• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے درست طور پر نشاندہی کی ہے کہ کوئی بھی جمہوری ملک سوشل میڈیا کو مادر پدر آزادی نہیں دے سکتا۔ حکومت اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرتی ہے مگر قانون اور آئین کے مطابق سوشل میڈیا کے حوالے سے کچھ حدود کا تعین ضروری ہے۔ منگل کو پنجاب ہائوس اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے جہاں سوشل میڈیا کے لئے اصولوں اور ضابطوں کی ضرورت اجاگر کی وہاں یہ بھی واضح کیا کہ اس حوالے سے سرخ لکیریں کھینچی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب سے باضابطہ قانون سازی کے ذریعے سوشل میڈیا ایف آئی اے سائبر کرائم سیکشن کے اختیار میں آیا ہے، اُسی وقت سے اُس کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ پریس کانفرنس میں سوشل میڈیا کے نئے ضابطہ اخلاق کی تدوین کے حوالے سے بھی کچھ باتیں کہی گئیں مگر ظاہر ہے کہ متعلقہ شعبوں کی تنظیموں کی مشاورت سے اس طرح کی دستاویز کی تیاری میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ درپیش صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ سائبر کرائمز کے بارے میں جو قانون بن چکا ہے اور نافذ العمل ہے اس پر بلاتاخیر موثر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ انسانی معاشرہ اصولوں، ضابطوں، قدروں اور روایات کا تابع ہوتا ہے۔ لوگ سڑک پر گاڑی لے کر آتے ہیں تو اس کیلئے بھی انہیں ٹریفک کے اصولوں کی پاسداری کرنا ہوتی ہے۔ عام گفتگو میں بھی بڑوں کے ادب، چھوٹوں سے شفقت، پڑوسیوں سے حسن سلوک ،حتیٰ کہ راستہ پوچھنے والے اجنبی تک سے احترام پر مبنی الفاظ اور لہجے کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔ جن معاشروں میں قوانین، اصولوں، ضابطوں اور اخلاقی اقدار کو نظرانداز کرنے کا سلسلہ چل پڑتا ہے ان معاشروں کے بعض حصے وہ نقشہ پیش کرنے لگتے ہیں جو ہم نے کچھ عرصے پہلے تک شمالی اور جنوبی وزیرستان میں دیکھا جبکہ ہماری مسلح افواج پاکستانی عوام کو مذکورہ صورتحال کے باقی ماندہ اثرات سے نجات دلانے کیلئے تاحال سرگرم عمل ہیں۔ دنیا بھر میں، اور خاص طور پر وطن عزیز میں، سوشل میڈیا کے آنے کے بعد اسکا جس بے دردی و بے رحمی کے ساتھ اور غیر اخلاقی طور پر استعمال کیا گیا اس کی سنگینی بیشتر معاشروں میں کچھ عرصے پہلے سے محسوس کی جاتی رہی ہے۔ کوئی ملک اور کوئی سماج اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ جس کا جو جی چاہے کسی کے بھی بارے میں بلاروک ٹوک کہتا چلا جائے۔ متعدد ممالک میں عوامی سطح پر اس رجحان کو تشویش کی نظر سے دیکھا گیا اور حکومتی سطح پر قانون سازی کے ذریعے سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے پر توجہ دی گئی۔ جو لوگ اس ذریعۂ ابلاغ کو غلط طور پر استعمال کرتے ہیں، اسکے ذریعے شرفا کی پگڑی اچھالتے ہیں، فرض شناس حکام، افسران اور عمال کی دیانت و امانت کو مشکوک بناتے ہیں اور لوگوں کو ذہنی اذیتوں سے دوچار کرتے ہیں انہیں متعدد ممالک میں قانون کے شکنجے میں لایا گیا ہے۔ متعلقہ ضوابط کی خلاف ورزی پر کٹہرے میں لائے جانے کا یہ سلسلہ محض افراد تک محدود نہیں بلکہ فیس بک اور گوگل جیسے ادارے بھی سزائیں پانے اور جرمانے ادا کرنے والوں میں شامل ہیں۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں بعض معاملات پر اس وقت تک توجہ نہیں جاتی جب تک طاقتور ادارے انکی زد میں نہیں آتے۔ اب جبکہ دشنام طرازی کا سلسلہ دفاع وطن کیلئے قربانیاں دینے والی فوج اور آئین و انصاف کے نگراں ادارے عدلیہ سے بھی آگے بڑھ کر مقدس ہستیوں تک جا پہنچا ہے تو متعلقہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد ناگزیر ہوچکا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ایف آئی اے میں موجود سائبر کرائم کے شعبے کو زیادہ مستحکم و فعال بنایا جائے اور معاشرے کو مکمل انارکی کی طرف لے جانیوالے تمام راستے بند کئے جائیں۔ غیر منظم سوشل میڈیا، بے نامی آئی ڈیز اور دوسروں کے نام سے آئی ڈیز بناکر بے سروپا باتیں پھیلانے یا لوگوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا توہین آمیز مواد پھیلانے کی اگرچہ کسی حال میں گنجائش نہیں ہوتی مگر وطن عزیز اس وقت جن چیلنجوں سے دوچار ہے ان میں مذکورہ چیزیں انتہائی سنگین نتائج کا سبب بن سکتی ہیں۔ اس باب میں ایسی تدابیر ضروری ہیں جن سے اظہار رائے کا جمہوری حق بھی متاثر نہ ہو اور سماجی قدریں بھی مجروح نہ ہوں۔

.
تازہ ترین