• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ خیر کرے ان دنوں تحریک انصاف کی قیادت نے سپریم کورٹ کے بارے بہت اچھی توقعات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے ۔ کوئی دن اب ایسا نہیں گزرتا جب ان کی طرف سے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار نہ کیا جاتا ہو۔ مجھے علم نہیں کہ فاضل جج صاحبان ایک خاص موقع پر ایک خاص قسم کی تعریف و توصیف کو کس طرح لیتے ہیں اور نہ ہی مجھے اس امر کا کوئی اندازہ ہے کہ پاکستان کا ایک عام شہری ایسے رویوں سے کس نتیجے پر پہنچتا ہے ۔ البتہ کل خواجہ سعد رفیق کا ایک بیان نظر سے گزرا جس میں انہوں نے اس امر پر حیرت کا اظہار کیا تھا کہ شریف فیملی کے مقدمے کے دوران ایک عدالت اندر اور ایک باہر لگی ہوتی تھی مگر اب عمران خان کے خلاف مقدمہ شروع ہوا ہے تو باہر لگنے والی عدالت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔ ایک بات مظہر عباس صاحب نے کی کہ فاضل جج صاحبان کے ریمارکس کے جو ’’ٹکر‘‘ ٹی وی پر چلتے ہیں انہیں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ بہرحال یہ نازک سا موضوع ہے میری عمر میں تو صنف نازک سے بھی دلچسپی معدوم ہو جاتی ہے، چہ جائیکہ عدالتی نزاکتوں میں دلچسپی لی جائے ۔ چنانچہ کچھ دیر پہلے میں نے برادر مکرم ظفر محمود کی بہت دلچسپ ’’معروضات‘‘ پڑھی ہیں۔ جو ان کے اس ’’دور حکمرانی ‘‘ سے تعلق رکھتی ہیں جس دوران کچھ عدالتی اختیارات بھی ان کے زیر استعمال ہوتے تھے میرے خیال میں میرے قارئین آج اسی پر گزارہ کریں! اب آپ جو کچھ پڑھیں گے وہ ظفر محمود صاحب نے کہا ہوا ہو گا چنانچہ اب آپ براہ راست ان سے ہم کلام ہوں ۔
یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ سیکھنے کا عمل گود سے گور تک جاری رہتا ہے سماجی رویوں کے بارے میں مجھے پہلا اہم سبق 1967ء میں ملا۔میں اس وقت کیڈٹ کالج حسن ابدال میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ہمارے انگلش ٹیچر عبدالرئوف ایک انگریزا سکالر کی معاونت کرتے تھے جو زبان کے استعمال اور ہمارے سماجی رویوں کے تعلق کو سمجھنا چاہتا تھا ۔ یہ معاونت اس نوعیت کی تھی کہ رئوف صاحب چھٹی کا پورا دن اس انگریز پروفیسر کے ساتھ راولپنڈی کے گلی کوچوں اور بازاروں میں گھومتے پھرتے گزارتے ۔ لوگ چاہے اردو، پنجابی یا پوٹھوہاری زبان میں بات کریں اس کا ترجمہ انگریز کو سناتے ۔ رئوف صاحب نے اس تحقیق کا کلاس میں ذکر کیا تو ہمیں اس مطالعہ کی افادیت سمجھ نہ آئی۔رئوف صاحب نے مثال کے طور پر گزشتہ اتوار کا واقعہ سنایا وہ انگریز کے ساتھ راول جھیل میں کشتی رانی کر رہے تھے کہ کشتی بری طرح ڈول گئی ۔ملاح کے ساتھ ان کا نوعمر بیٹا بھی تھا اس نے گھبرا کر باپ سے کہا ’’ابا ہم ڈوب گئے ‘‘ رئوف صاحب نے ہمیں بتایا کہ جب بیٹے کے ردعمل کا ترجمہ انگریز نے سنا تو وہ بہت محظوظ ہوا اس نے رئوف صاحب سے کہا کہ اگر یہ کشتی دریائے ٹیمز میں ڈولتی تو انگریز بچہ زیادہ سے زیادہ یہ کہتا "Father,the boat is giving us trouble"وہ صرف کشتی کے ڈولنے کا ذکر کرتا اور اس انتہا تک نہ پہنچتا کہ ’’ابا ہم ڈوب گئے ‘‘ اس واقعہ کو سنانے کے بعد رئوف صاحب نے کہا "Our problem is that we quickly jump to conclusion" یعنی ہم بہت عجلت میں نتائج اخذکرتے ہیں ۔ہمیں اس رجحان پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
دوسرا سبق 1981ءمیں ملا انسان کو اپنی کمزوری کا ادراک نہیں ہوتا خود راستی دماغ پر سوار ہو تو رویے کی کمزوری کا ازخود احساس کرنا ممکن نہیں رہتا ۔کوئی دوسرا ہی توجہ دلا سکتا ہے خوش قسمتی سے مجھے ایک بہت محترم شخصیت سے سیکھنے کا موقع ملا ۔میں اسسٹنٹ کمشنر تھا اور وہ فیصل آباد میں سیشن جج میرے فیصلے کی اپیل ان کے سامنے پیش ہوئی فوجداری مقدمے میں معمولی جرم پر سخت سزا سنائی تھی۔ سیشن جج فضل کریم صاحب نے اسے کالعدم قرار دے دیا وہ مجھ پر مہربانی فرماتے تھے ۔ ملاقات ہوئی تو انہوں نے پتے کی بات کی کہنے لگے ’’ظفر ! فیصلے میں راست بازی کا جوش و جذبہ شامل ہو جائے تو قانون سے تجاوز ہو جاتا ہے ۔ تیسرے سبق کا تعلق 1988ء سے ہے واقعہ مرحوم جسٹس ٹوانہ سے متعلق ہے وہ سیالکوٹ میں سیشن جج تھے میرے پیش رو ڈپٹی کمشنر شاہد نجم ایک ایماندار اور باصلاحیت افسر تھے مگر ٹوانہ صاحب کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ رہے۔ شاہد نجم نے بتایا کہ کشیدگی کی وجہ ٹوانہ صاحب کا رویہ ہے وہ ہر کسی کو کرپٹ اور بددیانت سمجھتے ہیں ۔میری تعیناتی کو دو دن ہی گزرے تھے کہ سیشن جج کی طرف سے ایک خط موصول ہوا خط عدالتی حکم نامے کی صورت تھا فرمایا کہ ایک قتل کے کیس میں دو ڈی ایس پی صاحبان نے بددیانتی کی ۔ ان کی تفتیش میں چند ملزمان کو الزام سے بری قرار دیا گیا۔ مدعی فریق نے تفتیش سے اتفاق نہیں کیا اور سیشن جج کی عدالت میں پرائیویٹ استغاثہ دائر ہوا۔ شہادت ریکارڈکرنے کے بعد سیشن جج صاحب نے فیصلہ کیا ہے کہ جن لوگوں کو پولیس کی تفتیش میں بےگناہ قرار دیا ہے انہیں عدالت میں طلب کیا جائے ۔ اس بنا پر ٹوانہ صاحب نے نتیجہ اخذ کیا کہ پولیس کے دونوں تفتیش کار، ڈی ایس پی بددیانت ہیں انہیں نوکری سے نکالا جائے۔تعمیل کی ذمہ داری انہوں نے بطور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مجھے تفویض کی اور حکم دیا کہ میں ان کے احکامات پر حکومت پنجاب سے عملدرآمد کروائوں۔یہ ڈیوٹی بھی لگائی کہ ہر ہفتے ایک پراگریس رپورٹ میرے دستخطوں سے ان کی عدالت میں پیش کی جائے ۔پولیس کے ایس پی رائو اقبال سے رابطہ کیا وہ ایک نیک افسر تھے کیس فائل لیکر میرے پاس آئے اور میں اس نتیجے پر پہنچا کہ پولیس کی تفتیش باد ی النظر میں درست تھی مشکل یہ تھی کہ ٹوانہ صاحب کے حکم سے کیسے نپٹا جائے۔ان سے ملاقات کی درخواست بھجوائی تو دو دن بعد کا وقت ملا موقع ملنے پر ان کی شخصیت کا جائزہ لیا تو وہ نہایت ایماندار اور راست باز شخص نظر آئے ۔مسئلہ تھا تو ان کی سوچ میں ایک انتہا پسند رویے کا، اپنے علاوہ سب کو بددیانت سمجھتے تھے اور الزام کی حتمی تحقیق سے پہلے ہی ملزم کو مجرم سمجھ لیتے تھے۔میں نے مودبانہ گزارش کی کہ فی الوقت آپ نے مدعی کا پرائیویٹ استغاثہ صرف سماعت کے لئے منظور کیا ہے کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ غلط تفتیش کرنے والے ڈی ایس پی صاحبان کو نوکری سے نکالنے کا معاملہ آپ کے حتمی فیصلے تک موخر کر دیا جائے۔انہوں نے کرخت لہجے میں جواب دیا ’’میں نے گواہوں کے بیانات لکھے ہیں اور مجھے کوئی شک نہیں کہ جن ملزمان کو تفتیش میں بے گناہ قرار دیا گیا ہے وہ اصلی مجرم ہیں‘‘
ایک بددیانت کو قابو کرنا آسان ہوتا ہے مگر ایک سرپھرے ایماندار سے ٹکر لینا مشکل، اپنی انا کو سلا دیا لہجے میں مزید لجاجت پیدا کی ۔عرض کیا کہ قانون کے بارے میں آپ سے بحث نہیں ہو سکتی ۔میں سورج کو چراغ نہیں دکھا سکتا۔ فیصلہ آپ کر چکے ہیں اور میں آپ کی حکم عدولی کا سوچ بھی نہیں سکتا میں حکومت پنجاب کو آپ کے حکم پر عملدرآمد کے لئے مجبور کروں گا ۔میری بات سننے کے بعد ان کے رویے میں کچھ نرمی آئی ۔انہیں کم از کم یہ یقین ہو گیا کہ میں بطور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ان کا تابع فرمان ہوں۔چائے منگوائی گئی میرے پیش رو کی بدتعریفی اور میری سمجھداری کی تعریف ہوئی گفتگو کے دوران ماحول موافق ہوا تو عرض کی ’’سر!کیا یہ ممکن ہے کہ پرائیویٹ استغاثہ میں جب ملزم فریق، گواہوں پر جرح کے بعد اپنا قانونی دفاع پیش کرے تو آپ استغاثہ خارج بھی کرسکتے ہیں ؟‘‘ انہوں نے کچھ دیر سوچا پھر کہنے لگے ’’ہو تو سکتا ہے مگر یقین ہے کہ ایسا نہیں ہو گا‘‘ وہ نرم ہوئے تو چند لمحوں بعد میں انہیں قائل کرنے میں کامیاب ہوا۔ ٹوانہ صاحب رضامند ہوئے اور وہی ہوا جس کی توقع تھی آخر کار استغاثہ خارج ہو گیا۔ اس واقعہ سے سبق ملا کہ جب تک شہادت کو چھان پھٹک نہ لیا جائے غلط فیصلے کا احتمال باقی رہتا ہے ۔ حتمی فیصلے کو مکمل تحقیق تک موخر کرنا ہی بہتر ہے۔
یہ واقعات اتنے عرصے کے بعد مجھے کیوں یاد آئے ؟ پاناما کیس کا فیصلہ میڈیا میں زیر بحث ہے ۔ماہرین کی رائے اپنی سیاسی پسند اور نا پسند کی دو انتہائوں کے درمیان جھول رہی ہے ۔فضل کریم صاحب فیصل آباد میں جج تھے بعدازاں لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے جج بنے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے کتابیں بھی لکھیں اور لمز یونیورسٹی میں درس و تدریس سے منسلک رہے۔ انہوں نے 1981ء میں میرے خودراستی کے جذبے کے تحت شوق انصاف کو بے لگام ہوتے دیکھا تو مجھے سمجھانے کے لئے فرمایا "Crusades do not make good judges" اس جملے کا آسان فہم ترجمہ یہی ہو سکتا ہے کہ ’’صلیبی جنگیں لڑنے والے جنگجو اچھے مصنف نہیں بن سکتے۔‘‘
ظفر محمود صاحب کا بیان ختم، مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، آپ خود سمجھدار ہیں ۔

.
تازہ ترین