• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک کے مختلف حصوں میں پچھلے ایک ہفتے کے دوران بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا سبب بننے والی دہشت گردی کی نئی لہر کے جواب میں گزشتہ روز بیک وقت کئی محاذوں پر پاک فوج کی بھرپور اور نتیجہ خیز جوابی کارروائی کئی حوالوں سے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ پہلی بار پاک افغان سرحدی علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف مؤثر آپریشن سے ایک طرف موجودہ فوجی قیادت کی دہشت گردی سے نمٹنے کی جرأت مندانہ صلاحیت کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور دوسری طرف چند روز کے اندر دہشت گردی کی پے در پے سنگین وارداتوں نے قوم میں بد دلی اور مایوسی کی جو کیفیت پیدا کردی تھی، وہ ان شاء اللہ ایک بار پھر عزم و حوصلے اوریقین و اعتماد سے بدل جائے گی۔دستیاب معلومات کے مطابق ملک میں دہشت گردی کی تازہ وارداتوں میں سرحد پار عناصر کے ملوث ہونے کے مصدقہ شواہد ملنے کے بعدپاک فوج نے افغان سرحد سے متصل خیبر اور مہمند ایجنسی کے سرحدی علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے سرحد کی دوسری جانب کالعدم دہشت گرد تنظیم جماعت الاحرار کے تربیتی کمپاؤنڈ اور چار کیمپوں کو تباہ کردیا جس میں متعدد دہشت گردہلاک بھی ہوئے جبکہ ملک کے مختلف حصوں میں فوج، رینجرز اور پولیس نے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر بھرپور کریک ڈاؤن شروع کرکے سو سے زیادہ دہشت گردوں کو جہنم رسید کیا۔ سانحہ لاہور میں خود کش بمبار کے سہولت کار کی ٹھوس شواہد کی بنیاد پر گرفتاری اور اس سے ملنے والی معلومات جن سے اس کارروائی کا افغانستان سے کنٹرول کیا جانا پوری طرح ثابت ہوگیاہے، یقیناً ایک بڑی اور اہم پیش رفت ہے جو انسداد دہشت گردی کے تعلق سے مزید نتیجہ خیز اقدامات کا ذریعہ بنے گی۔ نہایت اطمینان بخش بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف تازہ اقدامات میں ملک کی سیاسی اور عسکری قیادتیں پوری طرح ہم آہنگ اور مکمل طور پر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ نظر آرہی ہیں۔ وزیر اعظم نے جمعہ کو سیہون میں اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے دہشت گردوں کے منصوبہ سازوں تک پہنچنے کو ناگزیر قرار دیا اور تمام سیکوریٹی اداروں کو زیرو ٹالرنس کی پالیسی کے تحت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام ذرائع استعمال کرنے کی ہدایت کی۔ دوسری جانب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دہشت گردو کے خلاف مؤثر اور تیز رفتار کارروائی کے ساتھ ساتھ افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن سے رابطہ کرکے انہیںاس امر واقعہ سے آگاہ کیا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال ہورہی ہے۔ جنرل باجوہ نے امریکی کمانڈر کو پاکستان کی جانب سے افغان حکام کو فراہم کی جانے والی 76 دہشت گردوں کی اس فہرست کے بارے میں بھی بتایا جو پاکستان میں ہونے والی کارروائیوں میں ملوث ہیں جبکہ پاکستان کے خلاف پرزور منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے دنیا بھر میں یہ تاثر عام ہے کہ پاکستان میں آج بھی دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں جہاں سے افغانستان کے اندر کارروائیاں کی جاتی ہیں حالانکہ آپریشن ضرب عضب نے صورت حال کو مکمل طور پر بدل دیا ہے ۔ اس تناظر میں وقت کا ناگزیر تقاضا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں کی قیادتیں پائیدار علاقائی امن کے لیے مل بیٹھیں ، ایک دوسرے کی شکائتیں کھلے دل سے سنیں ، ان کے مکمل ازالے کے لیے پوری نیک نیتی سے اقدامات اور پورے خطے کی خوش حالی کے لیے ماضی کی طرح شانہ بشانہ آگے بڑھنے کا فیصلہ کریں۔ یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ مذہب کی بنیاد پر قائم دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ محض طاقت سے ممکن نہیں، جس فکر اور فلسفے کی بناء پر ایک خود کش بمبار اس یقین کے ساتھ اپنی جان دیتا ہے کہ وہ سیدھا جنت میں جائے گا، جب تک تمام دینی مکاتب فکر کے مذہبی اسکالر اس کا متفقہ اور مسکت جواب فراہم نہیں کریں گے، اس خوں آشام رجحان کے سامنے بند نہیں باندھا جاسکے گا لہٰذا مسلم ملکوں کی حکومتوں اور مذہبی قیادت کو باہمی تعاون کے ساتھ اس سمت میں فوری اور مثبت اقدامات پر توجہ دینی ہوگی۔

.
تازہ ترین