• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں اسٹیٹس کو (جاری نظام بد) کو ہی حتمی ملکی سیاسی طاقت سمجھنے والے رائے سازوں کا یہ یقین بالکل غلط ثابت ہوگیا ہے کہ پاناما کیس سے ’’کچھ نہ نکلے گا‘‘۔ دوسری جانب کے تجزیہ کار یوں درست ثابت ہوئے کہ اس بے نقابی سے حکمران خاندان کا جو کچھ غلط نظر آیا اس پر مٹی ڈال کر چھپانا ممکن ہی نہیں۔ ان کا یہ یقین پکا اور سچا ثابت ہوا کہ ملکی حالات پر اس کے گہرے اور دوررس اثرات ہوں گے۔ ’’آئین نو‘‘ میں موضوع پر بیانیہ تشکیل دیا گیا کہ ’’پاناما کو دبایا نہ جاسکے گا، کچھ نہ بھی ہوا تو بھی بہت کچھ ہوگا‘‘۔
آج ملکی سیاست کا حال اور مستقبل پاناما کیس سے ایسے جڑا ہے کہ یہ ہی ایک بے نقابی قومی سیاست اور بہت حد تک ملکی مجموعی صورتحال کا مرکز و محور بن کر رہ گئی ہے۔ ’’کچھ نہیں ہوگا‘‘ کی پریقیں رائے کے دو محرک تھے۔ ایک وہ رائے ساز جو اسٹیٹس کو کی طاقت کو ناقابل شکست سمجھتے ہیں، وہ اس (نظام بد) پر سخت مایوس ہیں، یا چار وناچار اسے قبول کر چکے ہیں اور اپنے یقین پر لاحاصل محنت یا رائے کے قائل نہیں۔ اسی مایوس کن رائے کا اظہار کرنے والے دوسرے رائے ساز وہ ہیں جن کی یہ رائے سے زیادہ خواہش ہے۔ ظاہر وہ اس نظام بد سے متاثر نہیں بلکہ ان کی زندگی آسودگی یا اطمینان بخش کے درجے پر ہے، وہ تو تبدیلی سے متاثر ہوسکتے ہیں، یوں ان کی رائے اپنے مفاد کے دائرے میں رہ کر تشکیل ہوتی ہے۔ اب جبکہ ملکی سیاست آئندہ کی انتخابی مہم اور نتائج کے ساتھ ساتھ عدلیہ کا اعتماد اور سکت کا کڑا امتحان جے آئی ٹی کی کارکردگی کی شکل میں ہونے کو ہے، کہا جاسکتا ہے کہ ملکی سیاست اور مکمل صورتحال میں پاناما کیس ہی سب کچھ ہے، گویا انہونی ہوتی نظر آرہی ہے یا پھر اور بہت کچھ۔ قوم کو اس کے خوش کن اور (خاکم بدہن) مایوس کن نتائج کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ اس کا ردعمل یا خاموشی قوم و ملک کو بہت کچھ دے گا اور بہت کچھ لے گا۔
خدارا! پاناما کیس کو جاری عملی سیاست کے دائرے سے آگے عشروں سے تشکیل پاتے جاری نظام بد (جس کی بظاہر مذمت تشکیل کے حصے دار حکمران بھی کرنے پر بھی مجبور ہیں) اور ہماری آنے والی نسلوںکے مستقبل سے ہے، جس کا ایک بڑا فیصد حصہ اسکولوں سے باہر اپنے قدرتی اور آئینی حقوق سے محروم آلودہ گلی محلوں، کوڑے کچرے کے ڈھیروں، ورکشاپ اور فیکٹریوں کے سخت گیر ماحول اور آلودہ گھروں کی ظالم بیگمات کی گرفت میں قابل رحم اور فوری توجہ کی طالب زندگی گزاررہا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کی جاری سیاسی ہلچل کے متوازی، اظہار رائے کی آزادی کے بھرپور ماحول اور عدلیہ کے بحال ہوئے اعتماد و وقار، میڈیا کے تیزی سے بڑھتے کردار اور قومی ابلاغ میں اہمیت اختیار کرتے موضوعات نے بالآخر ممکن بنا دیا کہ ’’ملک میں شدت سے مطلوب ٹاپ۔ ڈائون (جو اب تک ڈائون۔ ڈائون ہی چل رہا ہے) احتساب کا آغاز ہو۔‘‘ اگر قوم نے روایتی سیاسی قوتوں کے سات یا چودہ نہیں ان گنت خون معاف کردیئے۔ ایسے بھی جن سے آئین و قانون کا خون ہوا، حتیٰ کہ این آر او ہضم کرلیا، پھر سپریم کورٹ سے اس کالے قانون کی تنسیخ کے حکم پر عملدرآمد نہ ہونے پر بھی چپ سادھ لی، ایسے میں یہ تو بنتا تھا کہ اقتدار کی ہر دو باریوں (بعداز2008) کو کفارے کے ادوار سمجھتے ہوئے انداز حکمرانی اور حکمراں طبقے کے مجموعی رویے پر کڑی نظر رکھی جائے، اگر یہ جوں کا توں رہتا ہے تو پھر صابر و شاکر عوام اور تبدیلی کی علمبردار محدود سکت کی حامل قوت، احتساب کاموقع ملنے پر اسے ہاتھ سے نہ جانے دے۔ وائے بدنصیبی کفارے کے لئے اقتدار کی باریوں کو اپنے اقتدار کا ناگزیر تسلسل جانتے، خلاف آئین و قانون، حلف اور انتخابی وعدوں سے بے وفائی اور عوام کی حالت زار سے طوطا چشمی کرتے پھر حکمرانی کی طاقت کے بدترین استعمال سے حسب روایت دھماچوکڑی مچائی گئی۔سو، ٹاپ۔ ڈائون (عمودی) احتسابی عمل کا آغاز ہوا۔ جب ملک و قوم اور آئین و قانون و حلف پر پارٹی، قیادت اور قبر کو ترجیح دینے والا منتخب وزیراعظم، عدالتی احکام کی حکم عدولی پر جمہوریت کے ڈی ریل ہوئے بغیر گھر جا بیٹھا۔ یوں پاکستان میں عمودی احتساب کا نکتہ آغاز پاناما کیس نہیں بلکہ یوسف رضا گیلانی کا بذریعہ عدلیہ اقتدار سے محروم ہونا تھا۔
پاناما کیس اس کی مزید تصدیق ہے کہ وزیراعظم ا س پارٹی کا ہو یا اس کا، اب احتساب تو ہوگا، بلاشبہ موجودہ وزیراعظم جاری دور کے کسی حکومتی اقدام پر زیر عتاب نہیں آئے، لیکن یہ ضرور ثابت شدہ ہےکہ انہوں نے اپنی حکمرانی کے انداز بشکل آئین و قانون کی خلاف ورزیوں سے ثابت کیا کہ وہ ملک و قوم کے مفادات سے زیادہ اسٹیٹس کو کے محافظ ہیں۔ گزشتہ چار سالوں میں اپنی تیسری بار ی کے چار سال تادم ’’آئین کی مکمل اور قانون کا یکساں نفاذ‘‘ تو کیا ہوتا، اس کی جانب کوئی سنجیدہ انتہائی عملی اقدامات ہی نہیں ہوئے سارا زور اپنے اقتدار کو قائم دائم رکھنے اور اگلی نسل کو منتقل کرنے کے غیر جمہوری سیٹ اپ کی تشکیل پر رہا۔سو، ضروری نہ ہوا کہ جناب وزیراعظم اپنے جاری دور کے کسی خلاف آئین یا غیر قانونی اقدام پر ہی زیراحتساب و عتاب آتے، لگتا توہے کہ قدرت کی پکڑ میں آگئے، یہ خاص و عام کی بھی رائے ہے کہ پاناما کیس نہ اپوزیشن کی سازش سے ہوا نہ داخلی سیاست کے کسی اور محرک سے۔ ہاں اگر، جاری دور کو کفارے کا دور جانتے ہوئے، غریب عوام اور سرکاری ملازمین کی طرح، حکمران طبقے اور سرمایہ کاروں سرمایہ داروں کو بھی اتنا ہی، ان کی طرف بنتے ٹیکس میں جکڑا جاتا، عوام کو اقتدار میں شریک کرنے کے لئے بمطابق آئین ایک صحت مند ڈلیور کرنے والا بلدیاتی نظام کا ماڈل تیار کر کے اسے نمونے کے طور پر ملک میں متعارف کرایا جاتا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے ووٹ کھینچ پروگرام کو جاری رکھنے کی بجائے ملک بھر میں فراہمی روزگار کی اسکیمیں بنائی جاتیں، تھانہ کچہری کلچر اور سرکاری اداروں میں جاری رشوت ستانی کی بیخ کنی اور عوام کو روزمرہ سہولتوں کی بلارشوت و سفارش فراہمی کے لئے شفاف نظام بصورت ای گورننس متعارف کرایا جاتا (جس کے سازگار حالات موجود تھے)، آزادانہ و غیر جانبدارانہ انتخابات کو ممکن بنانے کے لئے نئی قانون سازی کی جاتی۔ زراعت کی زبوں حالی پر توجہ دی جاتی، ہر صوبے کے لئے عوام کو صحت وتعلیم، پینے کے صاف پانی اور دیہی ترقی کے لئے وفاقی حکومت کے فلاحی پیکیج تیار کئے جاتے۔ پبلک شیئر اور مشاورت کے بغیر مشکوک میگاپراجیکٹس مسلط نہ کئے جاتے۔ انسداد احتساب قوانین سے جیلیں صرف چھوٹے چوروں سے ہی نہ بھری ہوتیں، ملکی سلامتی کے معاملات کو افواج پاکستان کے ساتھ دلجمعی سے چلایا جاتا، بھارت سے تعلقات کی ڈیزائیننگ میں قوم کے جذبات و احساسات کو بھی اہمیت دی جاتی اور بہت کچھ جو انہیں بمطابق آئین و قانون کرنا تھا، لیکن اس کے برعکس ہوا، نہ ہوتا تو آج پاناما ہی ملکی سیاست اور حال و مستقبل کا مرکز و محور نہ بنتا اس قوم نے فوجی سول حکمرانوں کی کئی بڑی بڑی غلطیوں، غلطیاں کیا ڈیزاسٹرز پر مٹی ڈال دی اور بار بار اصلاح کا موقع دیا، لیکن 2008 میں شروع ہونے والی تادم جاری جعلی جمہوریت کا حاصل یہ ہی ہے کہ حکمران طبقہ ملک و قوم کی سلامتی و مفادات کے مقابل اپنے ہر ذاتی جماعتی، خاندانی مفادات کا تحفظ ہی ہدف حکمرانی جانتا ہے اور اسی کے لئے تگ و دو میں عوام، اداروں، آئین و قانون سے الجھا رہتا ہے۔ جب تک ہمارے حکمران اورسیاست دان انہیں ہی اپنا محبوب نہیں بناتے، وہ من پسند، جمہوریت اور حکمرانی کے نفاذ کے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ اب تو اس کھیل کی کمائیاں بھی عذاب ہی بن رہی ہیں، سمجھیں کہ حضرت ذوق نے کیا کہا تھا؎
تو جان ہے ہماری اورجان ہے سب کچھ
ایمان کی کہیں گے ایمان ہے تو سب کچھ

.
تازہ ترین