• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر مملکت ممنون حسین کو درویش منش اور بے ضرر سمجھنے والے افراد کے لئے یہ بات باعث حیرت تھی کہ انہوں نے ایوان صدر کے ٹھنڈے ماحول میں نعرہ حق بلند کر کے نہ صرف اپنے اسٹاف کو چونکا دیا، بلکہ محفل میں موجود تمام افراد کو بھی حیران کر دیا۔ پاکستان کے آئینی سربراہ نے واضح طور پر یہ موقف اختیار کر لیا ہے کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپٹ افراد کا بلا تفریق محاسبہ نہ ہونا ہے۔ صدر مملکت نے درست کہا کہ "ہر بدعنوان اور کرپٹ آدمی کو نہ شرم ہوتی ہے اور نہ حیا ہوتی ہے"۔پاناما کیس ہو یا ایان علی کا معاملہ، محکمہ پولیس کا ہو یا کسٹمز کا، آدمی خاص ہو یا عام ۔۔۔ہر کوئی اپنی اپنی سطح پر کرپشن میں ملوث نظر آتا ہے۔حتیٰ کہ کرپشن کو اب معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا کیونکہ عزت کا معیار اب دولت مقرر ہو گیا ہے۔ آپ کی پانچ ، دس کنال کی کوٹھی، ایکڑوں پر محیط فارم ہائوسز اورمہنگی چمچماتی گاڑیاںآپ کے عزت دار ہونے کے لئے کافی ہیں ۔ تو کیا ہوا اگر یہ سب کچھ آپ نے کسی کا حق مار کر، ملکی وسائل کی لوٹ مار اور ٹیکس چوری کر کے یا پھر رشوت لے کر کمایا، پیسہ کہاں سے آیا ، آپ کے پاس منی ٹریل ہے یا نہیں اس سے آپ کی عزت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اس کی ایک مثال پچھلے دنوں پکڑے جانے والے بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی ہیں۔ جن سے اربوں روپے برآمد ہوئے لیکن ان کا کسی نے سماجی بائیکاٹ نہیں کیا۔ بلکہ ان کے بااثر رشتہ داراور دوست ان کوبچانے میں اس حد تک کامیاب ہوگئے کہ انہوں نے نیب کے ساتھ فوری طورپر معاملات طے کرلئے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ سپریم کورٹ نے نوٹس لیا کہ اگر قومی خزانے کو لوٹنے والے اس آسانی سے رہا ہوتے رہے تو پورا نظام ہی ختم ہوجائے گا۔مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک عدالت نے ہی ایان علی کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی، ایان علی کو پکڑنے والا کسٹم آفیسر منوں مٹی تلے سلا دیا گیا، جس کے قاتل کا شاید کبھی سراغ ملے گا، نہ ہی اس کے لواحقین کو انصاف۔ مگر اس سے فرق بھی کیا پڑتا ہے، ایان علی تو اپنی باقی تمام زندگی ان افراد کی طرح جن کے لئے اس نے منی لانڈرنگ کی ، عیاشی سے ہی گزارے گی۔
جس ملک کی اعلیٰ عدلیہ بھی بے بس نظر آئے اور یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ" نیب پاناما لیکس اور اربوں کے اسکینڈلز پر ہاتھ کھڑے کردیتا ہے، مگر پٹواریوں اور اساتذہ کے پیچھے لگاہے۔رضاکارانہ رقوم کی واپسی سے متعلق اختیار کے استعمال سے بد عنوانی کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے"۔۔۔" نیب ہمارے لئے وفات پا چکا ہے اور ریاستی ادارے اپنا کام نہیں کر رہے ہیںـ"۔وہاں شاید یہی درست ہے کہ کرپٹ کی عزت کی جائے ۔۔۔ اس سے آپ کی زندگی میں کوئی بہتری تو نہیں آئے گی مگر کرپشن کے خلاف آواز اٹھا کر یا کسی سرکاری محکمے میں کام کرتے ہوئے ،اپنے فرض کو خوش اسلوبی سے نبھا تے ہوئے کسی مجرم پر ہاتھ ڈال کر ، آپ کسی اندھی گولی کا شکار ہونے سے ضرور بچ جائیں گے۔
اسی لئے شاید اب معاشرے میں رشوت اور بدعنوانی محض طاقتور لوگوں تک محدود نہیں رہی۔ اس معاشرے میں نہ رشوت لینے کو برا سمجھا جاتا ہے، نہ ملاوٹ اور ٹیکس چوری کو ۔ جس کا جہاںبس چلتا ہے وہ بدعنوانی کرتا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر کرتا ہے ۔ جہاں کا نسٹیبل، ریوینیو ملازمین، کلرکوںکے پاس شادی ہال، قیمتی فلیٹس ، گاڑیاںاور سونا ہوتو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کرپشن محض سیاستدان یا بیوروکریٹس تک محدود نہیں بلکہ یہ معاشرے کا حصہ بن چکی ہے۔ جو کرپٹ نہیں اسے بے وقوف سمجھنے کا رواج اب فروغ پا چکا ہے۔
پاکستان میں سب سے بڑی لوٹ مار رئیل اسٹیٹ میں ہو رہی ہے۔ زمین ہوتی نہیں اور بیچ دی جاتی ہے۔ خرید ار عدالتوں میں دھکے کھاتے ہیں۔صدر نے یہ بھی درست کہا کہ عدالتیںاسٹے آرڈرجاری کردیتی ہیںاور کرپٹ مافیا سزا سے بچ جاتے ہیں۔اس ملک میں انسداد اسمگلنگ سے لے کر انسداد دہشت گردی تک تمام قوانین کی دھجیاں بکھرتی نظر آتی ہیں۔آپ رشوت دیکر اسلحے کا بھر ا ہواcontainer ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں اور اگر کبھی پکڑے جائیںتو گھر کا خرچ اٹھانے کے عوض اپنے کسی کارندے کو آگے کردیں اور خود دبئی چلے جائیں۔ اس اسلحہ سے کتنے ناحق لوگ جان سے جائیں،یہ نہ آپ کا سردرد ہے، نہ حکومت کااور نہ ہی ان عدالتوں کا جو آپ کو بری کریں گی۔ سرکاری ملازمین اپنے اثاثہ جات کے گوشوارے جمع کروانے کی ضرورت نہیں سمجھتے ہیں۔بے نامی کا کاروبار دھڑلے سے چل رہا ہے۔ کسی نے اپنے ڈرائیور کے نام پر کروڑوںکی سرمایہ کار ی کی ہوئی ہے، تو کسی نے اپنے مزارع کے نام پر کروڑوں روپے کا قرضہ لیا ہوا ہے۔ صدر صاحب کو یہ بھی دکھ ہے کہ ہر ادارے میں افسران نے کرپشن سے بچنے کے لئے ایک ایسا نیٹ ورک بنا رکھا ہے جس کی بنا پر نظام میں درستی ہو ہی نہیں سکتی۔عام آدمی بھی یا تو اس رنگ میں رنگ چکا ہے یا تنگ آکر اتنا بے حس ہو چکاکہ وہ اپنا حق لینے کی بجائے، سفارش اور رشوت کے ذریعے اپنا کام کروالیتا ہے۔پاکستان میں کرپشن سے مقابلہ اب محض ''Say no to Corruption'' کے بورڈ آویزاں کرنے اورایس ایم ایس بھیجنے تک محدود ہو چکا ہے۔
حساس شخصیت رضا ربانی صاحب بھی صدر مملکت کی طرح چیخ وپکار کر رہے ہیں ۔معزز سیاستدان کے نزدیک "ہم اس نظام کے تحت کام کررہے ہیں جہاں قانون لاگو ہونے کی پانچ اقسام ہیں۔ ایک قوانین وضوابط کا مجموعہ حکمران اشرفیہ کے لئے ہے، ایک حکمران سویلین طبقے کے لئے ، تیسری قسم حکمران اشرفیہ کے معاونین کی ، چوتھی امیر اور طاقتور طبقے کی جبکہ پانچویں عام پاکستانی شہری کی ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت انسداد بد عنوانی کی چھ ایجنسیاں کام کر رہی ہیں۔جن میں سے دو وفاقی اور چار صوبائی سطح پر موجود ہیں۔مگر ان کی کارکردگی کرپشن سے متعلق کیسز میں عدالتوں میں حاضری لگوانے کے علاوہ، ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ نیب نے اب تک 179کر پشن اسکینڈلز میں سے صر ف 30کیسز کے حوا لے سے تحقیقا ت مکمل کی ہیں ،جس میں سے چند کیسز بند کر دئیے گئے ہیں۔ ۔ نواز شریف، شہبا ز شر یف ،را جہ پر ویز اشر ف،یو سف رضا گیلانی، این آئی سی ایل اسکینڈل ،جے ایس بنک ا سکینڈل، رینٹل پا ورا سکینڈل ،اوگرا سکینڈل سمیت دیگر بڑے کیسز کے حوالے سے نیب نے دو سا لو ں میں چھٹی مر تبہ ڈیڈ لا ئن دی ہے۔ اسی طرح Plea Bargain اور Voluntary Return جیسی شقوں سے کئی لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔
کرپشن کا آغاز تو اس پاک سرزمین پر 1947 میں ہی ہو گیا تھا، جب کلیمز کے نام پر جائیدادیں حقداروں کی بجائے طاقتوروں نے اپنے نام کروا لیں۔اب شاید یہ ہماری عادت بن چکی ہے۔طاقتور اپنی طاقت کے نشے میں چور ہیں، امیر مزید دولت کے خواہاں اور عوام اپنی زندگی کی گاڑی گھسیٹنے کے لئے کرپشن کو ہی مسیحا سمجھنے لگے ہیں۔ اوپر سے نیچے تک کرپشن کا خاتمہ اب شاید کسی کی بھی خواہش نہیں۔ جو کرپٹ نہیں وہ شاید واقعی بے وقوف ہے۔

.
تازہ ترین