• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زندہ باد زندہ باد۔ اے محبت زندہ باد۔ یہ شہرۂ آفاق اردو فیچر فلم ’’مغل اعظم‘‘ کے اس گانے کا بول ہے جو برصغیر کے سحر انگیز فلمی گلوکار محمد رفیع لاہوری نے گایا اوردلیپ کمار (یوسف خان پشاوری) پر فلمایا گیا تھا۔ ویسے تو ’’مغل اعظم‘‘ کا ہر گیت ہی جرات عاشقی میں رنگا ہوا ہے، لیکن ’’اے محبت زند ہ باد‘‘ اور ’’جب پیار کیا تو ڈرنا کیا‘‘ نے تو پاک و ہند کی اٹھتی اور مبتلائے محبت جوانیوں میں جیسے ہلچل مچا دی تھی۔ اصل میں زندہ باد والا گیت تومغل شاہی خاندان کے دبدبے اور اس کی روایت پرستی کے خلاف خود شہزادہ سلیم (دلیپ کمار) کا کھلا علم بغاوت تھا جو شہزادے کی درباری کنیز (مدھو بالا) سے اس سچی محبت کی ترجمانی تھی جسے جیتنے کے لئے شہزادہ سلیم نے اپنے مغفل اعظم (پرتھوی راج) باپ کی اس دھمکی کو اعلانیہ جوتے کی نوک پر لکھا کہ ’’اگر اس نے شاہی خاندان کی روایت کی پروا نہ کرتے ہوئے کنیز (انار کلی) سے محبت ترک نہ کی تو وہ اپنے لئے تیار تخت و تاج سے محروم ہو جائے گا۔‘‘ ایک طرف بادشاہ باپ کی مسلسل دھمکیاں اور غصہ، دوسری جانب شہزادہ کا ’’اے محبت زندہ باد‘‘ جیسا جاندار رسپانس جو اتنا اثر انگیز باغیانہ گیت بنا کہ انقلابی ترانےکی طرز پر گایا گیا یہ فلمی گیت انڈو پاک کے گلی کوچوں میں عام ہوا تو 60کے عشرے کے مبتلائے عشق نوجوانوں کو لگا کہ یہ ان کے دل کی گہرائی سے نکلی آواز ہے۔ یوں وہ محبوبہ کے حصول کے لئے پرعزم ہونے سے آگے جیسے سچی محبت کے علمبردار بن گئے۔ دوسری جانب محبوبائوں کی بیباکی پیار کیا کوئی چوری نہیں، کے حق اور سچ میں ڈھل گئی۔ مغل اعظم جیسے شہنشاہ کے احکامات کے خلاف باغیانہ بول، وہ بھی رفیع کے مخصوص مردانہ لہجے کی دھمک اور اس میں اس کی گائیکی کے مخصوص سوز کا ملاپ، جس نے ’’اے محبت زندہ باد‘‘ میں اتنا جادو بھر دیا تھا کہ اس کے مقابل شہنشاہ ہند کا دبدبہ دبدتا معلوم ہوا اور وہ جھنجھلا ہٹ میں مبتلا ہوتا گیا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ مغل اعظم کے دربار میں پلی شہزادہ سلیم اور انار کلی کی المیے میں ڈھل جانے والی داستان محبت کے تاریخی تناظر میں آج کے ’’آئین نو‘‘ کا عنوان ’’اے کرپشن زندہ باد‘‘ کیوں؟ پھر محبت اور کرپشن کا کیا تعلق ؟ قارئین کرام! نجانے آپ کی اس ضمن میں کیا رائے اور تجزیہ ہے۔ میرا تو کئی تجزیہ کاروں کی سی ہی رائے ہے کہ کرپشن اور محبت میں گہرا تعلق بنتا ہے۔ کرپشن کرنے والے حاکم اس طرح کرپشن کے بغیرنہیں رہ سکتے جس طرح عاشق محبوبہ کی محبت ترک نہیں کرسکتا، گویا ’’لگن‘‘ کا درجہ یکساں ہے۔ سو جیسے ہی 2014 میں آپریشن ضرب عضب شروع ہوا تو کراچی کے کریک ڈائون میں گرفتار ہونے والے چھوٹے چھوٹے وار لارڈز کی پشت پناہی اپنی اپنی سیاست جماعت کے بے پناہ مالدار لیڈروں اور صاحبان اقتدار کی طرف سے انہیں مستقلاً مالی امداد کے شواہد ملنا شروع ہوئے تو کرپشن اور ’’دہشت گردی‘‘ کے عنوان سے ’’آئین نو‘‘ میں تعلق کا جائزہ لیا گیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ مال حرام کے بغیر دہشت گردی ہو نہیں سکتی اور ہر دومیں ٹھیک ٹھاک تعلق بنتا ہے۔ کراچی آپریشن سے واضح ہو ہی گیا کہ سب سے بھاری بھر کرپشن (462ارب کی) کے ملزم ڈاکٹرعاصم صرف کرپشن کے ملزم ہی نہیں ان پر دہشت گردوں کے علاج معالجے کا الزام بھی عائد ہوا، اسی طرح لیاری وار گینگز میں سے ایک وار لارڈ عزیر بلوچ کا تعلق کرپشن اور ٹارگٹ کلنگ دونوں سے نکلا اور یہ دونوں ملزم کرپشن میں لتھڑے اسٹیٹس کو کے نامی گرامی سیاست دانوں کے فرنٹ مین قرار پائے۔ محبت اور کرپشن کا ایک تعلق یہ بھی ہے کہ کرپٹ حکمران اور بڑے بڑے وائٹ کالر بابو بیوی کے اکسانے اور حب اولاد میں بھی کرپشن کا فتنہ پالتے ہیں۔ وہ دل میں اعتراف کر چکے ہوں گے کہ ہماری خودساختہ جلاوطنی جسے ہم نے تمام تر آسودگی کے ساتھ بھی مظلومیت میں تبدیل کیا اصل میں ہماری اسی مار دھاڑ گورننس اور بے حساب کرپشن کا شاخسانہ ہے ۔ اوپر سے تبدیلی کی علمبردار نئی سیاسی قوت نے بھی احتساب اور خاتمہ کرپشن کو سیاسی ابلاغ میں غالب کرنے میں زبردست کامیابی حاصل کر لی ۔خود عوام جو این آر او پر ایک قلم کی جنبش سے ہزارہا قرض خود ٹیکس چور اور منی لانڈرز کے دھل دھلا کر پھر قابل قابض اقتدا ر واختیار ہونے پر ہکابکا تھے بڑی بیباکی سے تبدیلی کی سدا بلند کرنے لگے اور ان کی اسٹیٹس کو کو اکھاڑ پھینکنے کی تمنا اسی درجے پر آگئی جتنی اہل دل کی محبت اور عوامی خزانہ لوٹنے والوں کی بدستور کرپشن کی لگن سے ہے ۔بحالی جمہوریت( 2008)کے بعد سے خان اعظم عمران خان نے کرپشن کے خلاف اپنے غصے اور اسے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہار اسی طرح کیا جتنا مغل اعظم جلال الدین اکبر نے شہزادہ سلیم کی محبت کے خلاف کیا۔ گویا پاکستان میں اسٹیٹس کو کے علمبردار جنہوں نے عوامی تحریک سے شروع کرائی بحالی جمہوریت، آئین کی اصل صورت میں اختیاریت کے باوجود ’’اے محبت زندہ باد‘‘ کے مقابل ’’ اے کرپشن زندہ باد کا نعرہ ہی نہیں ایکشن جاری رکھے اور این آر او کو کفارہ ادا کرنے کا ذریعہ بنانے کی بجائے پھر کرپشن کو انتہا پر پہنچا دیا۔ سومفاہمت ڈاکٹرائن، باری بار ی کی ’’حکمت ‘‘ اور ارب کھرب پتیوں کو ہی غیر قانونی مراعات یافتہ طبقے پر لنڈھانے والی ترقی کے انڈے بچے، پاناما پر اٹھنے والے چبھتے سوالوں کا لاجواب دفاع 462ارب کی کرپشن، حج اسکینڈل کے مظلوم اور شرجیل اور ایان جیسے معصوم ملزمان کی رہائی، پی آئی اے اور ریلوے کی تباہی پاکستان اسٹیل ملز میں 22ارب کی کرپشن، ایفی ڈرین اور واٹر بورڈ کی کرپشن رینٹل پاور اور آئی پی پیز کی ادائیگی میں 170ارب کی بے قاعدگیوں کی آئوٹ نشاندہی کے باوجود ادائیگی اور کروڑوں بے اسکول بچوں اور اجڑے اسپتالوں کے مقابل انتہائی محدود فائدے کے مشکوک ترقیاتی منصوبوں کی شکل میں ہم غریبوں کو ڈرا رہے ہیں اور ہم بچوں کے لئے فکرمند کہ خاندانی بادشاہت ، 9سالہ بحالی جمہوریت کا ایک اور بڑا نتیجہ سر چڑھتا جا رہا ہے ۔اوپر سے ہر ’’منافع بخش ‘‘ ادارے میں الوئوں کے ڈیرے اور اس پر عدلیہ کی برہمی۔اللہ خیر !تبدیلی کے نعرے انار کلی کی طرح دیوار میں چنوا کر دفن نہ کر دیئے جائیں اور اے محبت زندہ باد کا نعرہ بلند کرنے والے کو کوئی نور جہاں نہ مل جائے جسے وہ تبدیلی ہی سمجھتا رہے مجھے تو مسلسل ’’اے کرپشن زندہ باد‘‘ کے نعرے سنائی دے رہے ہیں اللہ کرے بس کان ہی بج رہے ہوں ۔



.
تازہ ترین