• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب ابرارالحق کی ہر دوسری بات میں پروفیسر صاحب کا ذکر آنے لگا، جب وہ اپنے ہر حوالے میں پروفیسر صاحب کے حوالے دینے لگا، جب ’’بلو دے گھر‘‘ جاتے جاتے اس کی گاڑی اچانک صوفی ازم اور تصوف کی طرف مڑ گئی اور جب اُس کا مجھے اپنے ’’روحانی بابے‘‘ سے ملوانے کا اصرار حد سے بڑھ گیا تو پھر ابرار کے ساتھ ایک دن مجھے پروفیسر صاحب سے ملنا ہی پڑ گیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گرمیوں کی اُس دوپہر کالے کوٹ کے نیچے گہرے زرد رنگ کی شرٹ، زرد شرٹ پر انتہائی شوخ سرخ ٹائی اور کالے جوتوں میں رنگ برنگی جرابیں پہنے کلین شیو پروفیسر صاحب پر پہلی نظر پڑتے ہی میرا ’’روحانی بابے‘‘ کا امیج ہوا ہو گیا، یہی نہیں بلکہ روحانیت کی رہی سہی کسر تب نکلی جب سلام دعا اور حال احوال کے بعد صوفے پر آلتی پالتی مار کر پروفیسر صاحب خالص پینڈو اسٹائل میں چائے کے کپ میں بسکٹ ڈبو ڈبو کر کھانے لگے اور اس سے پہلے کہ میں کوئی بہانہ بنا کر وہاں سے کھسکتا، اچانک پروفیسر صاحب نے بولنا شروع کر دیا اور پھر موسم کے حال، انسانی مسائل اور پوسٹ ماڈرنزم سے ہوتے ہوئے جب باتوں کی یہ نان اسٹاپ ٹرین بلّھے شاہ جنکشن پر پہنچی تو اچانک ابرارالحق کی آواز آئی ’عصر کی نماز نہ پڑھ لیں‘ عصر کا وقت ہو گیا، میں نے یہ سوچ کر شدید حیرانی میں گھڑی دیکھی تو عصرکا وقت کیا، عصر آخری دَموں پر تھی، 5گھنٹے گزر گئے، مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا، افراتفری میں وضو کیلئے جاتے ہوئے ابرارالحق نے جب آہستہ سے پوچھا ’’سچی دس بھٹی۔۔ مزا آیا‘‘میں نے کہا ’’یار مزے کو چھوڑ، میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ 5گھنٹوں کی گفتگو کے دوران جب بھی میرے ذہن میں کوئی سوال آتا تو سوال پوچھنے سے پہلے ہی پروفیسر صاحب اس کا جواب دیدیتے، یار میں تو ایک سوال بھی نہ کر سکا‘‘ ابرار زیرِ لب مسکرا کر بولا ’’ان شاء اللہ آئندہ بھی نہیں کر سکو گے‘‘ اور واقعی دوستو میں آج تک پروفیسر صاحب سے ایک سوال بھی نہیں پوچھ پایا، ان گزرے دس بارہ سالوں میں پروفیسر صاحب سے بے شمار ملاقاتیں ہوئیں اور ان ملاقاتوں میں وہ منوں ٹنوں کے حساب سے بولے لیکن ہر بار ان کی انگلی پکڑے جب بھی کسی دیکھی ان دیکھی دنیا کی سیر کرتے کرتے میں ان سے کچھ پوچھنے کیلئے پرتول ہی رہا ہوتا کہ پروفیسر صاحب میرے سوال سے پہلے ہی میرے سوال کا جواب دے دیتے۔
یہاں پہلے تو یہ بتا دوں کہ میں پروفیسر ڈاکٹر ملک حسین مبشر کی بات کر رہا، اُس پروفیسر مبشر کی کہ جن کے بارے میں آج لکھتے ہوئے میں کنفیوژ کہ ان کا کیا کیا بتاؤں اور کیا کیا چھپاؤں، دوستو! سیانے کہیں کہ دو طرح کے لوگوں سے ڈرو، ایک وہ جن کے ساتھ رہنا مشکل اور دوسرے وہ جن کے بغیر رہنا مشکل، پروفیسر صاحب دونوں طرح کے انسان، ان کا فنی اور طبی قد اتنا بڑا کہ پاکستان کے کسی کونے میں بھی کھڑے ہو کر کوئی بھی انہیں بڑی آسانی سے پتھر مار لے، شخصیت ایسی کہ آپ انہیں ساتھ لے جا رہے ہوں تو دیکھنے والا یہی سمجھے گا کہ وہ آپ کو ساتھ لے جا رہے، گو کہ یہ اب عمر کے اس حصے میں کہ جہاں نیکی کرنے سے زیادہ مشکل برائی کرنا مگر شکل و صورت ایسی کہ آپ انہیں خوبصورت کہہ سکتے ہیں نہ بدصورت، بوڑھا کہہ سکتے ہیں نہ جوان اور ان کے ساتھ بیٹھ کر تو کچھ بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ جو کچھ کہنا ہوتا ہے، انہی کو کہنا ہوتا ہے، یہ دوستوں سے دوستی وہاں سے شروع کریں جہاں دوسرے چھوڑ جائیں اور دوست ایسے خطرناک کہ اکثر ان کے دشمنوں کو بھی پتا تب چلے جب وہ ان کے دوست بن چکے ہوں، دوستوں سے ہر بار یوں ملیں جیسے برسوں بعد مل رہے ہوں اور برسوں بعد بھی یوں ملیں جیسے روز مل رہے ہوں، ان کے بارے میں اچھی رائے قائم کرنے کیلئے ان سے ایک بار ہی ملنا کافی البتہ ان کے حوالے سے بُری رائے قائم کرنے کیلئے انہیں بار بار ملنا ضروری، یہ وہ کام نہیں کرتے جو ہو نہ سکے اور وہ کام بھی نہیں کرتے جو ہر کوئی کر لے، یہ ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ گزارا کر لیں مگر ہرقسم کے لوگ ان کے ساتھ گزارا نہیں کر سکتے، یہ چپ بھی ہوں تو لگے کہ بول رہے اور ان کا ایک بار بولنا کئی دفعہ سنائی دے، انہیں شیکسپیئر سے زیادہ شیکسپیئر کے ڈرامے ازبر اور انہیں بلّھے شاہ سے زیادہ بلّھے شاہ کا کلام یاد، انہیں دور سے دیکھنے پر ان سے ایسی ہمدردی ہو کہ ان کا بوجھ بٹانے کو دل چاہے مگر قریب آنے پر اپنا بوجھ اترتا محسوس ہو اور پروفیسر صاحب مزاجاً ایسے کہ کھیلوں سے اس لئے دلچسپی نہیں کہ انہیں وہ جیت نہیں چاہئے کہ جس سے کسی کی ہار جڑی ہوئی ہو‘‘۔ صاحبو! پروفیسر صاحب کی بات چھڑ جائے تو پھر بات رُوکنا مشکل لیکن مجھے بات اس لئے روکنی پڑ رہی کیونکہ مجھے بات کرنی ہے پروفیسر ملک حسین مبشر کی آپ بیتی ’’میم بشر‘‘ کی کہ جس کا پونے 4سو صفحات کا مسودہ نہ صرف میں نے ایک ہی نشست میں پڑھ لیا بلکہ اسے پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچ چکا کہ زندگیاں بدلنے کی صلاحیت رکھنے والے پروفیسر صاحب کی یہ کتاب جب چھپ کر آئے گی تو لوگوں کی اکثریت بھی اسے ایک ہی نشست میں پڑھے گی۔
مجھے یہ کتاب ہٹ بلکہ سپرہٹ ہونے کا اس لئے بھی یقین کیونکہ ’’میم بشر‘‘ اُس انسان کی بائیو گرافی جو ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز پا چکا، جو دنیا کے 100ممتاز عالموں میں سے ایک، جو ذہنی امراض کا کامیاب ترین معالج، جو سینکڑوں پوسٹ گریجویٹس کو سائیکاٹرسٹ بنا چکا، جو پاکستان کی پہلی ہیلتھ سائنسز یونیورسٹی کا وائس چانسلر، جو مبہوت کر دینے والا مقرر اور جو بے مثال یادداشت کا حامل استاد، منتظم اور صوفی، پھر ’’میم بشر‘‘ ہی یہ بھی بتائے کہ زندگی لاکھ مشکلات اور مصائب میں گھری ہو مگر توکل کی چھتری تلے محنت، ہمت اور برداشت کی راہوں پر جب بندہ اپنی ذات کی نفی کر کے دوسروں کیلئے جینا سیکھ جاتا ہے تو پھر سب کچھ ہی آسان اور ممکن ہوجاتا ہے، ’’میم بشر‘‘ میں ہی آپ یہ بھی پڑھ سکیں گے کہ پاکستان کی پیدائش کے 4ماہ بعد اندرون لاہور مسجد وزیر خاں کے نواحی محلے کوچہ چابک سواراں میں پیدا ہونے والے پروفیسر صاحب کے پردادا ملک وزیر محمد کو لاہور کی چوتھی اینٹ کا لقب کیسے ملا، رشوت کی آفر ہونے پر پروفیسر صاحب کے والد کیوں رو پڑے، ان کی نانی کو روحانی خلافت کیسے ملی، ڈاکٹر صاحب کو الف ب سکھانے والی آپا مریم کون تھیں، یہ اسکول کے ’’لنچ ٹائم‘‘ میں لنچ کرنے کی بجائے مس بٹ کا سودا خریدنے کیوں چلے جاتے، بچپن میں یہ اپنے محلے کی مسجد میں جھاڑو کیوں دیا کرتے اور 8سال کی عمر میں گدو بندر کے پاگل خانے میں آہنی پنجروں میں قید جانور نما انسانوں کو دیکھ کر انہوں نے خود سے کیا تہیہ کیا، ’’میم بشر‘‘ میں ہی آپ کو یہ بھی ملے گا کہ انہیں خواب میں کیسے نبی کریمﷺ اور حضرت علی ہجویریؒ کے دیدار نصیب ہوئے، انہیں کیسے حضرت زینبؓ کی ذاتی آرام گاہ کی زیارت ہوئی، انہوں نے حضرت بلالؓ کے مزار کی چادر کیسے حاصل کی، وہ شیخ سعدی،ؒ حضرت جامیؒ، امیر خسروؒ اور فریدالدین عطارؒ کے مترجم کیسے بنے، ان کی نظر میں معرفت، شریعت اور طریقت کیا اور ان کے خیال میں بدن، نفس اور عقل کے تقاضے اور وحدانیت، روحانیت، تصوف اور صوفی ازم کی منزلیں کیا، ’’میم بشر‘‘ میں آپ یہ بھی پڑھیں گے کہ اللہ والے کیسے ہوتے ہیں، عشق اول اور عشق آخر کا مطلب کیا اور عقیدتِ نبیؐ، حبّ ِ علیؓ اور محبتّ ِ اہل بیتؓ کے تقاضے کیا، پھر وہ ’’درگاہی پیالہ‘‘ کیا جو پروفیسر صاحب نے عابدہ پروین کے ہاتھوں پیا اور دنیا بھر کیلئے ایک گلوکارہ پروفیسر صاحب کیلئے مرشد کیسے ہوئیں اور ’’میم بشر‘‘ ہی آپ کو یہ بھی بتائے گی کہ پروفیسر صاحب کو راولپنڈی جنرل اسپتال میں مردہ خانے اور دھوبی گھاٹ کے ساتھ بڑ کے درخت کے نیچے میز کرسی لگا کر کیوں بیٹھنا پڑا، ان کی شکایت لگانے پر سزا دینے کی بجائے جنرل ضیاءالحق نے انہیں ایوارڈ کیوں دے دیا، اُنہوں نے 82کتابوں کے مصنف اور عظیم ماہر نفسیات ڈیوڈ اسٹیفورڈ کلارک کی شاگردی کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلے، اُنہوں نے برطانوی شہریت کیوں ٹھکرا دی، پرائیویٹ میڈیکل کالجز مافیا ان کا دشمن کیوں ہوا، انہیں 27سو 35عدالتی چکر کیوں لگانا پڑے، انہیں ان کے ہی دفتر میں کس نے 3دن قید کئے رکھا، ان کی دو مرتبہ جان لینے کی کوشش کیوں کی گئی، وہ خالد مقبول اور شہباز شریف کی تعریف کیوں کرتے ہیں اور انہیں زرداری صاحب، لطیف کھوسہ اور ڈاکٹر عاصم سے کیا شکایتیں، صاحبو! یہ تو ایک جھلک اور یہ تو چند باتیں ورنہ ’’لا انسان سے میم بشر تک‘‘ اس کہانی میں اور بھی بہت کچھ اور ایسا کچھ کہ میں بڑے یقین سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ جہاں یہ کتاب پڑھ کر اپنے لئے جینے والوں میں دوسروں کیلئے جینے کی اُمنگ پیدا ہو گی وہاں یہ کتاب پڑھ کر پروفیسر صاحب کو پسند کرنے والے ان سے محبت کرنے اور ان سے حسد کرنے والے ان سے رشک کرنے لگ جائیں گے۔

.
تازہ ترین