• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ رات مجھے خواب میں قطری خط مل گیا،مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ خط بول رہا تھا لہٰذا میری آپ سے گزارش ہے کہ اس سے ہونے والی تمام گفتگو کو خواب ہی تصور کیا جائے اور وہ تو ویسے بھی ایک مسترد شدہ خط ہے۔ کل شام تیز ہوائوں کے ساتھ بارش کا آغاز ہوا، رات گئے تک بارش ہوتی رہی، سوچا تھا کہ آج کوئی خوبصورت خواب اترے گا مگر میرے خواب میں قطری خط چلا آیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم کہاں سے آئے ہو؟میرے سادہ سے سوال کے جواب میں قطری خط بولا____’’تم بہت ناشکرے لوگ ہو، ایک تو میں تمہاری محبت میں قطر سے آیا، جونہی میں آیا تو تمہارے سوشل میڈیا نے میرا مذاق اڑانا شروع کردیا، تمہارے لیڈروں نے ایوان کے اندر اپنی تقریروں میں اور باہر بڑے بڑے جلسوں میں مجھ پر تنقید کے تیر برسائے مگر میں پھر بھی ڈٹا رہا کیونکہ میں ایک’’شریف‘‘ آدمی کی مدد کے لئے آیا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ مجھے افراتفری میں لکھا گیا، میری تیاری میں قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کئے گئے، مجھے شیخ جاسم (باقی سابقے لاحقے خود سمجھ جائو) کے حکم پر لکھا گیا۔ اس میں کون سی غلط بات ہے۔ آپ لوگوں کو تو شیخ جاسم کی یادداشت کی تعریف کرنی چاہئے کہ اس نے پرانی باتوں کو کاغذ پر منتقل کیا، اس نے تو تاریخ لکھی مگر آپ ناشکرے لوگوں نے میری کوئی پروا نہیں کی، اگر کوئی بات نہیں تھی تو آپ لوگ کم از کم یہ تو سوچ سکتے تھے کہ خطوط غالب کے بعد سب سے اہم خط میں ہی تھا جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا، میں بھی غالب کے خطوں سے ملتا جلتا تھا فرق صرف اتنا تھا کہ غالب نے پوری عشقیہ داستان خطوں میں بیان کردی تھی جبکہ میں نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف پیسوں کا تذکرہ کیا اور باقی کہانیوں کو خفیہ رکھا۔ آپ لوگوں کو میرا شکر گزار ہونا چاہئے کہ میں نے سوشل میڈیا کے دور میں آپ کو خط کی یاد دلائی ورنہ آپ لوگ تو فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ کی دنیا میں گم ہو کے رہ گئے تھے، آپ اپنے بچوں سے خط یا چٹھی کا پوچھتے تھے تو انہیں کچھ پتا نہیں تھا، الحمد للہ آج اگر آپ کے بچوں کو خط کا پتا ہے تو اس کی واحد وجہ میں ہی ہوں یعنی مجھ قطری خط سے پہلے لوگ خط کو بھول چکے تھے‘‘۔اسی دوران خواب میں میرے اور قطری خط کے درمیان سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوگیا جو آپ کی نذر کررہا ہوں تاکہ خواب کی تعبیر بتانے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔
س:او، اے میرے پیارے قطری خط، تو بہت تیز اور تیکھی باتیں کرتا ہے، کیا تو کوئی جناتی خط ہے، اگر تو اتنا ہی کرشمہ ساز تھا تو تیری میڈیا، سوشل میڈیا اور اب عدالت میں اتنی رسوائی کیوں ہو ئی؟
ج:باتیں کیوں نہ کروں، مجھے مسترد ہی کردیا گیا ہے، جسے مسترد کردیا جائے اسے غصہ تو آتا ہے نا، اگر مجھے توہین عدالت کا ڈر نہ ہوتا تو میں جادو کی طرح سر چڑھ کر بولتا، مجھے دوسرا ڈر یہ تھا کہ میں بے چارہ پردیسی ہوں، میری مسافت ہی کا خیال کرلیا جاتا،کسی نے تو یہ بھی خیال نہیں کیا کہ میں خطۂ عرب سے آیا ہوں، میرے اوپر دستخط کرنے والے کا نام بھی خاصا لمبا چوڑا ہے۔ باقی آپ کے میڈیا کا کچھ حصہ اور سوشل میڈیا پورا بے لگام ہے انہوں نے میرے کندھوں کی بنیاد پر پتا نہیں کون کون سی محبت کی کہانی گھڑی، حتیٰ کہ پرانے زمانے کے شہزادے شہزادیوں کے قصے بھی بیان کرڈالے، میرا قصور کیا تھا صرف یہ کہ میری وجہ سے آپ کے سوشل میڈیا میں کئی رنگین پوسٹیں بنیں مگر میں آپ کو اتنا بتادوں کہ دوران سماعت اور محفوظگی کے دوران میں نے بہت سے مناظر دیکھے۔ میرا بڑا مذاق اڑا، مجھے مذاق پر بہت دکھ ہوتا تھا، مسترد ہونے پر بہت زیادہ دکھ ہوا، میرے لئے وہ گھڑیاں بہت افسوسناک تھیں۔
س:او قطری خط، اپنی باتیںبند کر، تجھے دیکھ کر تو مجھے اسلم گورداسپوری کا شعر یاد آجاتا ہے کہ؎
زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لئے
عہد کم ظرف کی ہر بات گوارا کرلیں
ج:ایک تو میں تمہاری ادب دوستی سے بہت تنگ ہوں، پیسے کی بات کرو، میں پیسے ہی کی وجہ سے قطر سے یہاں آیا تھا، آپ کو پتا ہے جب مجھے مسترد کرنے کے ساتھ جے آئی ٹی کا فیصلہ سنایا گیا تو ہر طرف مٹھائیاں بانٹی گئیں، یہ میرا ہی کمال تھا کہ ہر ایک نے مٹھائیاں بانٹیں، وزیر اعظم نے تو خطاب کا اعلان بھی کردیا تھا، یہ تو سارا کام قطری شیخ نے نہیں بلکہ نارووالی شیخ اشتر اوصاف علی نے خراب کیا، جنہوں نے بتایا کہ فیصلہ ہمارے حق میں نہیں ہے بس اس کے بعد اداسی پھیل گئی۔ فیصلے کے روز کوئی وفاقی وزیر شام کو میڈیا کی زینت نہ بن سکا۔ ویسے میں ایک قطری خط ہونے کے باوجود یہ کہہ رہا ہوں کہ جے آئی ٹی بن بھی جائے تو وزیر اعظم پیش نہیں ہوں گے نہ ہی ان کے بچے پیش ہوں گے، منڈے(لڑکے) دونوں باہر ہیں، مریم بی بی تمہارے کالم لکھنے تک جاچکی ہوں گی یا پھر چند روز میں چلی جائیں گی، یہ بھی پتا چلا ہے کہ شاید جے آئی ٹی کی مانیٹرنگ کے لئے پرانا بنچ ہی ہو، یہ بات بھی خطرے سے خالی نہیں۔
بس کر قطری خط، کیا بونگیاں ماررہا ہے، بس میں تمہیں کوئی اور سوال نہیں کرتا۔
آخر میں تم فرحت زاہد کا شعر سن لو کہ؎
خزاں کے آخری دن تھے وہ خوشبو مانگنے آیا
مرا دامن ہی خالی تھا میں اس کو پھول کیا دیتی

.
تازہ ترین