• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ میں اہم شخصیات میں استاد (ٹیچر) اور سائنس دان شامل ہیں۔ فرانس کی عدالتوں میں استاد (ٹیچر) کے سوا کسی کو کرسی نہیں پیش کی جاتی۔ کوریا میں کوئی بھی استاد اپنا کارڈ دکھا کر ان تمام سہولتوں سے فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ جو ہمارے ملک میں وی آئی پی، وزراء اور مشیروں کو حاصل ہیں۔ جاپان میں کسی بھی ٹیچر کو گرفتار کرنے سے پہلے حکومت سے خصوصی اجازت لینا پڑتی ہے مگر اپنے ملک میں کیا ہے یہاں پر اساتذہ کو مارا پیٹا گیا۔ کسی سابق ایم پی اے نے سرگودھا کے ایک ٹیچر کی ٹانگیں توڑ ڈالی تھیں۔ استاد کے لئے ہمارے معاشرے میں آج بھی ایک لفظ استعمال ہوتا ہے، بے چارہ ماسٹر۔ علم دینے والا اور پڑھانے والا بے چارا ہے۔ استاد جو کہ قوم بنانے اور نسلیں سنوارنے کا کام کرتا ہے وہ بے چارا ہے۔ حالانکہ ہمارے مذہب نے بھی استاد کو بہت مقام دیا ہے۔ غالباً خلیفہ ہارون رشید استاد کے جوتے پکڑتے تھے، اپنے ہاں استاد کے ساتھ معاملہ کچھ اور ہوتا ہے۔ یہ ساری باتیں آج ہمیں اس لئے یاد آرہی ہیں کہ پچھلے کچھ عرصہ سے میڈیکل پروفیشن سے وابستہ اساتذہ کی تذلیل کی جارہی ہے۔ کبھی تو ان کو کمروں میں بند کرکے وائی ڈی اے والے نعرے بازی کرتے ہیں، کبھی ان کوذہنی طور پر بے حد پریشان کیا جاتا ہے۔ کبھی ان کی ذاتی زندگی کو اچھالا جاتا ہے حالانکہ یہاں کوئی بھی دودھ کا دھلا ہوا نہیں، پھر پتہ نہیں بعض میڈیا والے لوگوں کی نجی زندگی میں کیوں دخل دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں شعبہ صحت پہلے ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ باہر کے ممالک سے اعلیٰ تعلیم و تربیت یافتہ ڈاکٹر کی تعداد پہلے ہی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس صورتحال میں اگر ان کے لئے حالات سازگار یہاں پر نہیں ہوں گے تو یہ قابل ترین ڈاکٹرز بھی ملک چھوڑ کر چلے جائیں گے اور نقصان کس کا ہوگا؟ کسی حکومت یا ایلیٹ کلاس کا نہیں، نقصان صرف اور صرف مریضوں کا ہوگا۔
ہمارے ملک میں شعبہ میڈیسن میں صرف گنتی کے چند ڈاکٹرز ہیں جن کی صلاحیتوں کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کی امراض کے بارے میں تشخیص اور علاج کو باہر کی دنیا بھی مانتی ہے۔ مگر ہمارے معاشرے میں اساتذہ کے علم، قابلیت اور اپنے شعبے میں مہارت سے زیادہ اس بات کو اہمیت دی جاتی ہے اس کی پی آر کیسی ہے؟ اس کا کن سیاسی لوگوں سے تعلق ہے؟ وہ اسٹوڈنٹس کے کتنے ناجائز کام کرتا ہے؟ کتنے فیل اسٹوڈنٹس کو پاس کر دیتا ہے؟ اور ڈاکٹروں کی مختلف تنظیموں کے ساتھ اس کے تعلقات کیسے ہیں؟۔
حال ہی میں کچھ سرکاری میڈیکل کالجوں اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ریٹائرڈ ہوئے ہیں اور ان کی اسامی کیلئے اخبارات میں اشتہارات دیئے گئے ہیں جس میں میڈیکل پروفیشن کے سینئر لوگ وی سی اور مختلف سرکاری میڈیکل کالجوں کی پرنسپل شپ کے لئے درخواستیں مانگی گئی ہیں اور ان کے انٹرویوز ہوں گے اور ان کی سلیکشن ہوگی۔ کتنی دلچسپ صورتحال ہے کہ ایک استاد میڈیکل پروفیشن میں اپنا نام اور شہرت کماتا ہے، ایسا کام کرتا ہے کہ باہر کے لوگ بھی اس کی تعریف کرتے ہیں اور پھر اس کو ریٹائرمنٹ کی عمر پر ریٹائرڈ کر دیا جاتا ہے اور دوبارہ تقرری کے لئے اس کا انٹرویو کیا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جب کوئی پروفیسر/ ڈاکٹر اپنے شعبے میں چار/ پانچ سال بطورپرنسپل / وائس چانسلر اپنی صلاحیتوں کو منوا لیتا ہے۔ تو پھر کیا اس کو پھر اسی ادارے یا کسی اور ادارے میں دوبارہ تقرری کے لئے انٹرویو دینا چاہئے؟ کیا اس کے اسٹوڈنٹس کو بھی اپنے اساتد ہ کرام کے مقابل آنا چاہیے؟ کیسا عجیب سسٹم ہے کہ آج کئی میڈیکل اداروں کے سربراہ کے لئے اخبار میں اشتہار دے کر درخواستیں مانگی جا رہی ہیں۔ انگریزوں کے دور میں ایسا نہیں تھا بلکہ آج سے چند برس قبل تک بھی ایسا نہیں تھا جو سینئر ہوتا تھا اس کو ہمیشہ پرنسپل میڈیکل کالج لگایا جاتا تھا مگر اب اخبارات میں اشتہار دیا جاتا ہے پھر انٹرویوز ہوتے ہیں، پھر تین نام وزیر اعلیٰ کو بھیجے جاتے ہیں۔ ان تین ناموں میں سے پھر مزاج یار میں جو پسند آئے۔ پھر جب ایک ادارے کا سربراہ اپنی ٹرم میں اس ادارے کے لئے مفید کام کرکے دکھا دیتا ہے تو پھر اس کو ایکسٹینشن بغیر کسی انٹرویو کے ملنی چاہیے۔ بہرحال ہمارا ہیلتھ سسٹم تجربات سے گزر رہا ہے اور نتائج کچھ زیادہ اچھے نہیں۔لیں جی پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن پھر سرگرم ہوگیا ہے صرف دو روز کی زبردست کارروائی کرکے 63غیر رجسٹرڈ کلینکل لیبارٹریوں کو سربمہر کردیا ہے۔ شکر ہے کہ اس مشترکہ کریک ڈائون میں ڈرگ انسپکٹرز نے بھی حصہ لیا۔ پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن تو چند برس قبل بنا لیکن 1947 سے لے کر اب تک اس ملک میں ہزاروں غیر رجسٹرڈ، غیر معیاری اور دو نمبر لیبارٹریز کام کرتی رہیں اور ابھی بھی کام کر رہی ہیں۔ اگر لاہور جیسے بڑے شہر میں صرف دو تین علاقوں میں پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے کارروائی کر کے 63غیر رجسٹرڈ لیبارٹریوں کو بند کر دیا ہے، تو سوچیں پنجاب کے چھوٹے شہروںاور پاکستان کے دیگر شہروں میں کیا صورت حال ہو گی۔ لیبارٹری کی ایک غلط رپورٹ سے مریض موت کے منہ میں جا سکتا ہے بلکہ ایسا ہوا بھی ہے کیونکہ رپورٹ غلط آنے سے علاج ہی غلط شروع ہو جاتا ہے۔ آج امراض کی تشخیص اور علاج میں لیبارٹری کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ہم پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے سی ای او ڈاکٹر محمد اجمل خاں کو غیر رجسٹرڈ لیبارٹریوں کے خلاف کارروائی کرنے پر خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اُن سے یہ کہیں گے کہ وہ اپنا دائرۂ کار صرف لاہور تک محدود نہ رکھیں بلکہ پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی غیر رجسٹرڈ لیبارٹریوں کے خلاف کارروائی کریں۔ دوسری طرف حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ دوسرے صوبوں میں بھی ایسی غیر رجسٹرڈ اور غیر معیاری لیبارٹریوں کے خلاف کریک ڈائون کرے۔
یہ غیر معیاری لیبارٹریاں انسانی جانوں کے ساتھ کھیل رہی ہیں۔ پھر کچھ پتہ نہیں کس لیبارٹری کے پاس وہ ضروری آلات اور مشینیں بھی ہیں یا نہیں۔! ہمارے ہاں حکومت پہلے تو گھوڑے بیچ کر سوتی رہتی ہے! پھر اچانک اسے خیال آتا ہے کہ فلاں ایکشن لینا ہے۔ شعبۂ صحت میں آج بھی بے شمار ایسے شعبے ہیں جہاں پر انقلابی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔ اب حکومت نے ڈرگ ایکٹ بنایا تو فارما انڈسٹری نے شور مچا دیا ہے۔ اَرے بھائی کبھی تو کوئی اصول، قواعد، ضوابط اور قوانین تو بنے تھے۔کبھی کسی نے اس پر سوچا کہ ہر سرکاری اسپتال کے باہر پرائیویٹ لیبارٹریوں کی ایک لمبی لائن لگی ہوئی ہے، کیوں؟ ہماری اطلاع کے مطابق بعض پرائیویٹ لیبارٹریاں سیمپل لے کر ٹیسٹ کے لئے سرکاری اسپتال کی لیبارٹریوں کو دیتی ہیں اور پھراپنے پرفارمے پر رپورٹ دے دیتی ہیں کیونکہ بے شمار پرائیویٹ لیبارٹریوں کے پاس وہ آلات اور مشینیں نہیں جو بعض سرکاری اسپتالوں کی لیبارٹریوں کے پاس ہیں اس دھندے میںاسپتالوں کا عملہ بھی ملوث ہے اور بہت کم لیبارٹریز کے پاس کوالیفائیڈ اسٹاف ہے۔

.
تازہ ترین