• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گاہے گاہے پختونوں کی تاریخ و تمدن، سیاست و سیادت پر اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں طبع آزمائی کامقصد فقط اہل وطن کو ان سے روشناس کرانا ہوتا ہے۔ ہم سب ایک دوسرے کو جانتے و مانتے ہیں، تاہم افغان (سوویت یونین، امریکا) جنگ تا امروز اس پورے خطے میںچونکہ پختون ہی مشق ستم بنے نظر آتے ہیں۔ اسلئے لوگ اور جاننا چاہتے ہیں۔ لہٰذاہم حالات حاضر ہ کے تناظر میں کبھی کبھی وہ معلومات جو تاریخ کےاساتذہ کی دین ہیں، قلم سے کاغذ پر منتقل کردیتے ہیں۔ اس حوالے سے راقم کو پشتونوں سے کہیں زیادہ دیگر اہل وطن حوصلہ عطا کرتے ہیں۔ 21مارچ کو پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ اور پشتون طلبہ کے مابین جو کچھ ہوا۔ ہم تنازع کی وجہ بننے والے پشتو ن ثقافتی رقص ’’اتنڑ‘‘ کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتے تھے۔ تاہم اس خیال سے کہ مبادا یہ تحریر کسی ایک کے موقف کے پلڑے میں نہ جا ٹھہرے۔ پھر پنجاب حکومت کا قابل ستائش طرز عمل ، رانا ثناء اللہ صاحب کا کردار اور میڈیا کی درست منظر کشی ، یہ سارے عوامل اس امر کے متقاضی تھے کہ ایسے ہر عمل سے اجتناب ضروری ہے جس سے جلتی پر تیل کا شائبہ تک بھی ہو۔ بعض احباب نے اسے پنجابی پختون تصادم ظاہر کرنے کی سعی بھرپور کی، حالانکہ یہ کھلے طور پر اسلامی جمعیت طلبہ اور پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم پختون طلبہ سے متعلق تھا۔ زیادہ سے زیادہ ہم اسے جمعیت کی سوچ اور پشتون ثقافت میں ٹکرائو کا نام دے سکتے ہیں۔ ہم جب پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں تھے، تو اس دور میں ایک طرف ایم آر ڈی کی تحریک چل رہی تھی اور دوسری طرف افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادی سوویت یونین کیخلاف برسر پیکار تھے۔ یہ وہ دور تھا جب وہ اسرائیل جس سے ہمارے سفارتی تعلقات بھی نہ تھے ،اُس کے جاسوس پاک مٹی پر اپنے ناپاک قدموں کے ساتھ موجود تھے۔ امریکی مصنف Seignrour Harsh اپنی کتاب Samson Option میں لکھتے ہیں۔ ’’اسرائیلی جاسوس Ariben Menashe تین سال تک اپنی ٹیم کے ساتھ پشاور میں رہے، اس دوران دیگر امور کے علاوہ وہ گلبدین حکمت یار کے مجاہدین کو تربیت دیتے تھے‘‘آپ جانتے ہیں گلبدین سے جماعت اسلامی و جمعیت کے کس طرح قریبی تعلقات تھے۔ ان دنوں جماعت اسلامی کے وزیر اگرچہ ضیاء حکومت کی کابینہ سے باہر آگئے تھے لیکن ضیاء الحق کے مختلف عزائم کی تکمیل جماعت اسلامی ہی کے سپرد تھی۔ ایسے ہی امور جنرل یحییٰ خان اور جنرل’ٹائیگر‘ نیازی نے بھی ودیعت کئے تھے۔الشمس اور البدر کی کہانی خود فوج کی زبانی بریگیڈیئر صدیق سالک کی کتاب ’میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا‘ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔خیر ،امریکی آلہ کار ضیا صاحب کی حمایت میںاُس دور میں جب شباب ِ جمعیت ’’مرد مومن مرد حق‘ضیاء الحق ضیاء الحق‘‘ کا نعرے لگاتے تو ہم ودیگر ترقی پسند طلبہ تنظیموں کے کارکن اسی ردھم میں جواب دیتے ’’امریکہ کا جو یار ہےغدار ، غدارہے‘‘ پھر ایک عرصے بعد خدا تعالیٰ کا کرنا یہ ہوا کہ یہی ’’امریکہ کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘‘ کا نعرہ جماعت و جمعیت کے دوستوں کی زبان مبارک پر مچلنے لگا، سو اب جب ہم یہ نعرہ اور روس سے دوستی کی دہائی ان کی زبانی سنتے ہیں تو زیر لب مسکرا کر رہ جاتے ہیں۔ مولانا مودودی صاحب عصرحاضر کے عظیم مجتہد ہیں،کاش ان کی تعلیمات کو بھی کبھی عمل کا جامہ نصیب ہو۔ پنجاب یونیورسٹی کے واقعہ سے متعلق رپورٹ میں ظاہر جمعیت کا کردار بہر صورت مودودی صاحب کی تعلیمات سے تطبیق نہیں رکھتا۔رپورٹ کے مطابق ’’اس آگ نے 37 سال قبل اس وقت جنم لیا جب ایک مذہبی تنظیم نے 1983 میں دیگر طلباء تنظیموں کو پنجاب یونیورسٹی سے بے دخل کیااور اپنا سکہ قائم کرلیا جو اب تک قائم ہے،پنجاب یوینورسٹی میں 6110 واقعات میں 22طلبا و راہ گیر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، یونیورسٹی میں بیرونی عناصر کا غلبہ ہے اور کالعدم تنظیموں کے 30ملزمان پکڑے بھی گئے ہیں۔جمعیت اور پختون طلبہ کے درمیان درجن سے زائد تصادم ہوچکے ہیں‘‘ راقم یہ یقین تو کیا گمان بھی نہیں کرسکتاکہ مولانا مودودی جیسے اصحاب تشدد تو کیا جائے کلام کی سختی کے بھی قائل ہوں۔ تاریخ یہ ہے کہ تمام تر اختلافات کے باوجود اکابر، صابر تھے۔ باچا خان اور مولانا مودودی جیسی تاریخ ساز ہستیاں اصلاح معاشرے ہی کی خاطر تو نکلی تھیں، ازاں بعد سیاست میں بھی جن کا مطمع نظر یہی رہا۔ یہ وجہ بھی تھی کہ پختون طلبہ کےپیہم اصرار کے باوجود اس موضوع پر لکھنے سے گریز کیا۔ حالانکہ سابقین جمعیت نے بہت کچھ لکھا، یہاں تک کہ پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم پختون، بلوچ طلبا کو مختلف طعنوں سے بھی نوازا گیا۔ ہم ان سطور میںبھی اپنی رائے نہیں دینگے، جس رپورٹ کا حوالہ دیا وہ بھی ظاہر ہے ہماری مرتب کردہ نہیں ہے۔ ہاںیہ استدعا کریں گے کہ کسی قومیت کی ، تہذیبی، ثقافتی و نسلی رگوں کو نہ ہی چھیڑا جائے تو بہتر ہے۔ اتنڑ کی وہ تھاپ جسے پنجاب یونیورسٹی میں دبانے کی سعی لاحاصل کی گئی، پورے ملک بلکہ پورے خطے اور پوری دنیا میں گونج اُٹھی۔ اہلِ وطن کی خدمت میں اتنڑ (اتن ) کے تاریخی پس منظر کے حوالے سے عرض کریں کہ یہ رقص یونانی رقص کی ایک شکل ہے اور یہ یونان سے افغانستان آیا۔ اس رقص کو یونان میں اتھینا کے نام سے جانا جاتا تھا، عیسائیوں کی یونان آمد کے بعد یونان سے اس رقص کا خاتمہ ہوگیا مگر افغانستان اور پختونخوا میں یہ آج بھی روح پرور ہے ۔پشتو کی جتنے بھی لغت ہیں سب میں اتنڑ ہی کو پختونوں کا قومی رقص بتایا گیا ہے۔ بنا بریںاتھینا سے انٹر بنا۔ یہ افغانستان کا قومی رقص بھی ہے۔ اتنڑ یوں بھی پختونوں کا ملی رقص ہے کہ یہ پختونوں کے تمام قبیلوں کے رقصوں پر مشتمل یا اِس کا مجموعہ ہے ۔جو ناز و انداز، رنگ و آہنگ، ساز و آواز دیگر پختون رقصوں میںہمیں ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں وہ تمام اتنڑ میں ضم ہو کر اس کے نقش و نگار بن جاتے ہیں۔مختصر یہ کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اتنڑ تمام قبیلوں کے رقصوں کے اعضائے رئیسہ کا مجموعہ ہونے کے باعث پختونوں کاقومی رقص ہے۔ یہ امر بھی دلچسپ و خوش آئند ہے کہ نئی نسل کے تمام لڑکے و نوجوان اپنے اپنے قبیلوں کے رقصوں کو کم اور اتنڑ کو زیادہ سمجھتے اور جانتے و مانتے ہیں۔ یہ یوں بھی ناگزیر ہے کہ مختلف قبیلوں کے پختون کسی خوشی کے موقع پر اگر اکٹھے ہو جاتے ہیںتو وہاں اتنڑ ہی ان کی مشترکہ خوشیوں کا ’اظہار یہ، ہوتا ہے۔مختصر یہ کہ رزم ہو یا بزم اتنڑ کوپختونوں سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔
یہ امر بھی باعث دلچسپی ہےکہ جس اتنڑ کو یار لوگ غیر اسلامی قرار دینے کیلئے میدان میں کود پڑے ہیں، یہ اتنڑ نام نہاد امریکی جہادوں کے برعکس ہمیشہ حقیقی جہادوں کا حصہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ خواتین بھی اتنڑ کرتی تھیںاور اتنڑ کرتی ہیں۔ہندوستان میں اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھنے والے افغان فاتح سلطان محمد شہاب غوری 1192 میں جب پرتھوی راج کیخلاف ہندوستان روانہ ہوتے ہیں، تو ان کی فوج میں شامل ایک پشتون شاعر شکار ندوی اپنی نظم میں اتنڑ کا یوں ذکر کرتے ہیں۔
پختونخوا خکلی زلمی چہ ز غلی ہند تا
نو آغلیہ پیغلے کاندے اتنڑونہ
ترجمہ یوں ہوگا کہ ’’پختونخوا کے خوبرو جوان جب معرکہ ہند کیلئے روانہ ہوتے ہیں، تو لہو گرم رکھنے کی خاطر حسین دوشیزائیں اتنڑ کرتی ہیں‘‘۔ عجیب انصاف ہے کہ جس غوری کے نام پر ہم نے اپنے میزائل کا نام غوری رکھ لیا ہے، ان کا اتنڑ ہمیں تسلیم نہیں! ایک غوری پر کیا موقوف، اتنڑ تو احمد شاہ ابدالی ، خوش حال خان خٹک، شیر شاہ سوری سے لیکر دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں پختونوں کی ثقافت کا ترجمان ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اتنڑ کا جمال ، جلال میں بدلتا ہی فقط اُس وقت ہے جب کوئی تلوار لئے مقابل آجائے....



.
تازہ ترین