• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل) کیلئے شاندار کامیابی بہت سے عیاں اور پنہاں نتائج کی حامل ہے۔ جیسا کہ توقع تھی، اس نے نہ صرف ملک میں کرکٹ کی سرگرمیوں، جیسا کہ سٹی لیگز، باصلاحیت کھلاڑیوں کی تلاش اور کرکٹ کی ترویج کرنے والی اکیڈمیوں کے قیام، کو تحریک دی بلکہ اس کی وجہ سے کھیل کود کی دیگر سرگرمیاں بھی فعال ہوگئیں۔ ہاکی ، اسکواش اور کبڈی کی لیگز شروع کرنے کا پلان بھی بننے جارہا ہے ۔ حتیٰ کہ فٹ بال اور ہاکی کے کلب بھی غیر ملکی کھلاڑیوں کواپنی ٹیموں میں شامل کرکے میدان میں آنے کی کوشش میں ہیں۔
پی ایس ایل کی چھٹی ٹیم کے لئے مالیاتی اور عوامی دلچسپی آسمان کو چھورہی ہے ۔ چھٹی ٹیم کے میدان میں آنے سے مسابقت اورمقابلے کی دوڑ میں مزید شدت آجائے گی۔ اس کی وجہ سے نہ صرف مزید عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی پی ایس ایل کا حصہ بنیں گے بلکہ مزید اسپانسر، شائقین اور اشتہاری کمپنیوں کا تعاون بھی حاصل ہوگا۔ پی ایس ایل کی سب سے اہم کامیابی، جسے اس کا طرۂ امتیاز بھی قرار دیا جاسکتا ہے، وہ پاکستان میں کرکٹ کی واپسی، ہر خاص و عام کی کرکٹ میں والہانہ دلچسپی اور پرجوش شائقین سے بھرا ہوا اسٹیڈیم اور ملک پر طاری ایک وارفتگی کی سی کیفیت تھی ۔ اگلے ستمبر میں پی سی بی پاکستان میں آئی سی سی کی ٹیم کی میزبانی کرے گا۔ اس سے آٹھ سالوں کے تعطل کے بعد ملک میں عالمی کرکٹ کی سرگرمیاں شروع ہوجائیں گی۔
بدقسمتی سے اس واقعہ سے اجاگر ہونے والا ایک پریشان کن پہلو بھی ہے ۔ پی ایس ایل کی وجہ سے ملک میں سیاست دانوں، جو اس موقع سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے اپنی سیاسی دکان چمکانا چاہتے تھے، کے درمیان بیان بازی کی جنگ شروع ہوگئی۔ حکمران جماعت، پی ایم ایل (ن) جو پانا مہ لیکس کی وجہ سے بد دلی کا شکار تھی،عوام میں اپنی مقبولیت بڑھانا چاہتی تھی۔جلد ہی اسےاس بات کا احساس ہوا کہ روز مرہ کے مسائل اور پریشانیوں سے عوام کی توجہ کا رخ موڑنے کے لئے اچھے معیار کی اسپورٹس بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔لیکن یہی وجہ مخالف سیاسی جماعتوں میں بے چینی اور غصہ پیدا کرنے کا باعث بنی۔ خاص طور پر پی ٹی آئی نے پی ایس ایل کا مرتبہ گرانے اور اس کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔
اہمیت کا حامل معاملہ دوسرے کسی بھی مہنگے کھیل کے ایونٹ کی طرح بکیز،جواریوںاور میچ فکسرز کا پی ایس ایل کی طرف متوجہ ہو نا ہے۔اس واقعہ سے کرپشن کا بیج بوئے جانے کے بعد لیگ اور پا کستان کر کٹ بورڈ کی شہرت داغدار ہونے کا اندیشہ ہے۔ماضی میں جب ایسے واقعات نے انٹرنیشنل میچز میں سر اٹھایا توپی سی بی نے پاکستانی کھلاڑیوں کے ملوث ہونے پر ہمیشہ لاپروائی برتنے اور ڈھیل دینے کا رویہ اپنائے رکھا۔ اس حقیقت کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی موجودہ انتظامیہ نے فوری کارروائی کر تے ہوئے برائی کو ابتدائی مرحلے پر ہی ختم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن غیر ذمہ دار،بے خبر اور ضرورت سے زیادہ تیز میڈیا پاکستان کر کٹ بورڈ کی کیس کے مکمل حقائق کو تلاش کر نے اور گمراہ کرکٹر کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی کوشش پر جھوٹے الزامات لگانے اور کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
اسی دوران وفاقی حکومت نے لالچی کھلاڑیوں کے خلاف عوام کے غم وغصے پر رد عمل دیتے ہوئے ایف ا ٓئی اے کو تحقیقات کرنے کے احکامات جاری کئے۔اس سے یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا زیادہ لوگوں کے ایک معاملے کو حل کرنے کی کوشش اسے مزید خراب کرے گی یا پی سی بی اور ایف آئی اے مل کر مسئلے کو جڑ سے ختم کر دیں گے۔پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ کے وضع کردہ اصول اور طریقہ کار ایسے معاملات میں فعال ہو جاتے ہیں۔تحقیقات ،شو کاز نوٹسز اور قانونی کارروائیوں پر میڈیا کی بے چینی مناسب نہیں۔پی سی بی اور ایف آئی اے اب مشترکہ طریقہ کار پر کام کریں گے جس میں پی سی بی کھلاڑیوں کے خلاف بین الاقوامی قانون کے مطابق کارروائی کرے گا ،جس کا نتیجہ کرکٹ کھیلنے پر تاحیات پابندی کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔کرکٹ بورڈایف آئی اے کے ساتھ کام کرتے ہوئے کھلاڑیوں کے بکیزکے ساتھ روابط معلوم کرے گا جو ان پر جرم ثابت کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔
یہ ناگزیر ایشو جلد بازی میں نمٹایا جانے والا نہیں ہے۔کچھ اور کرکٹر ز کو بھی پی سی بی کی جانب سے سوالات اور قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ان کڑے اقدامات کی حکمت اور وقت پرتنازع ہو سکتا ہے جوٹاپ کے قومی کرکٹر کیساتھ نئے ابھرنے والے ستاروںکے امیج کوبھی خراب کرینگے ۔بے شک یہ معاملہ قومی کرکٹ ٹیم کے مورال میں کمی لا ئے گا اورجس کے نتیجے میں اسے بین الاقوامی دوروں کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اس سے عوام کے طیش میں مزید اضافہ ہوگا۔ لیکن ان تمام مصلحتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ وقت پی سی بی کے لئے مشکل فیصلہ کرنے کا ہے۔موجودہ انتظامیہ کو بے خوفی سے قدم اٹھاتے ہوئے گند کو قالین کے نیچے چھپانے کی بجائے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہو گا تاکہ مسئلے کو بگڑنے سے بچایا جاسکے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر سخت فیصلے جلد کر لئے جاتے توعبرت حاصل کرتے ہوئے موجودہ مسائل سے بچا جاسکتا تھا۔
اس سلسلے میں میڈیا با خبر اور ذمہ دار رہتے ہوئے پی سی بی میں اصلاحات لانے اور کھلاڑیوں میں آگاہی پیدا کر کے مثبت اور مدد گار کردار ادا کر سکتا ہے۔اس کو پی سی بی کی طرف اپنے رویے اور رسائی کو بہتر کرنا ہوگا۔اس وقت میڈیا کو سابق کھلاڑیوں ،پی سی بی کے سابق چیئر مینز اور آفیشلز سے منفی کمنٹس حاصل کرنے سے گریز کرنا چاہئے جو خود کرپشن کے الزامات پر باہر نکالے گئے یا پی سی بی کو بلیک میل کر کے ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کر تے رہے ہیں۔ایسے لوگ اپنے مفادا ت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ انہیں کھیل کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔میڈیا کو پی سی بی کے ترجمان سے بھی تصویر کا دوسرا رخ حاصل کرنا چاہئے بجائے یہ کہ انہیںہر معاملے میں بے بس سمجھا جائے۔
کرکٹ قوم کا جذبہ اور عزت کا باعث ہے۔اسے تمام اسٹیک ہولڈرز یعنی کھلاڑیوں ،انتظامیہ اور میڈیا کی جانب سے ذمہ داری ،عزت اور ایمان داری کے ساتھ قومی سطح پر توجہ کی ضرورت ہے۔خاص طور پر پی سی بی کو اس میں موجود غلاظت کو صاف کرنے اور کھیل کے بہتر منتظموں کو بھرتی کرنے کی پالیسی اپنانی ہوگی۔کرکٹ کی واپسی اور اس کے معاملات میں بہتری لانا قومی مفاد میں ہے ۔ اسے سیاسی ایشو بنانے سے گریز کیا جانا چاہئے۔



.
تازہ ترین