• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ پاکستان کے بااثر مال دار اور فیصلہ ساز طبقے نہیں چاہتے کہ پاکستان میں اسلامی نظام معیشت و بینکاری شریعت کی روح کے مطابق نافذ ہو اور معیشت سے سود کا خاتمہ ہو کیونکہ اس سے ان کے ناجائز مفادات پر کاری ضرب پڑے گی مگر ملک کے کروڑوں افراد کی قسمت بہرحال بدل جائے گی۔ ربٰوا (سود) کا مقدمہ گزشتہ 25برسوں سے زیر سماعت ہے جہاں شرعی عدالتوں میں عالم جج بھی موجود رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بینچ نے 23؍دسمبر 1999ء کو ربٰوا کے مقدمے میں ایک تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا جس پر عملدرآمد سے اسلامی نظام بینکاری کے نفاذ کی طرف تیزی سے پیشرفت ہو سکتی تھی۔ ہم نے بھی اس مقدمہ میں سپریم کورٹ کی معاونت کی تھی۔ اس فیصلے کو پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب سپریم کورٹ نے جون 2001میں یہ فیصلہ دیا کہ دسمبر 1999میں دیئے گئے فیصلے پر عمل درآمد کی مدّت جون 2001سے بڑھا کر 30؍جون 2002ہو گی لیکن توسیع کا فیصلہ دینے سے پہلے حکومت سے یہ تحریری یقین دہانی حاصل نہیں کی کہ وہ دسمبر 1999کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں اور جون 2002تک اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔ بلکہ فیصلے میں یہ لکھا کہ ہمیں حکومت کے خلوص پر شبہ نہیں ہے حالانکہ ہم لکھ چکے تھے کہ حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اس فیصلے پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ پھر سپریم کورٹ نے جس میں دو عالم جج بھی شامل تھے حیرت انگیز تیز رفتاری سے 30؍جون 2002کی مدّت ختم ہونے سے چند روز پہلے سود کو حرام قرار دینے کے فیصلے کو ہی منسوخ کر کے مقدمہ ازسرنو سماعت کیلئے دوبارہ وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دیا جو پہلے ہی 14؍نومبر 1991کو سود کو حرام قرار دے چکی تھی۔ اب 25برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود شرعی عدالتیں یہ حتمی فیصلہ نہیں دے سکیں کہ موجودہ بینکنگ سود اسلام میں حرام ہے یا نہیں؟ وفاقی شرعی عدالت جس میں عالم جج بھی موجود ہوتے ہیں، نے 14برس سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود فیصلہ ہی نہیں دیا۔ کچھ عرصہ قبل اسٹیٹ بینک نے موجودہ حکومت کے دور میں شرعی عدالت میں یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ اسلام میںموجودہ بینکنگ سود حرام نہیں ہے حالانکہ اسٹیٹ بینک میں ایک ڈپٹی گورنر برائے اسلامک بینکنگ تعینات ہیں اور اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ کے چیئرمین ایک ممتاز ترین عالم دین ہیں۔
ایک اور انتہائی تشویشناک بات یہ ہے کہ 4؍ستمبر 2001کو ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں یہ قطعی غیر اسلامی فیصلہ کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عمل نہیں کیا جائے گا جس کے مطابق 30؍جون 2002تک اسلامی بینکاری مکمل طور سے نافذ ہونا ہے بلکہ بینکاری کا متوازی نظام نافذ کیا جائے گا یعنی ملک میں سودی بینک اور روایتی بینک غیر معینہ مدّت تک ساتھ ساتھ کام کرتے رہیں گے چنانچہ سودی نظام کو دوام مل جائے گا۔ اس بات کے مستند دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ اس غیر اسلامی اور سودی نظام کو دوام بخشنے والے اس فیصلے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین جو عالم دین بھی ہیں، اس کونسل کے کچھ ممبران، ایک ممتاز عالم دین جو سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بینچ میں عالم جج کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے تھے اور بعد میں اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ کے چیئرمین بھی رہے اور اسٹیٹ بینک کے سابق اور اس وقت کے گورنر بھی شامل تھے۔ یہ بات بھی نوٹ کرنا اہم ہے کہ سپریم کورٹ کے عالم جج کی حیثیت سے اسلامی نظام بینکاری کے نفاذ کیلئے صرف جون 2002تک مہلت دینے والے محترم عالم دین جو اسلامی بینکاری کے مسائل کو سمجھتے ہیں اب 2017میں بھی اسٹیٹ بینک کے شریعہ بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے غیر اسلامی متوازی نظام بینکاری کے غیر معینہ مدّت تک جاری رہنے کے عمل میں فیصلہ کن کردار ادا کر رہے ہیں جس سے سودی نظام کو دوام مل رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ پاکستان میں سب سے پہلے ہم نے کہا تھا کہ (الف) پاکستان نے متوازی بینکاری کا جو نظام نافذ کیا ہے وہ غیر اسلامی ہے۔ (ب) اسلامی بینک بھی سودی بینکوں کی طرح اپنے کھاتے داروں کا استحصال کر رہے ہیں اور اس متوازی نظام کی موجودگی میں اگر کبھی چاہیں بھی تو اس استحصال کو ختم نہیں کر سکیں گے۔ (ج) ان فیصلوں سے جن میں علماء بھی شامل رہے ہیں، پاکستان میں سودی نظام کو دوام مل گیا ہے (د) پاکستان میں کام کرنے والے اسلامی بینکوں کو اسلامی بینک کہا ہی نہیں جا سکتا۔ گزشتہ 10برسوں میں ان حقائق کو وقتاً فوقتاً ہم مروّجہ اسلامی بینکاری کی خامیاں بتلاتے ہوئے اصلاحی تجاویز بھی دیتے رہے ہیں۔ علماء اور ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اسلامی بینکاری کا نظام نفع و نقصان میں شرکت کی بنیاد پر استوار ہو گا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں معیشت دستاویزی نہیں ہے، کالے دھن کا حجم بہت زیادہ ہے، کرپشن عام ہے، ٹیکسوں کا نظام غیر منصفانہ ہے اور افراد اور ادارے عموماً اپنا صحیح منافع ظاہر نہیں کرتے چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ عبوری مدّت میں اور مجبوری کی حالت میں مرابحہ و اجارہ وغیرہ کا طریقہ استعمال کیا جائے اور مشارکہ کے ذریعے سرمائے کی فراہمی بڑھائی جائے لیکن اس اجازت کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہوا اور اب ’’عبوری‘‘ کا لفظ حذف کر دیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے مندرجہ بالا معاملات میں بہتری کیلئے اصلاحی اقدامات اٹھانے کے بجائے وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے سود کے مقدمے کا 14برس تک فیصلہ نہ آنے کی وجہ سے جو وقت ملا اس میں ملکی معیشت، سودی و اسلامی بینکاری کو جس طرح چلایا گیا، ملک کے داخلی قرضوں کو جس تیز رفتاری سے بڑھایا گیا اور ٹیکسوں کے نظام کو اتنا بگاڑا گیا کہ ملک میں اسلامی بینکاری کیلئے ماحول مزید معاندانہ ہو گیا۔ وزارت خزانہ بھی اس بات سے اتفاق کرے گی کہ اس صدی کے آخر تک بھی پاکستانی معیشت سے سود کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
یہ امر تشویش ناک ہے کہ گزشتہ برسوں میں اسلامی بینک بھی بڑے پیمانے پر سودی کاروبار میں ملوّث ہو گئے ہیں۔ چند حقائق یہ ہیں:
(1) ہم نے 22؍اکتوبر 2015کے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ مولانا تقی عثمانی کی سربراہی میں مکوک کی بیع مؤجل پر مبنی ایک نئی پروڈکٹ کی منظوری دی جس کے تحت 200ارب روپے سے زائد رقوم پر اسلامی ملکوں کو ملنے والی آمدنی سودی آمدنی تھی چنانچہ اسلامی بینکوں نے اس آمدنی میں سے جو منافع اپنے کھاتے داروں کو دیا تھا وہ سود ہی تھا۔ (2) بیشتر اسلامی بینکوں نے ’’جاری مشارکہ‘‘ کے نام سے ایک نئی پروڈکٹ متعارف کرائی ہے جس میں بلاشبہ سود کی آمیزش ہے مگر علماء خاموش ہیں۔
(3) بینک اسلامی کے 2015کے آڈٹ شدہ سالانہ گوشوارے میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے ایک سودی بینک کو خرید کر اس کا انتظام سنبھال لیا ہے اور سودی بینک کو اپنے اندر ضم کرنے سے جو غیر معمولی حالات پیدا ہوئے ہیں ان کی وجہ سے بینک اسلامی کے شریعہ بورڈ نے اجازت دی ہے کہ 6ماہ تک اس سودی بینک کی آمدنی و اخراجات کو بینک اسلامی کی کتابوں میں ’’قرطینہ‘‘ میں رکھیں۔ شریعہ بورڈ کے اس غیر اسلامی فیصلے پر اسٹیٹ بینک کا شریعہ بورڈ اور علماء و مفتی خاموش ہیں۔ بینک اسلامی کے شریعہ بورڈ کے اس غیر اسلامی فیصلے کی تفصیلات کا تو یہ کالم متحمّل نہیں ہو سکتا۔ بینک اسلامی ایک منافع بخش بینک تھا اور اس نے ایک سودی بینک صرف اس لئے خریدا کہ آنے والے برسوں میں اس کا کاروبار اور منافع یقیناً بڑھے گا۔ اب خدشہ یہ ہے کہ سود سے اجتناب کرنے والے تجارتی و مالیاتی ادارے اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا منافع بڑھانے کیلئے کم از کم ایک مرتبہ سودی بنیاد پر قرضہ لے سکتے ہیں۔ ہم دعاگو ہیں کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قابل احترام علماء و مفتیان کرام اور ماہرین اس انتہائی اہم معاملے پر اپنی آرا اور فتویٰ دے کر اپنی دینی ذمہ داری پوری کریں۔

.
تازہ ترین