• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈنمارک سے آئے ہوئے اے ڈی بٹ کی خود نوشت’’ورق ورق کی سچائی‘‘ کو میں نے صرف پڑھا نہیں اپنے اوپر سےگزرتے ہوئے دیکھا ہے۔ یعنی یہ خود نوشت صرف اے ڈی بٹ کی نہیں میرے جیسے سینکڑوں دیار غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کی بھی ہے جنہیں جس قدر ممکن تھا اُس قدر لوٹا گیا۔ پاکستانیوں کے یہ لٹے پٹے قافلے پاکستان سے مایوسیاں پہن کر واپس دیارِ غیر لوٹ کرجاتے رہے کہ پاکستان میں انصاف کی توقع یہ سوچ کرپتھروں کو نچوڑنے کے مترادف ہے کہ اِن سے آب زمزم بہہ نکلے گا۔ یہاں وقت پتھرایا ہواہے۔ زمین و آسماں کی گردشیں رکی ہوئی ہیں۔ موسموں کے دریا جمے ہوئے ہیں۔ بصارتوں میں سلائیاں پھری ہوئی ہیں۔ سماعتوں میں سیسہ بھر ہوا ہے۔ آوازوں میں سناٹے گونج رہے ہیں۔ تعبیروں سے محروم خوابوں کے ہجوم آنکھوں سے چپک کر رہ گئے ہیں۔ ملک مردہ منظروں کی ایک فلم بن چکا ہے۔ اڑتی ہوئی راکھ کے بگولے۔ فاسفورس بموں میں جلی ہوئی مسجدیں۔ دور تک پھیلی ہوئی قبریں۔ خودکش بمباروں کے طشت میں رکھے ہوئے سر۔ چٹانوں پر کھدے ہوئے موت کے نقشِ پا۔ نمازیوں کے چہروں کے خوفزدہ کتبے۔ امید کے پرندوں کی کرلاہٹیں۔ تپتی ہوئی ریت میں گم ہوتے ہوئے آسمان کے آنسو۔ ایوانوں میں ہوتا ہوا پتلی تماشا۔ عدل کی کچہریوں میں ناانصافیوں کے تھیٹر، نظامِ زر کی فاحشہ کا مسلسل رقص پاکستان کا ماضی اور حال بن کر رہ گیا ہے۔ مگر میں اے ڈی بٹ پر حیران ہوں کہ وہ اس کے باوجود بھی مایوس نہیں۔ انہیں اب بھی یقین ہے کہ ان کے گرم پسینے نے جو حلال کے خزینے اُگلے تھے وہ حرام خوروں کے پاس زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے۔ بہت جلد پاکستان میں انصاف کی تحریک اپنے منطقی انجام تک پہنچے گی۔ لٹیروں کی لاشیں بجلی کے کھمبوں سے لٹکی ہوئی ہوں گی۔ چوروں کے کٹے ہوئے ہزاروں ہاتھوں کی نمائش دیکھنے والوں کا رش ختم نہیں ہو گا۔ لاکھوں ایکڑ پر پھیلے ہوئے پاکستان پر قبضہ کرنے والا قبضہ گروپ اپنی قبروں کے لئے دو گز زمین تلاش کرتا پھر رہا ہو گا۔
اگرچہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اوور سیز پاکستانیوں کی مشکلات کے حل کے لئے کئی عامل مقرر کر رکھے ہیں جہاں سے بے شماروں لوگوں کو انصاف کے تعویذ مل رہے ہیں مگر سسٹم میں کرپشن کو رچا دینے والے جنات ان عاملوں سے عظیم تر ہیں۔ مثال کے لئے ورق ورق کی سچائی ہم سب کے سامنے ہے کہ تمام کوشش کے باوجود انہیں حق نہیں مل سکا۔ اسی بات سے اندازہ لگا لیجئے کہ حکومت انہیں انصاف نہیں فراہم کر سکی کہ معاملہ کتاب کی رونمائی تک آ پہنچا۔ اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب حکومت اوور سیز پاکستانیوں کے لئے جو کام کر رہی ہے وہ کسی اور صوبے میں نہیں ہو رہا۔
کسی زمانے میں اُس وقت کاچیف جسٹس آف پاکستان بھی انصاف کی تلاش میں سڑکوں پر نکل آیا تھا۔ پوری قوم کے اُس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی تھی۔ آخر اسے انصاف فراہم کر دیا گیا تھا مگراس نظام ِ زرنے اُس کے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا کہ اُ س کی حیثیت اُس ریٹائرڈ چیف سیکرٹری سے زیادہ مختلف نہیں رہی جو گلیوں میں اپنی سیاسی پارٹی کےخود اشتہار تقسیم کرتا پھر رہا ہوتاہےاور لوگ اسے پاگل سمجھ کر راستہ بدل لیتے ہیں۔
یہاں ایک بات میں ازراہ تفنن ضرور عرض کروں گا کہ صاحبِ کتاب کا نام اے ڈی بٹ ہے مگر وہ اپنی کتاب میں اے ڈی بٹ سے زیادہ اے ڈی شیخ دکھائی دیتے ہیں انہوں نے اس روداد میں ہر اُس فرد کا نام بھی درج کر دیا ہے جس نے اُن سے پچاس ڈالر بھی لئے ہیں۔
میں یہ کتاب پڑھ کر سوچتا رہا کہ میں اے ڈی بٹ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔ کیا میں انہیں ان کا مکان واپس دلا سکتا ہوں۔ کیا اس تمام عرصہ میں انہیں جو تکالیف اٹھانی پڑیں ان کا میں کوئی تدارک کر سکتا ہوں تو دماغ نے کہا کہ تُو اس کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا کہ پاکستانی قوم سے چندہ مانگ کر ان کانقصان پورا کر دے پھر خیال آیا کہ اے ڈی بٹ ایک غیرت مند انسان ہیں کیا وہ کسی ایسے حل پر تیار ہوں گے تو ذہن نے فورا ً کہا ’’نہیں ہرگز نہیں‘‘۔ میں انہیں یہ بھی مشورہ نہیں دے سکتا کہ وہ تحریک انصاف کی طرح اپنی کوئی پارٹی بنا لیں کیونکہ وہ حق بھی اِس نظام نے ان پاکستانیوں سے چھین رکھا ہے جنہوں نے معاش کی بہتری کے لئے ہجرت کا راستہ اختیار کیا۔ برطانوی شاعر انجم خیالی نے بہت عرصہ اس المیہ کو کچھ یوں کہا تھا
اذاں پہ قید نہیں، بندشِ نماز نہیں
ہمارے پاس تو ہجرت کا بھی جواز نہیں
کیا عجیب بات ہے کہ برطانیہ پاکستانی شہریت کے ہوتے ہوئے ہمیں برطانیہ میں وزیر بلکہ وزیراعظم بن جانے کا حق بھی دیتا ہے جب کہ برطانوی شہریت ہونے کےسبب پاکستان ہم سب سے پاکستانی ہونے کا حق چھین لیتا ہے۔ ایک بڑے جج نے ڈاکٹر طاہر القادری کا مقدمہ سننے سے صرف اس لئے انکار کر دیا تھا کہ ان کے پاس ڈوئل نیشنلٹی تھی۔ افواہیں ہیں کہ اسی منصف کے بیٹے نے بھی یورپ کے کسی ملک کی نیشنلٹی حاصل کرنے کی کوشش شروع کر رکھی ہے۔ اِن تمام ناانصافیوں کے باوجود دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں نے یہ عہدکر رکھا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ انہوں نے ہر حال میں پاکستان کو ایک ایسے ترقی یافتہ ملک میں تبدیل کرنا ہے جہاں کی عدالتیں انصاف کریں۔ جہاں وہ مقدمے جو اپنی اہمیت کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر سنے جائیں ان کے فیصلے مہینوں کےلئے محفوظ نہ ہوسکیں ۔
(یہ کالم اے ڈی بٹ کی کتاب ’’ورق ورق کی سچائی‘‘ کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا۔ جس کی صدارت مجیب الرحمن شامی کر رہے تھے اور انہوں نے اپنے صدارتی خطبہ میں مطالبہ کیا کہ تباہ حال عدالتی ڈھانچے کی نئی سرے سے تعمیر کے لئے نئی قانون سازی کی جائے)

.
تازہ ترین