• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں سیاست عروج پر ہے، مردم شماری، طالب علم کا مردان میں وحشیانہ قتل، پاناما کیس پر تبصرے، ایک طرح کا دنگل لگا ہوا تھا۔ عمران خان، نعیم الحق، فواد چوہدری، ناز بلوچ اور حکومت کی طرف سے دانیال عزیز، مریم اورنگزیب، طلال چوہدری وغیرہ اپنے بازو آزما رہے تھے۔ جب سے کیس کی شنوائی ختم ہوئی ہے میں اپنے علمی کاموں میں مصروف رہتا ہوں۔ مجھے دوست و شناسا اور خیرخواہ بہت سی کتابیں بھیجتے رہتے ہیں اور میں وقتاً فوقتاً ان پر کالم لکھ دیتا ہوںکہ عوام ان سے استفادہ کرسکیں۔ میں ان کتب کو نوادرات کہتا ہوں کہ یہ بہت اچھی کتب ہوتی ہیں۔ آج آپ کی خدمت میں چند ایسی ہی کتب پر تبصرہ کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔
( 1) سب سے پہلے بہت ہی اعلیٰ، معلومات سے پُر کتاب ’’بچوں کیلئے اسلامی معلومات پر مبنی سبق آموز کہانیاں‘‘ ہے۔ اس کے مصنف ڈاکٹر عارف محمود کسانہ ہیں۔ یہ کئی برسوں سے اسٹاک ہوم، سوئیڈن میں مشہور اسپتال کارولِنکا میں کام کرتے ہیں۔ میں 1964 میں سوئیڈن گیا تھا اور وہاں نہ صرف اس اسپتال بلکہ کئی یونیورسٹیاں اور صنعتی فیکٹریاں بھی دیکھی تھیں۔ میں اس وقت ڈیلفٹ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا۔ ہالینڈ اس وقت پوری دنیا میں خوبصورت، صاف و شفاف ملک مانا جاتاتھا۔ جب ہم سوئیڈن پہنچے تو احساس ہوا کہ ہالینڈ اس کے مقالے میں کچھ نہ تھا، اس قدر صاف و شفاف، خوبصورت، کشادہ ملک، آبادی بمشکل ایک کروڑ سے بھی کم مگر ٹیکنالوجی میں یکتاــــ۔جناب عارف محمود کسانہ کی یہ کتاب ایک خزینۂ معلومات ہے، سادہ دلچسپ تحریر میں بچوں کو اسلام کے بارے قیمتی معلومات فراہم کی ہیں۔ یہ کتاب نیشنل بُک فائونڈیشن نے شائع کی ہے اور اس کے سربراہ جناب ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے نہایت اعلیٰ تبصرہ کیا ہے۔ اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ ہمارے سفیر تعینات سوئیڈن جناب طارق ضمیر صاحب کی قابل اہلیہ منیزہ طارق نے کیا ہے۔ کتاب کی اہمیت کا اندازہ آپ اس سے کرسکتے ہیں کہ اس کا ترجمہ نارویجین زبان میں شائع ہوچکا ہے اور اس کا ہندی ترجمہ زیر طبع ہے۔ اس کے علاوہ جلد ہی اس نادر کتاب کا ترجمہ چینی، جاپانی، اطالوی، بنگالی، سوئیڈش، جرمن، روسی زبانوں میں بھی شائع ہونے والا ہے۔ کتاب میں پاکستانی سفیر محترم جناب طارق ضمیر صاحب نے بھی اعلیٰ تبصرہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نیشنل بُک فائونڈیشن نے بھی نہایت قابل تحسین کام انجام دیا ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ نہ صرف پاکستانی بچے بلکہ غیر ملکی پاکستانی بچے بھی بہت استفادہ کرینگے۔ اللہ پاک ڈاکٹر عارف محمود کِسانہ کو اپنی رحمتوں سے نوازے اور جزائے خیر دے۔ آمین
(2) دوسری اعلیٰ و نادر کتاب، ’’قال رسول ؐاللہ، لانبیَّ بعدی‘‘ ہے جس کے مصنف مشہور دانشور پروفیسر ڈاکٹر اعجاز حسن خان خٹک ہیں۔ آپ عالم دین بھی ہیں اور استاد بھی۔ اور خیبر میڈیکل کالج کے پرنسپل بھی ہیں۔ یہ کتاب پشاورسے شائع ہوئی ہے۔
اتفاق کی بات ہے کہ جس پیرومرشد کے پروفیسر ڈاکٹر اعجاز حسن خان خٹک مرید تھے، میرے مرحوم بڑے بھائی عبدالقیوم خان ان کے بہت مدّاح و قریبی دوست تھے۔ یہ مرحوم و محترم رضوان بادشاہ تھے جو گوندل میں تشریف فرما تھے۔ کئی بار میرے بھائی ان کے پاس ہوتے تھے تو وہ ان کے ذریعے مجھ سے بات چیت کرلیا کرتے تھے، خوبصورت آواز اور نہاہت پُرخلوص آواز تھی، میری ان سے براہ راست ملاقات نہیں ہوئی۔ ہاں! انھوں نے بتلایا تھا کہ ایک بڑا افسر جو اُن کا شاگرد تھا وہ میرے خلاف شرانگیزی میں مبتلا تھا اور انھوں نے جب اس بدکردار شخص سے کہا کہ اس شر سے باز آجا تو اس نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا مجھے اپنے بڑوں کوئی بڑا اعزاز لینا ہے۔ انھوں نے مجھ کو بتلایا میں نے کہا برا ہو تیرا کہ تو اس ملک پاکستان اور عوام کے محسن کیخلاف ایسی گندی حرکت کررہا ہے کہ کوئی اعزاز مل جائے۔ پروفیسر ڈاکٹر اعجاز حسن خان خٹک کی کتاب پر دانشوروں نے تبصرہ کیا ہے اور اعلیٰ تبصرہ کیا ہے خاص طور پر محمد اورنگزیب اعوان اور عباد حسن خٹک صاحب ترجمان صوبائی اسمبلی خیبرپختونخوا کے تبصرے بہت اعلیٰ ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اتنا خوبصورت کلام لکھنا جب ہی ممکن ہے کہ مصنف عشق رسولؐ کا شیدائی ہو اور یہ کلام اس کے دل و دماغ سے خودبخود والہانہ طور پر ادا ہونے لگے۔ یہ بہت اعزاز کی بات ہے کہ اللہ رب العزّت نے پروفیسر ڈاکٹر اعجاز حسن خان خٹک کو اتنی خوبصورت، دل موہ لینے والانعتیہ کلام لکھنے (ناممکن نہیں تو بے حد دشوار ہوتا) کی سعادت عطا فرمائی۔ میری دعا ہے کہ:
خط آپ کا بہت خوب عبارت بھی ہے اچھی
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
(3) تیسری بہت اہم و معلوماتی کتاب ’میلادِ رسولؐ نمبر ‘ ہے اور اس کا نام’’ انوار رضا‘‘ ہے۔ اس رسالے کے چیف ایڈیٹر ملک محبوب الرسول قادری صاحب ہیں اور اس کی اشاعت علّامہ شاہ احمد نورانی ریسرچ سنٹر جوہر آباد سے ہوئی ہے۔ اس خاص رسالے پر خادم نے، حضرت علامہ پیر محمد عتیق الرحمن فیض پوری، امیر اہل سنّت حضرت پیر میاں عبدالخالق قادری سجادہ نشین بھرچونڈی شریف سندھ، مولانا مفتی محمد خان قادری، جسٹس(ر) میاں نذیر اختر، حضرت پیر طریقت میاں محمد حنفی سیفی ماتریدی،آستانہ عالیہ راوی ریان شریف، لاہور، پروفیسر محمد نواز ڈوگری محمدی سیفی، یونیورسٹی لا کالج، پنجاب یونیورسٹی، لاہور، میجر جنرل حامد شفیق، سابق وائس چانسلر گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسمٰعیل خان، پیکر اخلاص عمران مُنیر حسین، حضرت سیّد فیض الحسن شاہ بخاری، سجّادہ نشین، بڑی خانقاہ بہاری، آزاد کشمیر، علّامہ پیر محمد طفیل احمد قادری ہجویری، سجادہ نشین دربار عالیہ رینٹھ بھیال، کھوئی ساٹو کوٹلی آزاد کشمیر اور حضرت سیّد وجاہت رسول قادری، سربراہ، ادارہ تحقیقات امام احمد رضا خان اِنٹرنیشنل نے اپنے تاثرات لکھے ہیں۔ میں اَپنا تبصرہ آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
’’میلاد رسول ﷺ کا اہتمام ہر زمانے میں امت کا پسندیدہ عمل رہا ہے اور اس کی برکات پر پوری امت متفق ہے۔ ولادت رسول ﷺ کی خوشی منانا دراصل اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کا ذریعہ ہے۔ اکابر امت کا قول ہے کہ میلاد منانے سے اہل زمین پر ہر آسمان سے انوار الٰہی اترتے ہیں جو مصائب و آلام اور بلائوں کو دور کرتے ہیں۔ میلاد کی خوشی جس انداز میں بھی منائی جائے اس کا اجر ہے البتہ شریعت مطہرہ کے بنیادی ضوابط کو مدِنظر رکھنا ضروری ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت کرکے اور روزہ رکھ کر اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت پر شکر ادا کیا جاسکتا ہے۔ مساکین کو کھانا کھلا کر، یتیم کی مدد کرکے، طالب علم کو کتابیں اور یونیفارم دے کر بھی میلاد رسول ﷺ کی خوشی میں حصہ لیا جاسکتا ہے۔ بیوائوں کی مدد اور میلاد کی خوشی میں فلاحی، سماجی اور رفاعی کاموں کے ذریعے بھی حصہ لیا جاسکتا ہے۔
جلسہ منعقد کرکے، نعتوں اور درود و سلام کے ورد کے ساتھ جلوس نکال کر بھی میلاد منایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کتاب لکھ کر بھی میلاد منایا جاسکتا ہے۔ صلحائے امت نے ان تمام طریقوں کو مختلف ادوار میں اختیار کئے رکھا۔
مجھے بہت مسرت ہوئی جب یہ جانا کہ سہ ماہی ’’انوار رضا‘‘ جوہر آباد کے چیف ایڈیٹر اور اہل سنت کے معروف دینی صحافی ملک محبوب الرسول قادری صاحب نے اپنے علمی جریدے کی آئندہ اشاعت کو ’’میلاد رسول ﷺ نمبر‘ کے طور پر شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے پھر انہوں نے اس کیلئے نہایت اہم موضوعات و عنوانات متعین و مختص کئے ہیں جن کے مطالعے سے جہاں حب رسول ﷺ کی خوشبو عام ہوگی وہاں عمل صالح کی دعوت بھی قارئین کے ضمیر پر دستک دے گی۔ یہ علم و تحقیق کی روشنی میں دردِ دل سے منظر عام پر لائی جانے والی ایک پیش کش ہے جو صرف اسلامیان پاکستان ہی نہیں بلکہ قومی زبان اردو جاننے، سمجھنے اور پڑھنے والے تمام طبقات تک ضرور پہنچے گی۔ اس حسین کاوش اور کوشش پر میں مصنف اور ان کے رفقائے کار کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کار خیر میں مزید برکات شامل حال فرمائے اور اس کو ہمہ پہلو مفید و کارآمد بنا کر پوری ملت کو اس سے فیض یاب فرمائے۔ آمین!‘‘



.
تازہ ترین