• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ جو حسین حقانی ہے نا، اسے پھلجھڑیاں چھوڑنے میں بہت مزہ آتا ہے، وہ بیٹھے بٹھائے ایک پھلجھڑی چھوڑ دیتا ہے اور پھر دور بیٹھ کر تماشا دیکھتا ہے، بھلا کیا ضرورت تھی اسے وہ مضمون لکھنے کی جس نے خدا جانے کس کس کی نیندیں اڑا دی ہیں، اب وہ کہتا ہے کہ ’’میں نے اس مضمون میں کوئی نئی بات نہیں کی ہے، وہی لکھا ہے جو سب جانتے ہیں۔‘‘ حالانکہ وہ خود بھی جانتا ہے کہ وہی بات تو سب سے زیادہ چبھتی ہے جو سب جانتے ہیں، آپ میمو گیٹ کا تماشا ہی یاد کر لیجئے۔ کہا گیا کہ اس نے کوئی میمو لکھا ہے جو نہایت ہی خطرناک ہے، اس میمو کو منصور اعجاز نامی ایک شخص لے اڑا، کیا ہاہا کار مچی اس پر، منصور اعجاز، جسے کوئی بھی نہیں جانتا تھا، اچانک ہمارا ہیرو بن گیا۔ معاملہ عدالت تک پہنچ گیا، منصور اعجاز کے بیان لینے کے لئے ہمارے بڑے بڑے افسر وہاں جا پہنچے جہاں اس شخص نے انہیں بلایا۔ اس لئے کہ وہ صاحب پاکستان تشریف لانے کی زحمت گوارا نہیں کر سکتے تھے، اب ذرا یاد کیجئے کتنا عرصہ ہو گیا ہے اس قصے کو؟ یہ مقدمہ ابھی تک عدالت میں پڑا ہے۔ البتہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حسین حقانی کو سفیر کے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اب وہ لکھنے لکھانے اور پڑھنے پڑھانے میں مشغول تھا کہ اس نے ایک ایسا مضمون لکھ دیا جس نے جلتی پر تیل چھڑک دیا ہے۔ اب ہم سب اس آگ کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔
اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ حسین حقانی کو امریکہ کی نئی حکومت سے تعلقات بنانا تھے اس لئے اس نے یہ مضمون لکھ کر گویا ملازمت کی درخواست دی ہے۔ یہ بات کوئی اور نہیں خود پیپلز پارٹی کے لوگ کہہ رہے ہیں، ہو سکتا ہے یہی بات ہو لیکن اس مضمون میں تو امریکہ کی نئی انتظامیہ کو یہ یاد دلایا گیا ہے کہ اگر صدارتی الیکشن کے دوران سفارتی ذرائع نے روس کے ساتھ رابطہ کیا تھا تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے، کیونکہ اپنی سفارت کے زمانے میں اسامہ بن لادن کے سلسلے میں اس نے بھی امریکیوں سے رابطے کئے تھے۔ اس نے یہ لکھا اور ایک طوفان ابل پڑا۔ ہمیں یاد آ گیا کہ حسین حقانی نے اپنے زمانے میں سینکڑوں امریکیوں کو ویزے جاری کئے تھے۔ مگر ہم اس سوال پر غور کرنا بھول گئے کہ اسامہ اس وقت ایبٹ آباد میں کیا کر رہا تھا؟ اور ہم اپنی ناک کے نیچے اس کی موجودگی سے لاعلم کیوں تھے؟ ایک دو دن، ایک دو ہفتے نہیں بلکہ وہ برسوں سے وہاں رہ رہا تھا۔ اور ہمیں کچھ بھی معلوم نہیں تھا، یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا اسامہ ہمارا دوست تھا یا دشمن؟ اگر دوست تھا تو حسین حقانی نے واقعی بہت بڑا جرم کیا کہ ان امریکیوں کو ویزے دیئے جنہوں نے ہمارے دوست کو تلاش کر کے اسے مروا دیا۔ اس پر واقعی اسے سزا ملنا چاہئے، لیکن ہم تو کہتے ہیں کہ اسامہ ہمارا دشمن تھا۔ اس نے جہاں ہمارے ملک میں دہشت گردی پھیلائی وہاں دنیا بھر میں ہمیں بدنام بھی کیا۔ اب اس بات پر کو ئی غور نہیں کرتا کہ اگر وہ واقعی ہمارا دشمن تھا تو جن امریکیوں کو ویزے دیئے گئے انہوں نے وہ کام کر دیا جو ہمیں کرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے ہمارے دشمن کا سراغ لگایا۔ اگر یہ امریکی اس کا سراغ نہ لگاتے تو کیا ہم اسامہ تک پہنچ سکتے تھے؟ اس کا اعتراف اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے بھی کیا تھا، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں کہ انہوں نے ویزے جاری کرنے کی اجازت دی تھی، حسین حقانی کا کہنا ہے کہ جو بھی ویزے دیئے گئے اس کے لئے واشنگٹن کے سفارت خانے میں موجود حساس اداروں کے افسروں سے اجازت لی گئی تھی، ایسے ویزے ان کی اجازت کے بغیر دیئے ہی نہیں جا سکتے۔ لیکن ہم کہہ رہے ہیں کہ ان ویزوں کی وجہ سے ہزاروں امریکی ایجنٹ ہمارے ملک میں دندناتے پھرتے تھے، لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ امریکی ایجنٹ کب ہمارے ملک میں دندناتے نہیں پھرتے تھے؟
بہرحال یہ ایسا معاملہ ہے جس کے لئے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اسے کسی کمیشن کے سپرد کر دیا جائے۔ وہ کمیشن اس کی تحقیقات کرے کہ حسین حقانی نے کس اختیار سے یہ ویزے جاری کئے؟ اور کیا اس کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ یہ ویزے ملٹری اتاشی وغیرہ کی تصدیق کے بعد دیئے گئے؟ لیکن جب کمیشن کا ذکر آتا ہے تو یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ ایک ایبٹ آباد کمیشن بھی تو بنایا گیا تھا۔ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ اسامہ ایک عرصے سے ایبٹ آباد میں کیا کر رہا تھا؟ وہاں اسے کس نے پناہ دے رکھی تھی؟ اور یہ کہ جب امریکی ہیلی کاپٹروں نے ہماری سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسامہ کے مکان پر حملہ کیا تو ہمیں پہلے اس کی خبر کیوں نہیں ہوئی؟ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ بھی پیش کر دی تھی۔ اس رپورٹ کو بھی کافی عرصہ ہو گیا ہے۔ یہ رپورٹ کہاں ہے؟ اسے ہمارے سامنے کیوں نہیں لایا جا رہا ہے؟ ہمارا تجربہ تو یہ ہے کہ اس قسم کی رپورٹوں کو کبھی سامنے نہیں لایا جاتا، اس لئے سوال کیا جا رہا ہے کہ اگر حسین حقانی کے جرائم معلوم کرنے کے لئے کوئی کمیشن بنایا گیا تو کیا اس کی رپورٹ کا بھی وہی حشر نہیں ہو گا جو پہلے والی رپورٹوں کا ہوتا رہا ہے۔ اس لئے کہ اس میں بہت سے بھید کھل جائیں گے، ہمیں تو یقین ہی نہیں آرہا ہے کہ ایسا کوئی کمیشن بنایا بھی جائے گا، اب یہ بھی دیکھ لیجئے کہ کوئٹہ میں عدالت پر حملے، اور اس حملے میں کئی سینئر وکیلوں کی وفات پر قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جو کمیشن بنایا گیا تھا اس کی رپورٹ نے کتنی آگ لگائی ہے۔ اس لئے کہ وہ رپورٹ ہمارے سامنے آ گئی تھی، اگر سامنے نہ آتی تو کچھ بھی نہ ہوتا، سب خاموش رہتے، خیر، حسین حقانی کے جرائم کی تحقیقات ضرور ہونا چاہئیں، اس لئے کہ حسین حقانی کے انکشافات نے___اگر وہ واقعی انکشافات ہیں___ ہماری نیندیں حرام کر دی ہیں، اور اسے اس جرم کی سزا دینا چاہئے کہ اس نے پاکستان کے سب سے بڑے دشمن کا سراغ لگانے میں مدد کی تھی۔

.
تازہ ترین