص کی جگہ پینٹ پہننا شروع کی لیکن تم نے ہمیشہ مجھے ’ایزی‘ لیا۔ میرے دل کی ملکہ! میں نے بہت کوشش کی کہ ایک دفعہ‘ صرف ایک دفعہ تم ویلنٹائن پرمجھے پھول دے دو یا مجھ سے پھول لے لو، لیکن تم نے میری اتنی سی بات بھی نہیں مانی، اللہ کرے تمہیں بھی ایسے ہی کسی سے محبت ہو اور وہ بھی تمہیں ایسے ہی ذلیل کرے۔ میں نے تمہاری محبت پانے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کئے۔ ’محبوب آپ کے قدموں‘ والے سارے عامل میں نے آزما لئے لیکن الٹا اثر ہوا، محبوب کی بجائے عاشق قدموں میں جا پڑا۔ یاد ہے میں ہر دفعہ پھول لے کر تمہارے پاس جاتا تھا اور تم میری محبت کی قدر کرنے کی بجائے اپنا کتا مجھ پر چھوڑ دیتی تھیں۔ تمہارا کتا بھی کسی کتے کا بچہ ہے جسے ذرا تمیز نہیں کہ عاشق اورچور میں کیا فرق ہے۔ تمہارا کتا جس وارفتگی سے مجھ پر جھپٹتا تھا اس کی وجہ مجھے بعد میں سمجھ آئی۔ اصل میں مجھے ایک عامل نے کہا تھا کہ اگر تم اپنی محبوبہ کے سر کا بال لے آئو تو میں اُس پر ایسا منتر پڑھوں گا کہ وہ بے چین ہوکر تمہارے پاس آجائے گی۔ میرے لئے تمہارے سر کا بال حاصل کرنا تمہیں حاصل کرنے سے بھی زیادہ مشکل تھا، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری، روز موقع کی تلاش میں رہنے لگا، ایک دن تمہاری ملازمہ گھر کا کچرا پھینکنے گئی تو میں نے دیکھا کہ بھورے رنگ کا ایک لمبا سا بال بھی کچرے میں موجود ہے، میری خوشی کی انتہا نہ رہی کیونکہ مجھے پتا تھا کہ تم اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہو لہٰذا یہ بال تمہارے علاوہ کسی کا نہیں ہوسکتا۔ میں نے بڑی مشکل سے کچرے میں سے وہ بال نکال لیا اورسیدھا عامل بابا کے پاس پہنچا، انہوں نے میری ہمت کی تعریف کی اور مبلغ پندرہ سو کے عوض اُس بال پر منتر پڑھ دیا۔ وہ تو چھ ماہ بعد یہ خوفناک حقیقت کھلی کہ وہ بال تمہارا نہیں بلکہ تمہارے کتے کا تھا۔ میں بھی کہوں بدبخت چھ میل دور سے بھی میری خوشبو کیسے سونگھ لیتا ہے۔
میرے سپنوں کی رانی! میرا خدا جانتا ہے کہ تم ہی میرا تقریباً آخری پیار ہو‘ مجھے پتا ہے تمہیں شعرو شاعری بڑی پسند ہے، آہ… میں کبھی تمہیں نہ بتاسکا کہ میں خود کتنا بڑا شاعر ہوں، یہ شعر میرا ہی ہے ’زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں… میں تو بعد از وفات بھی تمہیں لگاتار چاہوں گا‘۔ دیکھ لو، میری وفات کا وقت آگیا ہے، میں اس دنیا سے منہ موڑ رہا ہوں، آج کے بعد کوئی تمہاری یاد میں آنسو نہیں بہائے گا، کوئی تمہارے گھر کی دیوار پر خون سے شعر نہیں لکھے گا‘ کوئی تمہارے لئے روز نہیں نہائے گا‘ کوئی اپنے باپ کی جیب سے پیسے چرا کر تمہارے لئے پھول نہیں لائے گا… کہانی ختم ہوگئی ہے!
مجھے احساس ہوگیا ہے کہ میں تو تمہارے ہی لئے بنا ہو ں لیکن تم میرے لئے نہیں بنی‘ تم میرے علاوہ جس کے لئے بھی بنی ہو اللہ اس کا بے تحاشا اور بہترین بیڑا غرق کرے۔ مجھے تمہارا وہ جملہ نہیں بھولتا جب تم نے مجھے پچھلے ویلنٹائن ڈے پر کہا تھا کہ ’اگر تمہاری بہن کو بھی کوئی پھول پیش کرے تو کیا تم برداشت کرلو گے؟‘ یقین کرو مجھے اس جملے سے بہت دُکھ ہوا تھا، جان! ہم خاندانی لوگ ہیں، ہماری لڑکیاں ایسی بے غیرتی کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔
لیکن خیر! اب اِن باتوں سے کیا فائدہ، یہ آخری خط اس لئے لکھ رہا ہوں تاکہ تمہیں پتا چل سکے کہ تم نے کتنا بڑا ہیرا ٹھکرا دیا ہے۔ یقیناً تمہاری ساری زندگی پچھتاوے کی آگ میں جھلستے ہوئے گزرے گی، تم راتوں کو اٹھ اٹھ کر میری یاد میں رویا کرو گی، تمہیں فریج، ٹی وی، صوفے، ڈائننگ ٹیبل اور چمٹے میں بھی میری ہی تصویر نظر آئے گی لیکن وقت گزر چکا ہوگا۔ تمہارا یہ عاشق منوں مٹی تلے دفن ہوچکا ہوگا، میری بس اتنی گزارش ہے کہ میرے جنازے پر ایک دفعہ ضرور آنا، بلکہ ہوسکے تو میرے جنازے کو کندھا بھی دینا‘ میری قبر بھی کھودنا اور قبر میں اتر کر لمبائی چوڑائی بھی چیک کرنا۔ تمہارا یہ عاشق تمہارا منتظر رہے گا، مرنے کے بعد بھی تمہیں میری آنکھیں کھلی ہوئی ملیں گی، ڈر کے بھاگ نہ جانا بلکہ سمجھ لینا کہ یہ آنکھیں تمہارے انتظار میں کھلی ہوئی ہیں… اور ہاں… ہر ویلنٹائن ڈے پرمیری قبر پر پھول ضرور چڑھانے آنا۔
میری شہزادی! میرے ہاتھوں میں اب بھی ڈیڑھ سو روپے والا گلدستہ ہے لیکن یہ اب کسی کام کا نہیں‘ میں اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرنے والا ہوں لیکن خدا کے لئے تم میرے جانے کی خبر سن کر اپنی زندگی کا خاتمہ نہ کر لینا‘ اگر ایسا ہوا تو میں دوبارہ مر جائوں گا۔ میراخیال ہے مجھے ’آتما ہتھیا‘ سے پہلے اس خط کے جواب کا انتظار کرنا چاہئے، اگر یہ خط بھی تمہارے دل میں جمی برف نہ پگھلا سکے تو میں یہیں بیٹھا ہوں، انتقال فرما کر ہی جائوں گا۔ اگر تم چاہتی ہو کہ میں ڈیڈ باڈی میں تبدیل نہ ہو جائوں تو پلیز اپنے موبائل سے مجھے ایک مسڈ کال دے دو‘ اگر موبائل کا بیلنس ختم ہو تو بے شک وٹس ایپ پر ہی ایک بیل دے دینا میں دس منٹ کے لئے موبائل ڈیٹا آن کر رہا ہوں۔ اگر تمہاری کال آگئی تو تمہارا یہ عاشق پھول لے کر ہوا میں اڑتا ہوا تمہارے پاس آجائے گا۔ پلیز دیر نہ کرنا ‘ میں تمہاری ملازمہ کے ہاتھ یہ خط بھیج رہا ہوں۔ ویلنٹائن ڈے پر تمہیں سارے گلے شکوے ختم کرکے میرے پھول قبول کرنے چاہئیں ورنہ دنیا تمہیں پینڈو سمجھے گی۔ زیادہ لکھے کو تھوڑا سمجھنا اور کوشش کرنا کہ آتے ہوئے روٹی پر تھوڑا سا سالن رکھ کے لے آئو‘ خود کشی کے چکر میں صبح سے کچھ نہیں کھایا… فقط‘ تمہارا مقدر۔ شکیل پریمی!

.
تازہ ترین