• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بدبودار لوگوں کے قریب سے خوشبو کا کوئی جھونکا ہی گزر جائے تو ان کی حالت غیر ہو جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ان دنوں الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر بدبودار لوگ ہی زیادہ تعداد میں نظر آتے ہیں، تین چار پرائیویٹ ٹی وی چینلز تو ایسے ہیں جن کے اینکرز کی گزگز بھر زبانیں ان افراد کے خلاف زہر اگلنے میں لگی رہتی ہیں، جن کے حلق سے کبھی لقمہ ٔ حرام اتر ہی نہیں سکا جبکہ یہ خود رزقِ حلال کی لذت سے اس دن سے محروم ہیں جس دن سے وہ اینکر بنے ہیں۔ اس سے پہلے یہ بہتر لوگ تھے لیکن اب ان کی اور ان کے مالکان کی نظریں اس رزق پر لگی رہتی ہیں جو ہمیں اور آپ کو نظر نہیں آ سکتا۔ یہ گندے لوگ کسی کو صاف ستھرے کردار کا مالک نہیں دیکھ سکتے چنانچہ جب یہ کسی ایسے شخص کو دیکھتے ہیں، اس پر کیچڑ انڈیلنے لگتے ہیں تاکہ وہ بھی انہی جیسا نظر آئے، میں نے ایک طویل عرصے سے یہ چینلز دیکھنا بند کر دیئے ہیں تاہم ان کی کوئی نہ کوئی کارروائی مجھ تک پہنچ ہی جاتی ہے۔ یہ چینلز منفی ذہن کے افراد کو ’’کیٹر‘‘(CATER) کرتے ہیں جن کی ایک معقول تعداد ہمارے ہاں موجود ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو پاکستان اور اس میں بسنے والے مختلف افراد کے لئے کوئی کلمۂ خیر نہیں سننا چاہتا۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ غلیظ گالیاں سنیں، کردار کشی والے پروگرام دیکھیں، چنانچہ یہی لوگ یہ چینل دیکھتے ہیں۔ میں صرف وہ نیوز چینل دیکھتا ہوں جو بہت معتدل پالیسی کے حامل ہیں۔ اور ان میں صف اوّل کے صحافی نظر آتے ہیں۔ یہ چینلز جہاں کسی کے پرخچے اڑانا بنتے ہوں وہاں پھر یہ کسی کا لحاظ نہیں کرتے تاہم ان کا انداز خالصتاً صحافتی اصولوں کے مطابق ہوتا ہے چنانچہ ان سے اگر کسی مسئلے پر اختلاف بھی ہو تو بھی دل میں ان کی عزت برقرار رہتی ہے جبکہ جن چینلز کے اینکرز کا میں ذکر کر رہا ہوں، ان کے منہ غلیظ باتوں سے بھرے ہوتے ہیں اور وہ یہ ساری غلاظت ٹی وی اسکرین پر اگل دیتے ہیں چنانچہ یہ لوگ اپنی کریڈیبلٹی کھو بیٹھتے ہیں۔ پیمرا کے ابصار عالم حسب ِ توفیق ان کی ہرزہ سرائی کا نوٹس لیتے رہتے ہیں لیکن جس ادارے کی بنیاد جھوٹ پر مبنی ہو، ابصار عالم کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں۔
میں یہ کالم شاید نہ لکھتا مگر چند روز پیشتر ایک دوست نے مجھے دو ویڈیو کلپس بھیجے جن میں دو اینکرز ایسے تھے جو باقاعدہ صحافی ہیں اور ان کا شمار ان گندے لوگوں میں نہیں کیا جا سکتا، جن کے دماغوں میں الزامات کی رسولی اور زبان بچھوئوں سے بھری ہوتی ہے۔ میں جن دوستوں کا ذکر کر رہا ہوں اتفاق سے میری ان سے اچھی خاصی شناسائی ہے اور ان کی ٹوپی پر کچھ صحافتی اسکوپ کے پھول بھی نظر آتے ہیں مگر ان کلپس میں، میں نے انہیں بھی بغیر تحقیق کے وہ باتیں کرتے دیکھا جو ان کی شناخت سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ صحبت ِ طالع ترا طالع کند، مگر جوہڑ میں کھلنے والے پھول کو تو پھول کی خوشبو ہی دینا چاہئے، خواہ وہ جوہڑ کی بدبو کا مقابلہ نہ کر سکے۔
اس سارے مسئلے کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ کہ میں جن اینکرز کا ذکر کر رہا ہوں، انہیں لفظ عزت کے ہجے بھی نہیں آتے، انہیں پتہ ہی نہیں کہ عزت نام کی کوئی چیز بھی ہوتی ہے، جو لوگ بظاہر ان کی عزت کر رہے ہوتے ہیں اور آگے پیچھے پھرتے تحسین بھرے الفاظ کہتے دکھائی دیتے ہیں یا تو وہ خود اسی مائنڈ سیٹ کے ہوتے ہیں اور یا پھر ان پر ان کا خوف غالب ہوتا ہے۔ وہ شخص بہت بدنصیب ہے جس کی عزت لوگ اس کے خوف سے کریں۔ یہ صحافی نہیں ہیں کہ ان کے کریڈٹ پر کوئی ایسی خبر نہیں ہے جو ایکسکلوسو ہو، ان کی ایک پیش گوئی بھی ایسی نہیں ہے جو درست ثابت ہوئی ہو۔ ان کا کوئی ایک خوبصورت ایکسپریشن بھی ایسا نہیں جو کسی کو یاد ہو۔ تو پھر ان کے پاس کیا چارہ رہ جاتا ہے کہ وہ جمہور کے منتخب نمائندوں کو گالیاں دیں۔ آمریت کے خلاف لڑنے والوں کی کردار کشی کریں۔ ان لوگوں کو تو قطعاً معاف نہ کریں جن کی عزت معاشرے کے لاکھوں افراد کے دل میں ان کے قابلِ قدر رویوں اور تحریروں کی وجہ سے ہے۔ بظاہر دہشت ناک اور خونی صفت نظر آنے والے یہ لوگ صرف ان طبقوں پر تہمتیں دھرتے ہیں جو ان کے خلاف کبھی کچھ نہیں کریں گے۔
ان کے سامنے تو ہماری عدالتیں بھی بے بس نظر آتی ہیں۔ آج برادرم مجیب الرحمان شامی نے اپنے کالم میں انکشاف کیا ہے کہ عدالتوں میں پیمرا کے پانچ سو کیس زیر التوا ہیں، جو صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی پر دائر کئے گئے ہیں۔ یہ لوگ تو خدا سے بھی نہیں ڈرتے، صرف ایک قابلِ احترام قومی ادارے سے ڈرتے ہیں اور اس کے حوالے سے ان کی بولتی بند ہو جاتی ہے۔
ہمارے یہ غیر صحافتی حلقے جب محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پاس گالیوں کا اسٹاک ختم ہو گیا ہے تو وہ ایک سیاستداں جو شیدا ٹلی کے نام سے مشہور ہیں کو اپنی اسکرین پر لاتے ہیں جنہیں مالشیے اور بھانڈ کے علاوہ کوئی تیسرا لفظ ہی نہیں آتا۔ موصوف سے کبھی کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ مالشیا وہ ہوتا ہے جو نواز شریف کے دور میں بھی وزیر ہوتا ہے اور پرویز مشرف کے دور میں بھی وزارت کے مزے لوٹتا ہے۔ انہیں شاید علم نہیں کہ انہیں ٹی وی پر بطور سیاستدان یا تجزیہ کار دعوت نہیں دی جاتی بلکہ جس طرح گائوں کے جاگیردار کسی عزت دار انسان کو کسی ’’چلم بردار‘‘ سے بے عزت کراتے ہیں، ان سے یہی کام لیا جاتا ہے۔
ان کی ’’آمد‘‘ سے پہلے سیاست میں ’’تانگہ پارٹی‘‘ کی اصطلاح مروج تھی یعنی ایسی سیاسی پارٹی جس کے ساتھ چلنے والے ایک تانگے میں پورے آ جائیں۔ ان صاحب کی آمد کے بعد اب ’’موٹر سائیکل پارٹی‘‘ کی اصطلاح باقی رہ گئی ہے۔ آپ اندازہ لگائیں جو شخص گائوں کے چوہدریوں کی فرمائش پر عزت دار لوگوں کی پگڑیاں اچھالتا ہے، یہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں عمران خان نے کہا تھا ’’میں اسے اپنا چپڑاسی بنانا بھی پسند نہیں کروں گا‘‘ قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ اب یہ زور لگا کر اس منصب پر فائز ہو گیا ہے اور اپنی اس عزت افزائی پر بہت خوش ہے۔


.
تازہ ترین