• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئندہ ٹیکس چوری اور ملک سے پیسہ باہر لے جانا ممکن نہیں رہیگا،اسحٰق ڈار

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ ٹیکس چوری اور ملک سے پیسہ باہر لے جانا ممکن نہیں رہے گا،ہم متحد ہو کر معاشی مستقبل کے روڈ میپ کو اکٹھے متعین کریں اور اس پر سیاست نہ کریں ۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ سندھ حکومت اور آئی جی سندھ کے درمیان تنازع شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔اسحٰق ڈار نے مزید کہا کہ ہم نے میکرو اکنامک انڈیکیٹر کو مد نظر رکھتے ہوئے بجٹ ترتیب دیا ہے کیونکہ ہم اس کو خراب نہیں ہونے دینا چاہ رہے اور یہ بڑی ہی بدقسمتی ہوگی کہ ہم اخراجاتی بجٹ کرتے کرتے یا ڈیولپمنٹ بجٹ کرتے کرتے اگر ہم نے جو میکرو اکنامک گین حاصل کی ہے تین سال میں بڑی مشکل سے اور2013 کے الیکشن سے پہلے پاکستان کو کہا جارہا تھا کہ چھ سے سات سال کا عرصہ لگ جائے گا پاکستان کو یہاں تک پہنچنے میں ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ اخراجاتی بجٹ ہے ، یہ ڈیولپمنٹ بجٹ ہے پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک ہزار ایک ملین جو کہ چالیس فیصد زیادہ ہے پچھلے سال سے اور ہم نے اپنے ایگریسیو پلان بنائے ہیں کیونکہ اگر آپ نے سات فیصد جی ڈی پی کی طرف جانا ہے تو پھر آپ کو ایگریسیو پلان پر کام کرنا پڑے گا اگلے سال کا ٹارگٹ ہم نے 6 فیصد رکھا ہے لیکن 2018سے 2023 کا جو جو پلان میں نے بجٹ تقریر کے آخر میں دیا ہے کیونکہ یہ ٹیکنکلی آخری بجٹ ہے اور پارلیمنٹ اگر چاہے تو  اگلے سال مئی 2018ء میں چھٹا بجٹ بھی دے سکتی ہے تاکہ نگراں حکومت کو بجٹ بنانے کی زحمت نہ دی جائے تو اس میں جو ہدف اور پلان ہے مستقبل کا وہ پانچ سال کا دیا ہے۔ میری درخواست ہے کہ ہم سب متحد ہوکر مل کر پاکستان کے معاشی مستقبل کے روڈ میپ کو اکٹھے متعین کریں اور اس کے اوپر سیاست نہ کریں ۔ اگر آپ اپنی گروتھ کو بڑھائیں گے تو آپ پر اتنا پریشر نہیں آئے گا جتنا ریونیو کو ادھار لے کر کور کرنے سے آئے گا ۔ اگر ہم نے فنائشنل فیصلے کو برقرار رکھا اور جو نیٹ ٹوٹل ہے ساری چیزوں کا اگر اس کو ہم نے اس سال 4.2اگلے سال 4.1کے قریب رکھ لیا تو جس میں 0.3فیصد اخراجات ہیں ۔ بجلی کی جنریشن جب ہم آئے تھے تو مائنس 26 فیصد تھی پہلے سال ہم اس کو مائنس ایک فیصد پر لے کر آئے ہر سال ہم اس میں بہتری لاتے گئے ۔ بیس لائن میں معمول گیپ ہے جو جلد ہی پُر ہوجائے گا اس سال جو امپورٹ بڑھی ہے اس میں چالیس فیصد مشینری میں اضافہ ہوا ہے پچھلے دس مہینے میں اس سے آپ کی انڈسٹریل ایکٹیویٹی میں بہتری آئے گی ۔ میں سمجھتا ہوں ہم نے بہت ہی مناسب ٹارگٹ رکھا ہے اگلے سال کے لئے اس سے پہلے ہم ہمیشہ مشکل ٹارگٹ رکھتے تھے اس پر باتیں سننا پڑتی تھیں ، فارن انویسٹر کی بات تو بعد میں اپنا ہی انویسٹر جو ہے وہ دل چھوڑ رہا ہے 2013ء میں کراچی میں روشنیاں غائب ہوگئی تھیں ، ملک بھر میں روز ہی کوئی ناں کوئی دھماکہ ہوتا تھا ۔ پاکستان میں کوئی بھی حکومت آتی اس کو چار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا جس میں انرجی کا چیلنج تھا ،معیشت کا چیلنج تھا ، ایکسٹریم ازم کا چیلنج تھا اور سوشل سیکٹر کو توجہ دینے کا چیلنج تھا جس کو ہم 40ارب سے 120 ارب روپے پر اٹھا کر لے گئے ہیں ، پورا ملک 2.3ٹریلین کراس کررہا ہے ۔ مدت کے بعد یہ پہلا سال ہے کہ اس ملک میں جو بھی ترقیاتی اخراجات ہوں گے یعنی جو انویسٹمنٹ ہوگی وہ آپ کے بجٹ خسارے سے زیادہ ہوگی یہ ایک مثبت سائن ہے کہ آپ کی معیشت اس طرح سے آگے بڑھی ہے اور مالی طور پر استحکام آیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہمارا ہر روپیہ ہے وہ ملکی تعمیر میں لگ رہا ہے ناں کہ کسی اور اخراجات میں نہیں ہے ۔ 2013میں تو مقامی صنعت کار بھی دوسری لوکیشن ڈھونڈ رہا تھا اب یہ ٹرینڈ تبدیل ہورہا ہے 2030 میں یہ رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان گلوبل 20میں شامل ہوگا ۔ ہمارے بزنس مین بہت ذہین ہے وہ جانتے ہیں کونسا وقت ہے پاکستان میں سرمایہ کاری کا اور مجھے یقین ہے کہ آنے والے سالوں میں ٹیکس چوری اور پاکستان سے پیسہ باہر لے جانا ممکن نہیں رہے گا ۔ اور میں سمجھتاہوں یہ بہت بڑے اقدامات ہیں جس کا آنے والے سالوں میں پاکستان کو بہت بینفٹ ہوگا ۔ ہم نان فائلر کی زندگی اجیرن کرتے جارہے ہیں اس کو سزا ملنی چاہئے کہ وہ زیادہ پیسہ ادا کرے اور یہی وجہ ہے کہ ہم سوا سات لاکھ سے بڑھ کر سوا بارہ لاکھ پر آگئے ہیں لیکن یہ پاکستان کے لئے کافی نہیں ہے، ہم پچھلے سال کوشش کرتے رہے کہ صوبے خود ویلیوز بڑھائیں لیکن جب نہیں بڑھی تو پھر ہم نے بڑھادی ۔ ہمیں ویلیو ایڈیشن کی طرف بطور قوم جانا ہوگا ہم کو آئی ٹی انڈسٹری میں اسکوپ نظر آرہاہے اس کو ہم نے ٹیکل کرنا ہوگا ۔ ہمارے پاس اگر کوئی گرے ایریا ہے تو وہ ایکسپورٹ ہے جس کی مختلف وجوہات ہیں کیونکہ ہماری جی ڈی پی کا سائز الحمد للہ پہلی مرتبہ 3بلین ڈالر سے کراس کرگیا ہے ۔ لیکن ہماری ایکسپور ٹ ابھی بھی متوقع ہے اس سال کے آخر میں 29.1بلین کے قریب ۔ بنگلہ دیش کی گروتھ کی وجہ وہ سہولیات ہیں جو پاکستان کو نہیں ملی ہیں ، انڈیا نے جو کیا ہے انہوں نے بہت ہی لبرل قسم کے ڈیوٹی ڈراپس دیئے ہیں جو کہ فٹ کیسز ہیں اینٹی ڈمپنگ کے لئے اور اس کی انٹرنیشنل فورم پر بھی شکایات ہوسکتی ہیں اگر ہماری انڈسٹری اس کو درست طریقے سے جائزہ لے ۔ میزبان نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ چار ہزار سات سو 53 ارب روپے کا ریکارڈ بجٹ ، ن لیگ کی حکومت کی طرف سے پیش کیا گیا ہے ، ڈیولپمنٹ کے لحاظ سے بھی سب سے بڑا بجٹ ہے مگر اس پر پاکستان کے ایکسٹرنل سیکٹر کو لے کر کچھ سوالات پیدا ہورہے ہیں کیا پاکستان 7فیصد کے نمبر پر جارہا ہے یہ سوال بھی پیدا ہورہا ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ خسارے کو کم کیا ہے اور اس کو آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت لے کر آئے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ اسحاق ڈار کی طرف سے ٹارگٹ کو اچیو کیا گیا مگراسٹیج پر آکر اتنے اخراجات والا بجٹ پیش کیا گیا ہے ایسا تو نہیں کہ ایک مرتبہ پھر مسائل پیدا ہوجائیں گے اور اسٹیٹ بینک کو شرح سود بڑھانی پڑجائے گی ۔ معیشت کو کہیں واپسی کا دھچکا نہ لگ جائے ، پاکستان کی معیشت نے دیکھا ہے مشرف صاحب کا دور تھا تو گروتھ 8فیصد سے بھی زائد تھی لیکن جو میکرو اکنامک انڈیکیٹر تھے وہ اچانک بدلے اور ڈومیسٹک پریشر اور ایکسٹرنل پریشر آگئے ۔ ڈومیسٹک پریشر کے آنے سے معیشت گرگئی ۔ سات فیصد کی طرف جارہے ہیں ، پانچ فیصد پاکستان نے دس سال میں پہلی مرتبہ کراس کیا ہے لیکن اس سات فیصد کے لئے لازمی ہے اور سات فیصد کا نمبر میجکل ہے کیونکہ اس سے ایمپلائیمنٹ جنریشن بھی ہوگی اور سارے ہی کام بہتر ہوں گے اگر حکومت چاہتی ہے کہ انڈسٹری جنریٹ کرے جب حکومت نے ٹیک اوور کیا 0.8 فیصد کی انڈسٹری گروتھ کررہی تھی جس کے بعد 4.53پر گئی ، پھر 5.2اوراس کے بعد 5.8 پر گئی جس سے لگ رہا تھا کہ تیزی سے گروتھ ہورہی ہے مگر اس سال حکومت کے جی ڈی پی کی اوور آل گروتھ تو بڑھی لیکن انڈسٹری کی گروتھ سلو ڈاؤن ہو گئی ۔حکومت کی 5فیصد گروتھ ہائی بیس لائن میں آئی ہے اور بیس لائن تو سب پر لاگو ہوتی ہے ۔ پلانٹ اور مشینری کی امپورٹ میں پاور سیکٹر اور دیگر چیزیں تو ہیں مگر یہ حکومت کو یقین ہے کہ پرائیویٹ سیکٹرکی طرف سے انڈسٹری لگانے کے لئے پلانٹ مشین کی امپور ٹ ہے کیونکہ پرائیویٹ سیکٹر میں اضافہ ہوا ہے جو پہلے نہیں ہورہا تھا ۔ رئیل اسٹیٹ اور اسٹاک مارکیٹ بھی بہترین رزلٹ دے رہے ہیں ۔ حکومت کو اس بات کا کیا یقین ہے کہ انڈسٹری لگ رہی ہے کیونکہ دلچسپی نہیں ہے پرائیویٹ سیکٹر کی انڈسٹری کے لئے ۔ حکومت جس سات فیصد کی طرف جارہی ہے وہ سات فیصد معنی خیز ہے عوام کے لئے اور معیشت کے لئے آخری اسکیل اسی وقت ہوگا جب ایکسپورٹ بڑھے گی اور انڈسٹری لگے گی اور روزگار بھی ملے گا ۔ مگر اس وقت نظر آرہا ہے جو Incentive ہے رئیل اسٹیٹ میں جانے کا اور اس میں دلچسپ قسم کے گین ملتے ہیں ، سوال زیادہ ہوتا نہیں ہے ، بلیک منی وائٹ ہوجاتا ہے ۔ حکومت نے ضرور رئیل اسٹیٹ کی قیمتیں بڑھائی ہیں مگر ابھی بھی وہی 10,20 فیصد ہیں مارکیٹ قیمتیں یا 25فیصد ہیں تو وہ Incentive نہیں ہے انڈسٹری لگانے کا یہ سوال نہیں پوچھا جاتا ہے کسی سے ، پاکستان میں چوری کا پیسہ پار کرنا بڑا آسان ہے اس کے لئے حکومت کیا اقدامات کررہی ہے ، حکومت انویسٹمنٹ کے لئے زبردستی کسی کے ساتھ نہیں کرسکتی ہے لیکن مواقع ضرور فراہم کرسکتی ہے ۔
تازہ ترین